رومانوی قصّوں پر مبنی فلموں میں دیوداس کی انفرادیت اور شہرت کی کئی وجوہات ہیں۔ سن 2002 میں معروف انڈین اداکاروں شاہ رخ خان اور ایشوریہ رائے کی جاندار اور جداگانہ اداکاری کی وجہ سے دیوداس یاد رہ جانے والی فلموں میں شمار ہوتی ہے۔بنگالی ناول نگار شرت چندر چیٹر جی کے ناول پر مبنی عشقیہ داستان پر 1955 میں ’دیوداس‘ کے نام سے ایک فلم بنائی گئی جس میں دلیپ کمار اور وجنتی مالا نے دیوداس اور پارو کے کردار نبھائے۔ اس فلم نے ان کرداروں کو گھر گھر پہنچا دیا۔’مدر آف لو سٹوریز‘ کہلانے والی اس کہانی پر مختلف زبانوں میں دو درجن سے زیادہ فلمیں بن چکی ہیں جن میں ایک پاکستانی فلم بھی شامل ہے۔
ہندوستان میں دیوداس نامی ناول پر بننے والی پہلی فلم نے برّصغیر میں اداکاری اور گلوکاری کی ایک زریں روایت کی بنیاد ڈالی۔
برصغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آراء1931 میں منظرِ عام پہ آئی۔ اس کے پانچ برس بعد نیو تھیٹر کلکتہ کے مالک اور ممتاز فلم ساز بی این سرکار نے اس ناول کو پہلی بار بڑے پردے پر پیش کیا۔فلم کی شوٹنگ کے دوران پروڈیوسر پی سی بروا نے فلم کا سکرپٹ دیکھ کر مایوسی کا اظہار کیا کہ مکالمے ڈرامائی انداز میں نہیں لکھے گئے۔ فلم کی تیاری کے بعد اسے دیکھ کر فلم ساز سمیت تمام عملہ مایوس اور بد دل ہو گیا۔بروا بولے کہ ’مجھے کچھ مناظر دوبارہ فلم بند کرنے دیں۔‘ جواب میں فلم ساز نے جل بھن کر جواب دیا کہ ’تم بے شک ساری فلم دوبارہ بنا لو۔‘فلم دوبارہ نہ بنی مگر ریلیز ہونے کے بعد توقعات کے برعکس اس نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑھ دیے۔اس فلم کی غیر معمولی پذیرائی کی وجہ اس کے پُرسوز گیت اور ہیرو کی جذبات میں گندھی اداکاری بنی۔ فلم کے گانے ہیرو کی آواز میں ہی ریکارڈ کیے گئے تھے۔ اس فلم کا ایک گیت ’پالم آئے ہو میرے من میں‘ آج بھی اس کی مقبولیت کا حوالہ ہے۔یہ فلم جادوئی آواز اور انداز رکھنے والے کندن لال سہگل کے عروج کا آغاز ثابت ہوئی۔ انہیں ایک ہی وقت میں گلوکار اور اداکار کے طور پر مقبولیت ملی۔ہندوستانی فلمی صنعت کے تذکرہ نگار اور صحافی وشوا ناتھ طاؤس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے دیوداس کے نام سے بننے والی تمام فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ سہگل نے دیوداس کا کردار دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کی نسبت زیادہ پُر اثر انداز میں نبھایا۔1930 میں فلمی دنیا میں قدم رکھنے والے کے ایل سہگل اسے قبل محبت کے آنسو، صبح کا ستارہ اور زندہ لاش نامی فلموں میں کام کر چکے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی شائقین کی توجہ نہ پا سکی تھی۔بیسویں صدی کا تان سین جس کا کوئی اُستاد نہ تھاسہگل نے ہندوستانی موسیقی میں نئی روح پھونکی اور اسے نئے سُر تال عطا کیے جس طرح مغلیہ دور کے عظیم مغنی تان سین نے کہیں راگنیوں کو جنم دیا تھا۔ ایسے ہی سہگل نے ہندوستان میں بھجن، فلمی نغموں، کلاسیکل گانوں اور غزل کی گائیکی کے فن کو حیاتِ نو بخشی۔وشوا ناتھ طاؤس لکھتے ہیں کہ سہگل نے دیوداس کا کردار دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کی نسبت زیادہ پُر اثر انداز میں نبھایا (فوٹو: وکی کامنز)کے ایل سہگل کی انفرادیت اس کا قدرتی سوز اور سروں پر دسترس تھی۔ انہوں نے روایتی طور پر کسی اُستاد سے موسیقی کے رموز نہیں سیکھے، البتہ بچپن اور لڑکپن میں مذہبی گیت اور بھجن گانے کی وجہ سے سر اور تال سے آشنائی اور مہارت پیدا ہوئی۔کندن لال سہگل کا جنم چار اپریل 1904 کو ریاست کشمیر کے شہر جموں میں ہوا۔ ان کے والد امر چند کا آبائی علاقہ جلندھر تھا مگر وہ تحصیلدار کی ملازمت کے لیے جمّوں میں مقیم تھے۔والدہ کیسر کور کے مذہبی خیالات کی وجہ سے نو عمر سہگل ان کے ساتھ مندر میں بھجن گایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہیں لوک گیت اور راگنیاں بھی پسند تھیں۔تعلیم کے حصول کے بعد مختصر دورانیے کے لیے ریلوے کے محکمے میں ملازمت اختیار کی۔ یہاں سے دل اُچاٹ ہو گیا تو ٹائپ رائٹرز فروخت کرنے والی کمپنی ریمنگٹن میں شامل ہو کر دلی چلے گئے۔نو عمری میں موسیقی میں کمال اور گیتوں سے شہرت پانے والے ماسٹر مدہن کے بھائی سے سہگل کی شناسائی تھی۔ وہ ریاضت کے لیے ان کے ہاں اکثر جایا کرتے۔گانا سیکھنے کے لیے سہگل نے اُستاد فیاض خان آف بڑودہ کی شاگردگی اختیار کرنی چاہیے تو ان کا جواب تھا ’سہگل کے گلے کا سوز خداداد ہے۔ اگرچہ میں خاندان موسیقی کا ایک فرد ہوں مگر پھر بھی میری اتنی حیثیت نہیں جتنی سہگل کی ہے۔‘کمپنی کی طرف سے کلکتہ تبادلے نے سہگل کو موسیقی میں اپنا آپ منوانے کے مواقع اور ماحول مہیّا کیا۔ ان کی رہائش گاہ پرتھوی راج کپور کے فلیٹ کے ساتھ تھی۔ پرتھوی راج ان سے گانا سیکھتے اور بدلے میں انہیں پشتو بولنا سکھاتے۔ہندوستان میں تھیٹر اور فلم کے ابتدائی دور کے فروغ میں کلکتہ کی نیو تھیٹر کمپنی کا کردار تاریخی ہے۔ اس کے مالک بی این سرکار سہگل کی آواز سنتے ہی مہبوت اور مست ہو گئے۔ پہلی ملاقات میں وہ یہ کہنے کے قابل ہو گئے کہ یہ گویا ایک دن موسیقی کی دنیا میں زلزلہ برپا کر دے گا۔انہوں نے سہگل کو تین فلموں میں اداکار کے طور پر کاسٹ کیا مگر بدقسمتی سے سب ہی فلاپ ثابت ہوئیں۔1931 میں آغا حشرکاشمیری کی کہانی اور مکالموں پر مبنی فلم ’یہودی لڑکی‘ ریلیز ہوئی تو برّصغیر کے طول و عرض میں تہلکہ مچ گیا۔ اس فلم میں سہگل کی گائیکی اور اداکاری نے انہیں شہرت اور مقبولیت بخشی۔ ہندوستان کے معروف موسیقار پنکج ملک کے ساتھ سہگل کا ساتھ اسی دور میں شروع ہوا۔آغا حشر کاشمیری کے شاگرد حکیم احمد شجا کی کہانی پر مشتمل فلم ’کارروانِ حیات‘ میں سہگل کی اداکاری فلم بینوں کو بھا گئی۔ پاکستان کے ابتدائی دور کے نامور فلم ساز انور کمال پاشا انہی حکیم احمد شجاع کے بیٹے تھے۔1934 میں فلم ’چڈی داس‘ ریلیز ہوئی جس میں سہگل اور اوما ششی کا گایا ہوا گیت ’پریم نگر میں بساؤں کی گھر میں‘ ہندوستان کے گھر گھر پہنچ گیا۔اس دور میں گائیکی اور اداکاری دونوں پر عبور فلم میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ سہگل کے علاوہ گلو کارہ ثریا بھی اس وصف کی حامل تھیں۔ معروف پاکستانی گلوکارہ میڈم نور جہاں کسی دور میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ فلموں میں اداکاری بھی کیا کرتی تھی۔فلم ’یہودی لڑکی‘ میں سہگل نے مرزا غالب کی دو غزلیں ’یہ تصرف اللہ اللہ تیرے میخانے میں ہے‘ اور ’نکتہ چین ہے غمِ دل‘ گائیں جنہیں بہت پسند کیا گیا۔ وہ غالب کی شاعری کے دلدادہ اور پرستار تھے۔ انہیں غالب کے شعروں میں چھپے درد اور کسک کی خوب سمجھ تھی۔ اسی وجہ سے ان کے نغموں میں سوز اور کیف کی تاثیر جھلکتی ہے۔
اردو داں طبقے کے لیے مرزا غالب کا کلام میّسر تھا ہی مگر دیو ناگری رسم الخط والوں کے لیے ان کی شاعری پڑھنے کے راستے میں رسم الخط حائل تھا۔ سہگل نے فلموں کے علاوہ بھی غالب کی متعدد غزلیں اپنے پرسوز انداز میں گا کر اُردو نہ پڑھ سکنے والے سامعین کو غالب سے روشناس کروایا۔مشہور ہندوستانی موسیقار نوشاد کا سہگل سے قریبی تعلق تھا۔ جرمنی کے نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی امجد علی کی فلمی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’جو ملے تھے کہکشاں میں‘ میں شامل اپنے انٹرویو میں نوشاد بتاتے ہیں کہ کندن لال جی کے لیے یہ غلط فہمی لوگوں کے دلوں میں تھی کہ وہ صرف فلمی گیت گاتے تھے بلکہ وہ ٹھمری، دادرا اور خیال بھی بہت مہارت سے گاتے تھے۔غالب کے علاوہ انہوں نے شیخ ابراہیم ذوق، سیماب اکبر آبادی، حسرت موہانی اور ببدم وارثی کا کلام بھی اسی چابک دستی اور رچاؤ سے گایا۔برّصغیر کی چار نسلیں سہگل کی جادوئی آواز کے سائے میں پروان چڑھی ہیں۔ ان کا عہد ہندوستان میں فلمی موسیقی کا ابتدائی دور تھا۔ فلمی نغموں کے انداز اور آہنگ کا جو معیار سہگل نے طے کیا تھا اس نے آنے والے وقت میں پاکستان اور انڈیا کے فلمی نغموں کی راہ متعین کی۔اپنی آواز سے فلموں کو آسمان تک پہنچانے والے گلوکار مکیش کی ابتدائی گائیکی پر سہگل کے انداز کی واضح جھلک ملتی ہے۔ مکیش کے پاس سہگل کا ذاتی ہارمونیم بھی تھا جسے وہ اپنے نغموں کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔پاکستان کے معروف گلوکار حبیب ولی محمد کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے گانے کے انداز پر سہگل کا گہرا نقش ہے۔موسیقی میں لازوال شہرت رکھنے والے محمد رفیع کی شہرت کے آغاز کا واقعہ بھی سہگل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس دور میں ان کو سننے والوں کی تعداد کانگرس کے جلسے میں شرکت کرنے والوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ایک بار موسیقی کی ایک محفل میں ہندوستان کے چوٹی کے گائیک موجود تھے۔ سہگل کی باری آئی تو بجلی کے نظام میں گڑبڑ ہو گئی۔ ہزاروں کا مجمع ان کا منتظر تھا۔وہاں موجود حمید نامی شخص نے منتظمین سے کہا کہ ’میرا چھوٹا بھائی سہگل کے انداز میں بہت اچھا گاتا ہے جب تک وہ نہیں آتے ہم شائقین کا دل بہلانے کے لیے اس سے گواتے ہیں۔‘لڑکے کو بلایا گیا تو اس کی مسحور کن آواز پر لوگ جھوم اُٹھے۔ مجمع میں مشہور موسیقار شیام سندر بھی موجود تھے۔ انہوں نے لڑکے کو بلا کر نام پوچھا تو اس نے جواب دیا ’والدین نے محمد رفیع نام رکھا تھا مگر لوگ پھیکو کہہ کر بلاتے ہیں۔