Getty Imagesبرہمپتر دریا کو چین میں ’یارلنگ سانگپو‘ کہا جاتا ہے
چین نے سنیچر کے روز تبت میں دریائے برہمپتر پر 167.8 ارب امریکی ڈالر مالیت کے ڈیم کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کر دیا۔
اس ڈیم کی تعمیر کا کام انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کی سرحد کے قریب ہو رہا ہے اور اسی لیے انڈیا کو اس کے متعلق شدید تشویش لاحق ہے۔
کام کے باضابطہ آغاز سے پہلے ہی انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کے وزیر اعلی پیما کھانڈو نے اسے ایک ’ٹکنگ بم‘ سے تعبیر کیا جو انڈیا کے لیے کبھی بھی تباہی لا سکتا ہے۔
ادھر انڈیا میں سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ کیا چین انڈیا کو اسی کی زبان میں جواب تو نہیں دے رہا جیسے انڈیا ’سندھ طاس معاہدہ‘ کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے۔
Getty Imagesانڈیا اور چین کے درمیان برسوں سے سرحدی تنازعات جاری ہیں جن میں گذشتہ برسوں کے دوران شدت دیکھی جا رہی ہےدریائے برہمپتر پر چین کے ڈیم کا منصوبہ کیا ہے؟
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چینی وزیر اعظم لی کیانگ نے دریائے برہمپتر کے زیریں علاقے، جسے مقامی طور پر یارلنگ زانگبو کہا جاتا ہے، کے شہر نِنگچی میں ایک سنگ بنیاد کی تقریب کے دوران اس منصوبے کے آغاز کا اعلان کیا۔
نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق یہ تقریب تبت خود مختار علاقے کے شہر نِنگچی کے مینلنگ ہائیڈرو پاور سٹیشن کے مقام پر منعقد ہوئی۔
اس ہائیڈرو پاور منصوبے کو دنیا کا سب سے بڑا بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ کہا جا رہا ہے جس پر دریا کے نچلی سطح کے ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ پانچ سلسلہ وار ہائیڈرو پاور سٹیشنز پر مشتمل ہوگا، جس پر مجموعی سرمایہ کاری تقریباً 1.2 ٹریلین یوآن (تقریباً 167.8 ارب امریکی ڈالر) بتائی جا رہی ہے۔
سنہ 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس ہائیڈرو پاور سٹیشن سے ہر سال 300 ارب کلو واٹ گھنٹے سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی توقع کی جا رہی ہے جو کہ 30 کروڑ سے زائد افراد کی سالانہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ منصوبہ بنیادی طور پر چین کے بیرونی علاقوں کو بجلی فراہم کرے گا جبکہ تبت میں مقامی طلب کو بھی پورا کرے گا، جسے چین سرکاری طور پر شیزانگ کہتا ہے۔
Getty Imagesانڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام کے لیے دریائے برہمپتر انتہائی اہمیت کا حامل ہےانڈیا کی تشویش: ’چین پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘
لیکن دوسری جانب انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے وزیر اعلی نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مسئلہ یہ ہے کہ چین پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔‘
’چین کی طرف سے فوجی خطرے سے قطع نظر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے قبائل اور ہماری معیشت کے لیے خطرے کا باعث بنے گا۔ یہ کافی سنگین ہے کیونکہ چین اسے واٹر بم کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔‘
ہم نے اس سلسلے میں دہلی یونیورسٹی میں چینی امور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر راجیو رنجن سے بات کی کہ اس کے انڈیا پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’پانی حیات بخش ہے اور دریا کو تہذیبوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ دریا اپنا رخ بدلے لے تو بہت سی تہذیبیں معدوم ہو سکتی ہیں۔ اور اسی لیے بہت سے ممالک دریائی پانی پر بالادستی کے لیے برسوں یا صدیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یعنی دریا اپنے حریف کو قابو کرنے کا ایک ہتھیار بھی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس ڈیم کی تعمیر کے پیچھے چین کے بہت سے ارادے ہیں۔ ابھی پاکستان دریائے سندھ کے پانی کا تنازع ختم بھی نہیں ہوا کہ برہم پتر پر ڈیم کی تعمیر ایک نیا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔‘
کیا چین اپنے سٹریٹجک اتحادی پاکستان کو سندھ کے پانی کے بحران سے بچانے کے لیے برہمپتر کے پانی کو سٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر راجیو نے کہا کہ ’اس کا امکان بہت کم ہے لیکن علاقائی جغرافیائی سیاست اور بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں ممکن بھی ہے۔‘
Getty Imagesریاست اروناچل پردیش کے وزیر اعلی پیما کھاندو نے چینی ڈیم پر تشویش کا اظہار کیا ہےانڈیا کو چین کا نیا ڈیم کیسے متاثر کر سکتا ہے؟
یہی سوال جب ہم نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور انڈیا اور چین کے رشتے پر کئی کتابوں کے مصنف کیشو مشرا سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں۔ انڈیا نے پاکستان کے خلاف اس وقت قدم اٹھایا جب دہشت گردی کا معاملہ رونما ہوا۔ لیکن چین کے اس پروجیکٹ سے انڈیا کو مختلف النوع قسم کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کے شمال مشرقی خطے کے لیے پانی کی فراہمی کم ہو جائے گی جس سے وہاں کی ذراعت متاثر ہوگی۔‘
کیشو مشرا نے کہا کہ ’یہ ڈیم صرف انڈیا کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہے بلکہ اس سے بنگلہ دیش کو بھی اسی طرح کے نقصان ہوگا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگرچہ چین اور انڈیا کے درمیان دریاؤں کے پانی چھوڑنے پر باہمی معاہدے ہیں لیکن چین ان کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘
پروفیسر کیشو مشرا نے کہا کہ ’ہمارے تعلقات بھی بہتر نہیں ہیں اور سرحد کے متعلق ہمارے بہت سارے مسائل اور اختلافات ہیں ایسے میں یہ ڈیم ایک خطرہ ضرور ہے۔‘
سندھ طاس معاہدہ: انڈیا اور پاکستان کے درمیان وہ معاہدہ جس سے دونوں ملک چاہ کر بھی نہیں نکل سکتےانڈیا کے وزیر خارجہ کا پانچ سال میں چین کا پہلا دورہ کیا پاکستان سمیت امریکہ اور روس کے لیے بھی ایک پیغام ہے؟تجارتی ہتھیار، ’ٹرمپ سے مایوسی‘ اور روس: کیا انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟انڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟AFPانڈیا دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کشن گنگا اور دریائے چناب کے پانی پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کر رہا ہے’انڈیا کے پاکستان کے خلاف رویے کا جواب‘
ہم نے کیشو مشرا سے ییل یونیورسٹی میں لیکچرر اور صحافی سوشانت سنگھ کے ایک ٹویٹ کا حوالہ دیا جس میں سوشانت سنگھ نے سوال اٹھایا کہ کیا انڈیا پر چین وہی اصول لاگو کرے گا جو انڈیا ابھی پاکستان پر لاگو کرنا چاہتا ہے؟
اس کے جواب میں پروفیسر مشرا نے کہا کہ ’سوشانت جی نے پاکستان اور چین کی ہر موسم میں جاری رہنے والی دوستی کو اجاگر کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے لیکن میرے خیال سے چین اس ڈیم کی تعمیر کے شروع ہونے سے پہلے بھی واٹر ڈپلومیسی کا استعمال کر رہا تھا۔‘
اس ضمن میں پروفیسر راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’دریائے برہم پتر جو تین ممالک سے گزرتا ہے ایک بین الاقوامی دریا ہے اور اس پر کوئی بھی ڈیم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، ساحلی ممالک کی باہمی رضامندی سے ہونا چاہیے۔ لیکن چین-انڈیا-بنگلہ دیش کے درمیان دریائے برہم پتر پر ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کیونکہ چین کسی کثیرالجہتی منصوبے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اور بالائی ملک ہونے کا فائدہ اٹھاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین اس ڈیم کو واٹر بم کے طور پر استعمال کر سکتا ہے تو ہمیں یہ پتا ہے کہ انڈیا اور چین تنازع کے دوران چین برہمپتر ندی کے پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا انڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کر رہا ہے۔‘
