AFP via Getty Imagesاسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو حماس پر واضح کر چکے ہیں کہ جب تک تمام یرغمالی اسرائیل واپس نہیں آ جاتے، اُس وقت تک غزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر پیش رفت نہیں ہو گی
اسرائیل اور حماس کی جانب سے امریکہ کے غزہ امن منصوبے پر متفق ہونے کے بعد یہ اُمید پیدا ہوئی تھی کہ یہ غزہ میں لڑائی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔ لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود فریقین پہلے مرحلے میں ہی پھنس کر رہ گئے ہیں۔
غزہ اب بھی عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ اب بھی بے گھر ہے اور بہت سے لوگ ملبہ بن جانے والے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے کے لیے اسرائیل اور حماس، دونوں کے سامنے مشکل راستے ہیں۔
حماس کو ہتھیار ڈالنے کا مشکل فیصلہ کرنا ہے جبکہ اسرائیل کو غزہ سے اپنی فوجیں نکالنی ہیں اور اس کی سکیورٹی کی ذمہ داری ’انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس‘ کے سپرد کرنی ہے۔
غزہ کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک عبوری حکومت کا قیام بھی فریقین کے لیے ایک چیلنج ہے، کیونکہ غزہ میں اب بھی ایک اسرائیل یرغمالی رین گویلی موجود ہے۔
آخری اسرائیل یرغمالی ہے کہاں؟Handoutرین گویلی کو سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حملے کے دوران حماس نے یرغمال بنا لیا تھا
اسرائیلی پولیس افسر رین گویلی کو حماس کے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے دوران یرغمال بنایا گیا تھا۔ حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں ملبے میں وسیع تلاش کے باوجود اُن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو حماس پر واضح کر چکے ہیں کہ جب تک تمام یرغمالی اسرائیل واپس نہیں آ جاتے، اُس وقت تک غزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر پیش رفت نہیں ہو گی۔
رین گویلی کے والدین کو گذشتہ برس بتا دیا گیا تھا کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔
BBCرین گویلی کے والدین کا الزام ہے کہ حماس اُن کے بیٹے کو سیاسی لین دین کے لیے استعمال کر رہی ہے
’اُنھوں نے ہمارے بیٹے کو چُرا لیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے۔۔ ۔وہ صرف اسے چھپا کر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا رین گویلی کی والدہ کا جو بی بی سی سے گفتگو کر رہی تھیں۔
رین گویلی کے والدین کا کہنا ہے کہ حماس، اُن کے بیٹے کو اپنے پاس رکھ کر مذاکرات میں اپنی شرائط منوانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ اس سے قبل تمام یرغمالیوں کو پہلے ہی رہا کر چکی ہے۔
حماس کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ الزامات درست نہیں ہیں بلکہ اسرائیل امن معاہدے پر عمل درآمد سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
اسرائیلی اخبارات ’ہارٹز‘ اور ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق امریکی انتظامیہ اس سب کے باوجود غزہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کو آگے بڑھانے پر زور دے رہی ہے۔
بی بی سی عربی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق اسرائیلی مذاکرات کار گیرشون باسکن کہتے ہیں اسرائیل کے پاس غزہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کو التوا میں ڈالنے سے متعلق زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی دو ٹوک فیصلہ کر چکے ہیں اور وہ نتن یاہو سے کہیں گے کہ اب اس معاملے میں مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔
باسکن، ماضی میں کئی مواقع پر اسرائیل اور حماس کے درمیان رابطوں میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ غزہ میں ایک اسرائیلی یرغمالی کی موجودگی دوسرے مرحلے کو التوا میں ڈالنے کا کوئی بڑا جواز نہیں ہے۔
غزہ کے بحران کو کاروبار میں بدلنے والا نوجوان جو ’ٹیپ کے بغیر‘ نوٹ مرمت کر لیتا ہےدو سالہ جنگ، زیرِ زمین سرنگوں کا جال اور بکھری ہوئیقیادت: کیا غزہ پر آہنی گرفت رکھنے والی حماس واقعی اقتدار چھوڑ دے گی؟اسرائیل کی وہ پالیسیاں جو غزہ میں ’انسانوں کے پیدا کردہ‘ قحط کا باعث بنیں’مکمل تباہی اور ملبے کا ڈھیر‘: جنگ کے دو سال بعد بی بی سی نے غزہ میں کیا دیکھا؟حماس کو غیر مسلح کون کرے گا؟
حماس کو غیر مسلح کرنے کا ایسا طریقہ جو فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو، ایسا نکتہ ہے جسے ماہرین جنگ بندی معاہدے کو برقرار رکھنے اور دوسرے مرحلے کے لیے پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
عبرانی زبان کے اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہایوم‘کے مطابق ترکی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) کا حصہ بننے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔ اخبار کے مطابق اس فورس کے مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی ہو گا۔
اخبار میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو اس معاملے میں دوٹوک موقف رکھتے ہیں کہ ترکی کو اس فورس میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا اور امریکہ بھی اسرائیل کے اس موقف کے ساتھ ہے۔
ابھی تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس میں شامل ہونے کا اعلان نہیں کیا۔
باسکن کہتے ہیں کہ حماس یہ مان سکتی ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو منجمد یا ذخیرہ کر دیتے ہیں اور ممکنہ طور پر اُنھیں فلسطینی حکومت یا کسی تیسرے فریق کے حوالے کر سکتی ہے، لیکن وہ اپنے ہتھیاروں کو امریکہ یا اسرائیل کے حوالے ہرگز نہیں کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کو بھی احساس ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا تعلق غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے ہے اور یہ فی الحال بہت مشکل ہے، کیونکہ اسرائیلی فوج اب بھی غزہ کے اندر موجود ہے۔
اسرائیل فوج انخلا کے بعد کہاں جائے گی؟
اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے تقریباً 53 فیصد حصے پر اپنا کنٹرول رکھتی ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیلی فوج، شمالی، جنوبی اور مشرقی غزہ کی سرحدوں تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔ یہ تقسیم ’بلیو لائن‘ کے نام سے مشہور ہو گئی ہے۔
BBC
دوسرے مرحلے میں اسرائیلی فوج کی نئی تعیناتی لائن، تخفیف اسلحہ کے طریقہ کار، تعمیر نو اور بین الاقوامی نگرانی کے انتظامات پر باہمی معاہدے کی ضرورت ہے۔
ان معاملات کو اسرائیل میں بہت حساس سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق غزہ سے ملحقہ اسرائیلی قصبوں کی سکیورٹی سے ہے۔ جبکہ مستقبل میں غزہ اور مصر کی سرحد پرموجود زمین کا ایک تنگ سا ٹکڑا ’فلاڈیلفی کوریڈور‘ اور رفح کراسنگ بھی اسرائیل کے لیے اہم ہے۔
اسرائیل کے ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل اسرائیل زیو کہتے ہیں کہ حماس اور اسرائیل دونوں دوسرے مرحلے میں تیزی سے آگے بڑھنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حماس، غزہ میں اپنا کنٹرول نہیں کھونا چاہتی جبکہ اسرائیل بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر غزہ میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی عوام کو نہیں بتانا چاہتے کہ اسرائیل، غزہ سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
جنرل زیو کہتے ہیں کہ ٹرمپ وہ واحد شخص ہیں، جو فریقین کو آگے بڑھنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن وقت بہت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس عمل میں مزید تاخیر سے یہ موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے، کیونکہ حماس دوبارہ منظم ہو رہی ہے اور اس کی طاقت واپس آ رہی ہے۔
حماس کے بعد غزہ پر حکومت کون کرے گا؟AFP via Getty Images
غزہ میں حماس کے بعد بننے والی مجوزہ عبوری حکومت کی قیادت کون کرے گا؟ یہ بھی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کا بڑا چیلنج ہے۔
حالانکہ اس حوالے سے تجویز یہ ہے کہ غزہ میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی حکومت قائم کی جائے، جو حماس اور فلسطینی اتھارٹی سے الگ ہو۔ لیکن اسرائیل کو اعتراض ہے کہ دونوں گروپس کے نمائندوں کو اس حکومت میں شامل ہونے سے روکنا ناممکن ہو گا۔
اسرائیلی حکومت کو تشویش ہے کہ اس سے حماس کو حکومتی اداروں میں دوبارہ اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی جبکہ فلسطینی اتھارٹی کی بھی غزہ میں واپسی ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا ماضی میں غزہ میں کنٹرول رہا ہے، لیکن سنہ 2007 میں حماس کے یہاں اقتدار میں آنے کے بعد، فلسطینی اتھارٹی کے پاس اب صرف مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا کنٹرول ہے۔
نتن یاہو کی حکومت حماس اور فلسطینی اتھارٹی، دونوں کے غزہ میں کسی کردار کی مخالفت کر چکی ہے اور اس کے بجائے ایک ’غیرجانب دار فلسطینی ادارے‘ کی غزہ میں حکومت کا مطالبہ کر رہی ہے۔
باسکن کے مطابق اسرائیل کو یہ بھی تشویش ہے کہ غزہ میں فلسطینی حکومتایک فلسطینی ریاست کے قیام کا آغاز بھی ہو سکتا ہے، جس کی وہ کھل کر مخالفت کرتا ہے۔
ٹرمپ، نتن یاہو مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے؟Getty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیرِ اعظمسے اگلے ماہ فلوریڈا میں مل رہے ہیں، جس میں بہت سے اہم معاملات ایجنڈے میں شامل ہیں۔
امریکی صدر اگلے ماہ غزہ امن بورڈ کے قیام اور اس کے ارکان کا اعلان بھی کرنے والے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ سے ملاقات میں، نتن یاہو حماس کو غیر مسلح کرنے کا اپنا مطالبہ دہرائیں گے اور مستقبل میں اس کے غزہ میں کسی بھی کردار کی مخالفت کریں گے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق نتن یاہو غزہ میں اسرائیلی فوج کی موجودگی برقرار رکھنے جسے وہ بفر زون کہتے ہیں پر زور دیں گے۔ جبکہ وہ غزہ میں ترکی کی فوج کی تعیناتی کی بھی مخالفت کریں گے۔
باسکن کے بقول دوسری جانب صدر ٹرمپ نتن یاہو پر یہ دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ غزہ میں ’جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی‘ کا سلسلہ ختم کریں۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق دس اکتوبر کو غزہ میں جنگ بندی سے متعلق معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک 400 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ ایک ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 15 دسمبر تک 70 ہزار 665 افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ 71 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
’مکمل تباہی اور ملبے کا ڈھیر‘: جنگ کے دو سال بعد بی بی سی نے غزہ میں کیا دیکھا؟غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟اسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟ غزہ کی پٹی: ’دنیا کی سب سے بڑی کُھلی جیل‘ جس پر سکندر اعظم سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک نے حکومت کیٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