’قتل ہو گیا تھا، پولیس نے قاتل پکڑ لیا‘: پنجاب پولیس کی افسر شہربانو نقوی کی پوڈکاسٹ میں گفتگو پر تنقید کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Dec 22, 2025

’مجھے میرے ایس ایچ او کی کال آ رہی ہے۔ ہاں جی خرم۔۔۔ بندہ پکڑ لیا ہے؟ رُکو میں آ رہی ہوں، آپ کدھر ہیں۔۔ اوکے اوکے۔ آپ لوگ اِسی طرح رہیں، ایک قتل ہو گیا ہے، میں جلدی سے ہو کر آئی۔‘ اور یہاں سکرین پر لکھا دکھائی دیتا ہے ’ایک گھنٹے بعد‘۔

اس دو منٹ کی وائرل ویڈیو میں پنجاب پولیس کی اے ایس پی شہربانو نقوی کو دیکھا جا سکتا ہے جو ایک پوڈکاسٹ انٹرویو میں موجود تھیں۔

ویڈیو کے اگلے حصے میں شہربانو نقوی پوڈکاسٹ کے میزبان کو بتاتی ہیں کہ ایک ’قتل‘ ہو گیا تھا جس کے لیے ان کا جانا ضروری تھا۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تعینات اے ایس پی شہربانو اپنے کیریئر کے دوران بہادری اور حاضر دماغی رکھنے کے باعث اکثر داد وصول کرتی ہیں۔وہ اکثر پولیس کے محکمے کی نیک نامی کے لیے سوشل میڈیا پر نظر آتی رہتی ہیں۔

تاہم اس ویڈیو کلپ میں قتل کے ایک کیس کے بارے میں بے تکلف انداز میں بات چیت سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر اے ایس پی شہر بانو نے مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ویڈیو بہت پرانی ہے۔‘ جبکہ پوڈکاسٹ کے میزبان کا کہنا تھا کہ یہ کلپ پولیس اہلکار کی اجازت سے انٹرویو میں شامل کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال فروری کے دوران شہربانو نقوی نے لاہور کے اچھرہ بازار میں ہجوم سے گھری ایک خاتون کو بحفاظت نکالا تھا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اُنھیں قائد اعظم میڈل سے بھی نوازا تھا۔

دو منٹ کے ویڈیو کلپ پر تنازع کیوں؟

ویڈیو کلپ میں ’ایک گھنٹے بعد‘ کے پیغام کے بعد اے ایس پی شہربانو اور پوڈکاسٹ میزبان کے درمیان بات چیت کچھ یوں ہوئی۔ اینکر نے ان کے کام کی تعریف کے بعد مسکراتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا میں جان سکتا ہوں کہ کیا ہوا تھا؟‘ جس پر پولیس افسر کہتی ہیں کہ ’قتل‘۔

اس کے بعد شہر بانو نے بتایا کہ کیسے ایک شخص نے اپنے دوست کو پیسوں کے معاملے پر جان سے مار دیا مگر پولیس نے ’قاتل کو پکڑ لیا‘ اور لاش بھی مل گئی ہے۔ وہ بے تکلف انداز میں یہ بھی بتاتی ہیں کہ پولیس نے ایک کامیاب آپریشن میں یرغمالی کو بھی چھڑوا لیا تھا۔

کئی صارفین نے تبصرہ کیا کہ پولیس اہلکاروں کو سنگین جرائم کے معاملے میں قانون کے مطابق محتاط انداز میں بات چیت کرنی چاہیے۔ جبکہ کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ پولیس اس ویڈیو کلپ سے پیغام دینا چاہ رہی تھی۔

لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: معافی کی ویڈیو کا مقصد خاتون کی زندگی محفوظ بنانا تھا، اے ایس پی شہربانوریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا ڈی این اے نامزد ملزم سے میچ نہ ہونے پر پولیس اصل والد تک کیسے پہنچی؟سمندری میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے محمد آصف کا ٹی ایل پی اور فوج سے کیا تعلق تھا؟لاہور کے تاجر پر’20 کلو گولڈ‘ غائب کرنے کا الزام: ’تجوری دیکھی تو سارا سونا غائب تھا‘

علی زیدی ویلاگ نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’کسی مہذب معاشرے میں ایک پولیس افسر یہ کرتیں تو اُسے نہ صرف برطرف کیا جاتا بلکہ جیل ہو جاتی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’ایک گھنٹے میں ایف آئی آر نہیں لکھی جاتی مگر انھوں نے قاتل بھی پکڑ لیا اور قتل کی وجہ بھی میڈیا پر بتا دی۔ عدالتیں جس کام میں سالوں لگا دیتی ہیں، انھوں نے ایک گھنٹے میں کر دیا۔۔۔ واہ!‘

فیاض شاہ نامی صارف نے طنز کیا کہ ’پاکستان ابھی ٹِک ٹاکرز کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔‘

جبکہ صحافی وحید مراد نے اظہار تفنن لکھا کہ ’پنجاب پولیس والے/والیاں چھا گئے ہر طرف۔ سڈنی کی بونڈائی بیچ حملے کی تحقیقات کرنے والے نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے افسران کو بھی سیکھنا چاہیے۔‘

شاہد عباسی نامی صحافی نے بھی لکھا کہ ’ایک ’قتل پر مسکراہٹ بھرے جواب۔ واقعی ایسا پنجاب پولیس ہی کر سکتی ہے۔‘

Getty Imagesشہربانو نقوی کا ردعمل: ’یہ کلپ بہت پرانا ہے‘

بی بی سی کے بھیجے گئے سوالات پر اے ایس پی شہربانو نقوی نے ٹیلی فون پر مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ویڈیو بہت پرانی ہے۔‘

ایک تحریری جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں کوئی خبر نہیں ہے۔ اس پر خبر بنانے کی کوشش نہ کریں۔ اس میں کسی چیز کا کوئی پس منظر نہیں ہے۔‘

دوسری طرف اس کلپ میں موجود ’وائس آف کلک می پاکستان‘ کے پوڈکاسٹ میزبان فیروز چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ پوڈ کاسٹ 17 ستمبر 2025 کو لاہور کے تھانہ ڈیفینس بی میں ریکارڈ کی گئی اور اُس وقت شہربانو نقوی اے ایس پی ڈیفینس تھیں۔ اُن کے بقول یہ پوڈ کاسٹ گذشتہ ہفتے اپ لوڈ کیا گیا۔

فیروز چوہدری کا کہنا تھا کہ ’جس دن ہم نے پوڈ کاسٹ ریکارڈ کی، اس دن بھی اے ایس پی شہربانو نقوی بہت مصروف تھیں اور پوڈ کاسٹ مقررہ وقت سے کافی تاخیر کے بعد ہی شروع ہوئی تھی۔‘

فیروز کے بقول پوڈ کاسٹ کی ریکارڈنگ رات ساڑھے بارہ بجے شروع ہوئی اور صرف سات منٹ بعد ہی اُنھیں یہ فون آ گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’اُس وقت اے ایس پی صاحبہ نے اپنے فرائض کو ترجیح دی اور اچھے طریقے سے ہمیں آگاہ کر کے گئیں اور پورے ایک گھنٹے بعد واپس آ گئیں۔‘

فیروز کا دعویٰ ہے کہ شہر بانو نقوی واقعی ایک گھنٹے بعد واپس آ گئی تھیں۔ ’یہ تاثر یہ پہلے سے طے شدہ تھا، درست نہیں ہے۔‘

’ہم کیسے ایک پولیس افسر کو ایک ڈرامہ کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ اُنھیں تو پہلے سے دُنیا جانتی ہے۔ اُنھیں پبلیسٹی سٹنٹ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے لیے تو یہی کافی تھا کہ وہ ہمارے ساتھ پوڈ کاسٹ کر رہی تھیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ یہ کلپ بھی پوڈ کاسٹ میں اُن کی اجازت سے ہی شامل کیا گیا تھا۔ لیکن وہ سوشل میڈیا پر اسے ’منفی رنگ‘ دینے پر ناخوش ہیں۔