’تو شاید چین مون سون کے دوران اچانک کنٹرول شدہ پانی چھوڑ کر تباہی مچا سکتا ہے۔ لیکن اگر انڈیا کو دریا کے بہاؤ کے بارے میں بروقت اطلاع مل جائے تو وہ ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘
Getty Imagesدریائے برہمپتر پر تعمیر ہونے والا ہائڈرو پروجیکٹ تھری گورجز ڈیم پروجیکٹ سے بڑا منصوبہ ہےڈیم سے چین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
چین تبت میں اس ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے ذریعے روزگار اور ترقی کے نئے مواقع اپنے زیر تسلط تبتی لوگوں تکپہنچانا چاہتا ہے، یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی لیکن اس سے وہ اپنی ایک چوتھائی آبادی کو سال بھر بجلی فراہم کر سکتا ہے۔
اس کے ذریعے وہ اپنے کاربن اخراج کو کم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 2060 تک اپنے کاربن اخراج کو صفر کرنے کا عہد کر چکا ہے۔
پروفیسر راجیو کا کہنا ہے ’اس منصوبے کا ایک مقصد تبت کے ساتھ چین کے دیگر خطوں میں روزگار اور ترقی کے امکانات کو بڑھانا ہے جو کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو وہاں قانونی حیثیت فراہم کرتی ہے۔‘
پروفیسر کیشو مشرا اور پروفیسر راجیو دونوں نے کہا کہ چین کا یہ میگا پروجیکٹ اس کے تھری گورجز ڈیم سے بہت بڑا ہے اور اس کے اثرات بھی کافی وسیع ہوں گے۔
اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری پچھلی سرمایہ کاری سے نو گنا زیادہ ہے۔
انڈیا کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟
اس بات کا جواب دیتے ہوئے دونوں پروفیسران نے کہا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کو مل کر اسے اعلی سفارتی سطح پر اٹھانا چاہیے۔
کیشو مشرا نے کہا کہ ’انڈیا نے حال میں چین کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں اور اس کا ثبوت پہلے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا چین کے عہدیداروں سے ملاقات تھی جبکہ ابھی کوئی پانچ چھ سال کے عرصے میں پہلی بار انڈیا کے وزیر خارجہ نے چین کا دورہ کیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی ملک کے لیے غیر مستحکم پڑوسی اچھی بات نہیں ہے ایسے میں انڈیا اور چین کے رشتے کو بحال اور استوار کرنا ایک حل ہو سکتا ہے تاکہ انڈیا کو پانی کے بہاؤ کے متعلق ڈیٹا ملتا رہے۔‘
پروفیسر راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور بنگلہ دیش کو مشترکہ طور پر برہمپتر سہ فریقی تعاون کمیشن کے قیام کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ تاکہ دریائے برہمپتر کے پانی کے ڈیٹا کو شیئر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ دہلی اور ڈھاکہ بین الاقوامی سطح پر ایک مہم شروع کریں تاکہ ڈیم کے غلط استعمال پر چین کے پائیدار ترقی کے اہداف کو کم کیا جا سکے۔‘
انڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟سندھ طاس معاہدہ: انڈیا اور پاکستان کے درمیان وہ معاہدہ جس سے دونوں ملک چاہ کر بھی نہیں نکل سکتےہنزہ کی چراگاہ اور ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ: وہ معاہدہ جس نے چین کی پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھیانڈیا، پاکستان کشیدگی کے دوران اروناچل پردیش میں ناموں کو بدل کر چین کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟انڈیا، چین سرحد پر آخری سویلین آبادی کا سفر: اروناچل پردیش میں دونوں ملکوں کی فوجی تیاریاںانڈیا، چین سرحدی کشیدگی: چین اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کیوں قرار دیتا ہے؟