Getty Images
افغان طالبان نے کابل میں واقع افغانستان کے اس واحد لگژری فائیو سٹار ہوٹل کا انتظام سنبھال لیا ہے جس کی خونیں تاریخ میں بھی ان کا کردار ہے اور وہ ماضی میں دو بار اس ہوٹل پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔
اس بار بس فرق یہ ہے کہ طالبان اس ہوٹل میں کاروبار کو آگے بڑھانے کی غرض سے داخل ہوئے ہیں۔ کابل سے تعلق رکھنے والے صحافی میرواعظ جلالزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ طالبان کی طرف سے انتظام سنبھالنے کا مطلب یہ ہے کہ سینکڑوں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے اور اب یہ ہوٹل وہ سہولیات نہیں دے سکیں گے جسے طالبان ماضی میں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
سرینا ہوٹل کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یکم فروری سے کابل میں ہوٹل کا انتظام اب ہوٹلوں کے لیے اماراتی کارپوریشن سنبھالے گی۔
یہ کارپوریشن وزارتِ خزانہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ سرینا ہوٹل آغا خان فنڈ برائے معاشی ترقی کی ملکیت ہیں۔
ہوٹل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے 20 سال کی خدمات کے دوران ہزاروں افغان نوجوانوں کو خدمات کے شعبے میں تربیت فراہم کی جبکہ بڑی تعداد میں غیر ملکی مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور ہوٹل انڈسٹری میں ایک اعلیٰ معیار قائم کیا۔
طالبان انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ ہوٹل طویل عرصے سے ہوٹلنگ سیکٹر میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔
BBCفائل فوٹو
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 برسوں سے آغا خان فاؤنڈیشن کابل سرینا ہوٹل کو احسن طریقے سے چلاتی آئی ہے۔
اماراتی کارپوریشن کا کہنا ہے کہ آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ معاہدہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے لیکن ہوٹل اب بھی پہلے کی طرح مکمل فعال ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کارپوریشن نے کابل ہوٹل کے معیار میں مزید بہتری کے لیے حال ہی میں ایک عالمی ادارے سے معاہدہ کیا ہے جو ہوٹلنگ کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتی ہے۔
کابل ہوٹل سے سرینا ہوٹل کا سفر
کابل کے سرینا ہوٹل جس کا پرانا نام کابل ہوٹل تھا سنہ 1945 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
دہائیوں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد 2005 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے اس کی تعمیرِ نو کے بعد اسے کابل سرینا ہوٹل کے نام سے دوبارہ کھولا۔ ہوٹل کی تعمیرِ نو کے لیے کینیڈین آرکیٹیک رمیش کھوسلا کی خدمات حاصل کی گئیں۔
نومبر 2008 میں سرینا ہوٹل کا افتتاح اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی اور اسماعیلی برادری کے روحانی سربراہ پرنس کریم آغا خان نے کیا۔
Getty Imagesفائل فوٹو’ارنب کے دعوے کے بعد کابل سرینا میں پانچویں منزل کی تعمیر شروع ہو گئی‘کابل ڈائری: ’اٹھو، اٹھو جنرل فیض آ رہے ہیں‘کابل کا ’مجاہدین بازار‘ جس کا کاروبار ہمیشہ جنگ کی مرہونِ منت رہاخان محمد: دو امریکی شہریوں کے بدلے 18 سال کی قید کے بعد رہائی پانے والے افغان ’سمگلر‘ کون ہیں؟طالبان حملوں سے ’سب ٹھیک ہوگا‘ کی یقین دہانی تک
افتتاح کے بعد سے اب تک سرینا ہوٹل اکثر و بیشتر خبروں کی زینت رہا ہے، کبھی طالبان کے حملوں کو لے کر تو کبھی پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلق کی بنیاد پر۔
سنہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل اس ہوٹل پر متعدد حملے کیے گئے تھے۔
کابل سرینا ہوٹل پر طالبان کا پہلا حملہ 2008 میں ہوا۔ اس خودکش بم دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ طالبان کی موجودہ عبوری حکومت میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی پر اس حملے کی منصوبہ بندی الزام لگا تھا۔
اس کے بعد 2014 میں افغانستان کے صدارتی انتخابات سے چند ہفتے قبل چار نوعمر بندوق بردار اپنی جرابوں میں پستول چھپا کرہوٹل میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اس حملے میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی اور انکے خاندان کے افراد سمیت نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
Getty Imagesکابل سرینا ہوٹل
تاہم اس ہوٹل میں ہونے والے حملوں کی تاریخ کہیں پرانی ہے۔
سنہ 1979 میں اس ہوٹل میں کابل میں امریکی سفیر ایڈولف ڈبس کا قتل ہوا تھا۔ انھیں عسکریت پسندوں نے اغوا کر لیا تھا اور ان کے چنگل سے بچانے کی کوشش کے دوران وہ مارے گئے تھے۔
سنہ 2021 میں طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ ہوٹل ایک بار پھر اس وقت خبروں کی زینت بنا جب اس وقت کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی کے تب کے سربراہ جنرل فیض حمید کی کابل سرینا ہوٹل میں لی گئی تصاور وائرل ہوئیں۔
انھوں نے اس وقت ہاتھ میں قہوے کا کپ تھامے وہاں موجود صحافیوں کے سوال کے جواب میں مسکرا کر کہا تھا کہ ’پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو گا۔‘
فوج اور طالبان کی جانب سے جنرل فیض حمید کی تصویر نہ لگانے کی ہدایت کے باوجود چینل فور کی ایڈیٹر لنڈسے ہلسم نے ان کی تصویر ٹویٹ کر دی۔
اسی ماہ کابل کا سرینا ہوٹل اس وقت ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا جب انڈین ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی نے پروگرام میں دعویٰ کیا کہ ان کے پاس باوثوق ذرائع سے اطلاعات ہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے اہلکار کابل کے سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پر رکے ہوئے ہیں۔
تاہم ارنب گوسوامی کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب یہ بات سامنے آئی کہ کابل سرینا ہوٹل کی صرف دو منزلیں ہیں۔
ٹموتھی ویکس سے جبرائیل عمر تک: طالبان کی قید میں اسلام قبول کرنے والے آسٹریلوی شہری جنھوں نے اپنے آخری ایام کابل میں گزارےپیپسی میں زہر دینے سے لاش شاہی محل کے قالین میں لپیٹنے تک: حفیظ اللہ امین کو قتل کرنے کے روسی مشن کی کہانیملا عمر: ایک آنکھ سے زخمی طالبان قائد کی خفیہ زندگی اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کہانیبااثر حقانی خاندان کے سربراہ خلیل الرحمان حقانی کو ’ہاتھ پر لگے پلستر میں چھپے بم کی مدد سے خودکش حملہ آور‘ نے کیسے نشانہ بنایا؟قومی ترانے کی ’بے ادبی‘ اور علی امین گنڈاپور کی وضاحت: ’افغان قونصل جنرل کو پاکستان کے ترانے سے کوئی مسئلہ نہیں‘فلائٹ 93 کی ہائی جیکنگ کی سنسنی خیز واردات: وہ مسافر طیارہ جو امریکی پارلیمان کو تباہ کر سکتا تھااربوں ڈالر کے وہ امریکی طیارے جو افغان طالبان اپنے ہمسایہ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیں