BBC نیوگتی راجوکے گاؤں جس کا وجود کاغذات کے علاوہ کہیں پایا نہیں جاتا
پاکستان میں رہتے ہوئے آپ میں سے بیشتر افراد ’گھوسٹ سکولز‘ کے سکینڈلز سے تو واقف ہوں گے تاہم آج ہم آپ کو بتاتے ہیں ایک ایسے گاؤں کی کہانی جسے کاغذوں میں دکھا کے لاکھوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کا اجرا تو کیا گیا مگراس گاؤں کا وجود کرۂ ارض پر موجود ہی نہیں۔
یہ کہانی گھومتی ہے نیوگتی راجوکے نامی ایک گاؤں کے گرد جس کے لیے لاکھوں روپے کی گرانٹ حاصل کرتے وقت اسے انڈیا کی ریاست پنجاب کے سرحدی ضلع فیروز پور میں دکھایا گیا تھا۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس نام کا کوئی گاؤں درحقیقت پنجاب میں موجود ہونا ثابت نہیں ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق انڈیا اور پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے میں ایک گاؤں گتی راجوکے موجود ہے تاہم کاغذات میں اہلکاروں نے مبینہ طور پر ’جعلی گاؤں نیو گتی راجوکے‘ ظاہر کر کے اس کے نام پر لاکھوں روپے کی گرانٹ جاری کروا لی۔
یہ جعلسازی اس وقت کھلی جب پیر اسماعیل خان نامی گاؤں کی کمیٹی کے سابق رکن اور آر ٹی آئی ممبر گرودیو سنگھ نے آر ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے اس بارے میں معلومات حاصل کیں۔
گرودیو سنگھ کہتے ہیں کہ انھیں گذشتہ کئی سالوں سے فنڈز میں مبینہ گھپلے پر شک ہو رہا تھا۔
گرودیو سنگھ کے مطابق ان معلومات کی روشنی میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ مبینہ طور پر اعلیٰ حکام کی ملی بھگت سے گتی راجوکے نام سے ایک نیا گاؤں بنایا گیا ہے لیکن درحقیقت اس کا کوئی وجود نہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس معاملے کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
BBCگرودیو سنگھ کا دعویٰ ہے کہ نیو گتی راجوکے گاؤں نہ تو گوگل میپ پر نظر آتا ہے اور نہ ہی حقیقت میں اس کا وجود ہےآر ٹی آئی میں موجود انکشافات
اس بات میں تو شک نہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے بارڈر کے نزدیک ایک گاؤں گتی راجوکے پایا جاتا ہے تاہم دوسرا گاؤں نیو گتی راجوکے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ کاغذوں کے علاوہ کہیں موجود نہیں ہے۔
آر ٹی آئی درخواست گزار گرودیو سنگھ کا دعویٰ ہے کہ نیو گتی راجوکے گاؤں نہ تو گوگل میپ پر نظر آتا ہے اور نہ ہی حقیقت میں اس کا وجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے نیوگتی راجوکے گاؤں کے بارے میں کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ 2013 میں کاغذات میں اس نام کا نیا گاؤں بنایا گیا تھا۔
کاغذات میں اس گاؤں کی سرپنچ امرجیت کور کو دکھایا گیا۔ تاہم اس سے زیادہ اس وقت نیوگتی گاؤں کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔
پاکستان میں ’یوٹیوبرز کا گاؤں‘ جہاں ’سالانہ تنخواہ جتنی رقم ایک ہی دن میں‘ کما لی جاتی ہےوہ فراڈ جس میں ’منافع کا لالچ اور جعلی زیور‘ دے کر سبزی فروش سمیت ہزاروں افراد کے 200 کروڑ ہتھیا لیے گئےانڈیا میں رقم کی ادائیگی کا سادہ نظام جو کاروبار کے ساتھ ساتھ فراڈ بھی آسان بنا رہا ہے60 ارب کا فراڈ کرنے والا مفرور ملزم جو وائی فائی کی وجہ سے پکڑا گیاBBCدرخواست گزار کے دعوے کے مطابق گاؤں کاغذات میں 2013 میں وجود میں آیاگاؤں کے لیے لاکھوں کی گرانٹ
گرودیو سنگھ کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے اس گاؤں سے متعلق چھان بین کے لیے کئی مقامات پرپوچھ گچھ شروع کی تو وہاں موجود اہلکاروں نے انھیں دھمکیاں بھی دیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سنہ 2013 میں کاغذات پر اس گاؤں کو دکھایا گیا اور اس کے لیے 43 لاکھ انڈین روپے کی گرانٹ بھی جاری ہوئی لیکن اس گاؤں کی دور دور تک کہیں موجودگی کے ثبوت نہیں ملتے۔‘
گرودیو سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ’حاصل شدہ معلومات کے مطابق اس گاؤں میں 55 مختلف پروجیکٹ تیار کیے گئے ہیں جبکہ دیہی ترقیاتی سکیم کے تحت گاؤں کے لیے 141 ملازمت کارڈ بھی جاری کیے گئے۔‘
ان کے مطابق ’یہ کارڈ ان لوگوں کے نام پر بنائے گئے جو اس گاؤں میں نہیں رہتے۔ سرکاری کاغذات پر نیوگتی راجوکے میں 35 ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔‘
BBCلوگوں کے مطابق موجودہ گاؤں گتی راجوکے ہے جسے نئی گتی بھی کہا جاتا ہےنئی گتی اور نیوگتی میں مماثلت
جب بی بی سی پنجابی نے گتی راجوکے نامی گاؤں کے مکینوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو بیشتر نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کر دیا۔
یاد رہے کہ کاغذات میں جہاں جعلی گاؤں نیوگتی راجوکے دکھایا گیا ہے اس کے پڑوس میں گتی راجوکے گاؤں واقع ہے۔
گتی راجوکے کے کچھ لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گاؤں کے لوگ نئی اور نیو کو ایک ہی لفظ سمجھ رہے تھے جبکہ درحقیقت نیوگتی گاؤں صرف کاغذات میں موجود تھا۔
BBCنئی گتی راجوکے سابق سرپنچ لال سنگھ
نئی گتی راجوکے کے سابق سرپنچ لال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہمارا گاؤں نئی گتی راجوکے ہے، بہت سے لوگ جب نیو گتی راجوکے کہتے تھے تو ہمیں اس بارے میں معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے سوچا کہ یہ انگریزی کا لفظ ہے جسے ہم پنجابی میں نئی کہتے ہیں اور شاید اس کو انگلش میں لوگ نیوگتی راجوکے پکار رہے ہیں۔
سابق سرپنچ لال سنگھ نے بھی شکایت کنندہ پر سوالات اٹھائے ہیں۔
لال سنگھ نے الزام لگایا کہ ’ملازمین کو پتہ چل جائے گا کہ نیا اور نئی مسئلہ کیا ہے۔ شکایت کنندہ ہمارے گاؤں سے 10سے 12 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتا ہے اور جان بوجھ کر پیسے حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر شکایت کرتا تھا۔‘
بی بی سی پنجابی کے ساتھی کلدیپ برار کے مطابق کچھ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ حکومتی اہلکار بھی اس پر کارروائی کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ اعلیٰ سرکاری افسران کی مبینہ ملی بھگت اس میں شامل ہو سکتی ہے۔
انتظامیہ کیا کہتی ہے؟
بی بی سی پنجابی نے ضلعی انتظامیہ سے بات کر کے اس پورے معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن کوئی بھی افسر کیمرے پر آنے کو تیار نہیں تھا۔
جب ضلع کے اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر لکھویندر سنگھ سے فون پر بات کی گئی تو انھوں نے تصدیق کی کہ وہ پورے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ’ہم تحقیقات کر رہے ہیں جس کے تحت محکمہ ریونیو سے ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے۔ ہمیں ابھی تک مکمل ریکارڈ نہیں ملا اورتحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان میں ’یوٹیوبرز کا گاؤں‘ جہاں ’سالانہ تنخواہ جتنی رقم ایک ہی دن میں‘ کما لی جاتی ہےوہ فراڈ جس میں ’منافع کا لالچ اور جعلی زیور‘ دے کر سبزی فروش سمیت ہزاروں افراد کے 200 کروڑ ہتھیا لیے گئےانڈیا میں رقم کی ادائیگی کا سادہ نظام جو کاروبار کے ساتھ ساتھ فراڈ بھی آسان بنا رہا ہے60 ارب کا فراڈ کرنے والا مفرور ملزم جو وائی فائی کی وجہ سے پکڑا گیااندرا گاندھی کا روپ اور آواز کی نقل کر کے بینک سے 60 لاکھ روپے کیسے نکلوائے گئےپِگ بُچرنگ فراڈ: ’ہم نے لوگوں سے کیسے لاکھوں ڈالر لوُٹے‘