فیروز کہتے ہیں کہ یہ کلپ وائرل ہونے کے بعد شہربانو نقوی نے اُن سے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح اسے ’منفی رنگ‘ دیا جا رہا ہے۔

’پولیس افسران کو معلوم ہونا چاہیے آپ میڈیا سے کیا نہیں کہہ سکتے‘

سوشل میڈیا کے لیے اکثر انٹرویوز اور پوڈکاسٹوں میں نظر آنے والے پولیس افسران اور ان پر لاگو ہونے والے قواعد و ضوابط کے بارے میں جاننے کے لیے بی بی سی نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انوار اور پی آر او آفس رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے سوالوں پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

یاد رہے کہ آئی جی پنجاب کی جانب سے آر پی اورز کو جاری ہونے والے احکامات کے مطابق کوئی بھی پولیس افسر یا اہلکار دوران ڈیوٹی یا ذاتی حیثیت میں اپنے سوشل میڈیا پر کسی قسم کی ویڈیوز، تبصرے، مذہبی یا سیاسی مواد شیئر نہیں کر سکتا۔

جبکہ کسی بھی معاملے پر بات کرنے کے لیے متعلقہ ڈی پی او یا پھر مخصوص میڈیا یونٹ سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق ایسے مواد کو پولیس کے آفیشل سوشل میڈیا اکاونٹس سے بھی شئیر کیا جاتا ہے اور خلاف ورزی پر محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ایک حاضر سروس پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'مجھ سمیت کسی بھی افسر کو سوشل میڈیا یا میڈیا پر کوئی بھی بات کرنے سے پہلے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے۔

'اس کام کے لیے پنجاب پولیس میں ڈی آئی جی لیول کا افسر بطور ترجمان نامزد ہوتا ہے جو پولیس کا بیانیہ لوگوں یا میڈیا تک پہنچاتا ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ پہلے سوشل میڈیا کے استعمال پر ایس او پیز لاگو تھے لیکن اس وقت 'ایک سٹینڈنگ آرڈر موجود ہے جس کے مطابق اگر میں سوشل میڈیا ایس او پیز کی خلاف وزری کروں گا تو میرے خلاف لیگل محکمہ کارروائی ہو سکتی ہے اور میں سزا کا مرتکب پایا جاؤں گا۔'

سابق آئی جی عارف نواز کا کہنا تھا کہ جب اعلیٰ عہدیداروں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی اور محکمے کی تشہیر شروع کی تو اس کا اثر نچلی سطح پر بھی منتقل ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں ایسی ہدایات بھی موجود تھیں کہ 'ہر ڈی پی او، آر پی او، پولیس افسر نے ایک ٹک ٹاک بنا کر اپ لوڈ کرنی ہے۔'

'لیکن بعد میں پنجاب میں یہ رجحان بہت زیادہ ہوگیا اور وزیر اعلیٰ نے بھی نوٹس لیا تھا کہ یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ اس چیز پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ پولیس کے ادارے میں اعلیٰ عہدیداران سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے استعمال کی ٹریننگ حاصل کریں۔ 'آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ نے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔'

لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: معافی کی ویڈیو کا مقصد خاتون کی زندگی محفوظ بنانا تھا، اے ایس پی شہربانوپنجاب پولیس کو تجویز کردہ اصلاحات پر کیا اعتراضات ہیں؟سمندری میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے محمد آصف کا ٹی ایل پی اور فوج سے کیا تعلق تھا؟لاہور کے تاجر پر’20 کلو گولڈ‘ غائب کرنے کا الزام: ’تجوری دیکھی تو سارا سونا غائب تھا‘ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا ڈی این اے نامزد ملزم سے میچ نہ ہونے پر پولیس اصل والد تک کیسے پہنچی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More