بنگلہ دیش نے انڈیا سے کہا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو اپنے ملک میں رہتے ہوئے ’جھوٹے اور من گھڑت بیانات‘ دینے سے روکے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق وزارت خارجہ نے اپنے فیس بک پیج پر جاری بیان میں بتایا ہے کہ اس نے ڈھاکہ میں انڈیا کے قائم مقام ہائی کمشنر کو احتجاجی مراسلہ دیا جس میں شیخ حسینہ واجد کے بیانات پر شدید تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزارت نے درخواست کی ہے کہ انڈیا باہمی احترام کے جذبے کے تحت انہیں اس طرح کے جھوٹے، من گھڑت اور اشتعال انگیز بیانات دینے سے روکنے کے لیے فوری طور پر مناسب اقدامات کرے جب تک وہ انڈیا میں ہیں۔‘بدھ کو سوشل میڈیا پر اپنے آن لائن خطاب میں شیخ حسینہ نے اپنے حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے عبوری حکومت پر غیرآئینی طریقے سے اقتدار پر قبضے کا بھی الزام لگایا۔
سابق وزیراعظم کے خطاب سے پہلے ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین جمع ہوئے اور شیخ حسینہ کے آبائی گھر پر حملہ کر کے اسے جلا دیا جو ان کے والد اور ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے دور میں بنایا گیا تھا۔
اگرچہ انڈیا نے بنگلہ دیش کی درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم، وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے شیخ حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمان کے گھر کی ’توڑ پھوڑ‘کی مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ ’یہ افسوسناک ہے۔ وہ تمام لوگ جو آزادی کی جدوجہد کی قدر کرتے ہیں جس نے بنگلہ دیش کو شناخت دی، وہ اس رہائش گاہ کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔‘بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے پریس آفس نے جمعرات کو کہا تھا کہ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ پر حملہ حسینہ واجد کے ’پُرتشدد رویے‘ کا ردّعمل ہے۔ڈھاکہ میں ہزاروں مظاہرین نے سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے آبائی گھر پر حملہ کر کے اسے جلا دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)بیان میں کہا گیا تھا کہ ’حکومت کو اُمید ہے کہ انڈیا اپنی سرزمین کو بنگلہ دیش میں عدم استحکام کے مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اور شیخ حسینہ کو بولنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘بنگلہ دیش میں اگست 2024 سے شورش جاری ہے جب ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد وزیراعظم اقتدار اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور پڑوسی ملک انڈیا میں پناہ لی۔
موجودہ عبوری حکومت کی قیادت کرنے والے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ملک میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس سے قبل بھی مظاہرین حسینہ واجد کے دور حکومت کی اہم نشانیوں پر حملے کر چکے ہیں، جن میں شیخ مجیب الرحمان کا گھر بھی شامل تھا، جس کا کچھ حصہ اگست میں جلا دیا گیا تھا۔
ملک کے قیام کی علامت یہ وہی گھر تھا جہاں سے دسمبر 1971 میں پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