‘شیام نے اسے گانے کا موقع دیا اور یہ لڑکا محمد رفیع کے نام سے پوری دنیا میں جانا گیا۔لتا منگیشکر کی سہگل سے شادی کیوں نہ ہو سکی؟لتا منگیشکر کے لڑکپن میں ان کے گھر سہگل کے علاوہ کسی اور کا گانا بجانا منع تھا۔ ان کے والد سہگل کے عقیدت مند تھے۔ لتا کی زندگی پر دستاویزی فلم ساز نسرین کی کتاب ’لتا منگیشکر ان ہر اون وائس‘ میں لتا کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی سہگل سے ملنا چاہتی تھیں۔’میں لڑکپن میں کہا کرتی تھی کہ میں بڑی ہو کر سہگل سے شادی کروں گی۔ میرے والد مذاق میں کہتے کہ وہ اس وقت تک بوڑھا ہو چکا ہوگا۔ میرا جواب یہ ہوتا کہ کوئی بات نہیں میں پھر بھی اسے شادی کروں گی۔‘یہ عجب ہے کہ لتا کی کبھی سہگل سے ملاقات نہیں ہو سکی اور جب ان کے عروج کا زمانہ آیا تو سہگل دنیا سے جا چکے تھے۔ سہگل کی شادی اوشا رانی سے ہوئی تھی جن سے ان کے دو بچے بھی پیدا ہوئے۔لتا منگیشکر کے لڑکپن میں ان کے گھر سہگل کے علاوہ کسی اور کا گانا بجانا منع تھا (فوٹو: لتا منگیشکر فیس بک پیج)سہگل ’کالی پاچ‘ کے بغیر کیوں نہیں گا سکتے تھے؟1941 میں سہگل سیٹھ چندو لال کے بلاوے پر کلکتہ سے بمبئی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے رنجیت مووی نامی ادارے کی فلموں ’تان سین‘،’سور داس‘ اور ’لنگوٹ‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔فلم ’تان سین‘ میں ان کی گلوکاری کے چرچے گلی محلوں میں ہونے لگے۔ اس فلم کے گراموفون ریکارڈز کی فروخت سے ’ہز ماسٹرز وائس‘ کمپنی کو زبردست مالی منافع حاصل ہوا۔پنجابی سہگل کی مادری زبان تھی۔ ایک دور میں ان کی گائی ہوئی پنجابی غزل ’میرے سوہنے ساقیا میری گلی وی پھیرا پاندا جائیں‘ پنجاب کے جس گھر میں گراموفون ہوتا تھا وہاں اس کا ریکارڈ لازمی بجتا تھا۔کلکتہ میں کئی برس قیام کی وجہ سے انہوں نے بنگالی زبان پر بھی دسترس حاصل کر لی۔ بنگالی کے نامور شاعر اور موسیقار رابندر ناتھ ٹیگور کسی ایسے غیر بنگالی کو اپنے گیت گانے کی اجازت نہیں دیتے تھے جوبنگالی تلفظ کی درست ادائیگی نہ کر سکتا ہو مگر انہوں نے سہگل کی بنگالی گائیکی سے متاثر ہو کر دو بنگالی فلموں میں اپنے لکھے گیت انہیں گانے کی اجازت دی۔سہگل مے نوشی کے عادی تھے اور اکثر شراب نوشی کے بعد ریکارڈنگ کرواتے تھے۔ وہ اس وہم کا شکار تھے کہ جام چڑھائے بغیر اچھا نہیں گا سکیں گے۔ وہ شراب کو ’کالی پاچ‘ کہتے تھے۔ فلم شاہ جہاں کی ریکارڈنگ کے وقت بھی انہوں نے ’کالی پاچ‘ کے بغیر گانے سے انکار کر دیا تھا۔مشہور موسیقار نوشاد اس فلم کا میوزک ترتیب دے رہے تھے۔ ان کی زندگی کے واقعات پر مبنی کتاب ’نوشاد کی کہانی نوشاد کی زبانی‘ میں سہگل کی مے نوشی کی عادت کے بارے میں دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔نوشاد نے دیکھا کہ وہ ’کالی پاچ‘ کے بغیر گانے کو تیار نہیں تو انہیں کہا کہ ’میں گانے کی ایک ریکارڈنگ کالی پاچ کے ساتھ اور ایک اس کے بغیر کروں گا۔‘سہگل صاحب مُسکرائے اور کہا کہ ریکارڈنگ اچھی نہیں ہوگی مگر نوشاد صاحب کے اصرار سے وہ دونوں طرح کی ریکارڈنگز پر تیار ہو گئے۔جب دونوں ریکارڈنگز انہیں سنائی گئی تو معلوم ہوا کہ جو ریکارڈنگ ’کالی پاچ ‘ کے بغیر تھی وہ زیادہ پُراثر تھی۔ ۔اسے خود سہگل نے بھی پسند کیا۔ نوشاد نے انہیں کہا کہ آپ بغیر پیئے بھی اچھا گا سکتے ہیں۔ اس پر سہگل نے جواب دیا کہ ’نوشاد صاحب! آپ پہلے کیوں نہیں مجھے ملے۔ اگر اپ ملے ہوتے تو میری شراب چھوٹ جاتی مگر اب دیر ہو چکی ہے۔‘غریب قلی کی خاطر 25 ہزار ٹھکرا دیےنیو تھیٹرز کلکتہ میں جن دیگر فلموں میں سہگل نے کام کیا ان میں ’پورن بھگت‘، ’پریزیڈنٹ‘، ’دھرتی ماتا‘، ’کروڑ پتی‘ اور ’تجارت‘ قابلِ ذکر ہیں۔ انہیں دفتر سے 200 روپے ماہوار تنخواہ مِلا کرتی تھی۔ سہگل تنخواہ لے کر دفتر سے نکلتے تو راستے میں غریبوں اور متاجوں میں بانٹ دیتے۔ اکثر خالی ہاتھ گھر چلے جاتے چنانچہ ان کی بیوی نے خود تنخواہ وصول کرنے کے لیے دفتر آنا شروع کر دیا۔ ایک بار سہگل نے قیمتی ہیرے کی انگوٹھی ایک بے بس بیوہ کے حوالے کر دی۔موسیقار نوشاد نے امجد علی کو انٹرویو میں سہگل کی غریبوں اور مرحوم طبقے سے وابستگی اور ان کی دلجوئی کا واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار بمبئی کے ایک بہت بڑے سیٹھ نے انہیں ایک فنکشن کے لیے بلایا اور انہیں گانے کے عوض 25 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا۔رابندر ناتھ ٹیگور نے سہگل کی بنگالی گائیکی سے متاثر ہو کر دو فلموں میں اپنے لکھے گیت انہیں گانے کی اجازت دی (فوٹو: پوئٹری فاؤنڈیشن)’کندن جی بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ’نوشاد صاحب! میں جا رہا ہوں فلاں جگہ 25 ہزار روپے ملیں گے۔‘ اتنی دیر میں ایک قلی وہاں آگیا جو سٹوڈیو میں سامان اُٹھانے کا کام کرتا تھا۔ اس نے سہگل کو اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کا کارڈ دیا۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ وہ ان کی بیٹی کی خوشی میں لازمی شریک ہوں۔‘نوشاد کہتے ہیں کہ سہگل نے غریب قلی کے لیے اس سیٹھ کے فنکشن میں جانے کا ارادہ بدل دیا۔ اس شام وہ قلی کی بیٹی کی شادی میں بیٹھے گانا گا رہے تھے۔سہگل کی آخری فلم ’پروانہ‘ تھی جو ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی۔ اس کا گیت ’ٹوٹ گئے سپنے میرے‘ اپنے دور کا مقبول فلمی نغمہ بنا۔معروف ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری نے 1945 میں فلم شاہ جہاں کے نغمے لکھے۔ اس فلم کے ہیرو سہگل تھے۔ اس وقت کثرت شراب نوشی سے ان کے جگر اور پھیپھڑے متاثر ہو چکے تھے جس کی وجہ سے وہ کھڑے ہو کر گا بھی نہیں سکتے تھے۔18 جنوری 1947 کو عین عالمِ شباب میں سہگل دنیا سے رخصت ہوئے۔ فلم دیوداس میں ان کا گیت ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں‘ سُن کر ہر درد مند انسان رو دیا کرتا تھا۔ اسی طرح ان کی موت کی خبر سن کر ہر آنکھ اشکبار تھی۔کے ایل سہگل نے مرتے وقت اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ جب وہ انہیں شمشان گھاٹ لے کر جائیں تو سر پر گراموفون رکھ کر شاہ جہاں فلم کے لیے ان کا گایا ہوا یہ گیت بجاتے ہوئے لے کر جائیں:’ہم جی کے کیا کریں گے، جب دل ہی ٹوٹ گیا‘