Xiqing Wang/BBCبی بی سی نے گوانگزوں کے پینیو علاقے میں قائم فیکٹروں کے ورکرز سے بات کی
جنوبی چین میں دریائے پرل کے کنارے واقع شہر گوانگزو کے کچھ حصوں میں سلائی مشینوں کی گونج مستقل سنائی دیتی ہے۔
یہ آواز فیکٹریوں کی کھلی کھڑکیوں سے صبح سے لے کر رات گئے تک جاری رہتی ہے۔ یہاں ٹی شرٹس، شارٹس، بلاؤز، پتلون اور تیراکی کے لباس بنتے ہیں جو 150 سے زیادہ ممالک میں صارفین کے کپڑوں کی الماریوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔
یہ آواز پینیو کے علاقے سے آ رہی ہے جو ’شین گاؤں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں فیکٹریوں کی ایک بڑی تعداد ہے جہاں دنیا کے سب سے بڑے فاسٹ فیشن ریٹیلرز کے لیے مال بنایا جاتا ہے۔
ایک کارکن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر مہینے میں 31 دن ہوں تو میں 31 دن کام کروں گا۔‘
زیادہ تر نے کہا کہ ان کے پاس مہینے میں صرف ایک دن کی چھٹی ہوتی ہے۔
بی بی سی نے یہاں کئی دن گزارے۔ ہم نے 10 فیکٹریوں کا دورہ کیا، چار مل مالکان اور 20 سے زائد کارکنوں سے بات کی۔ ہم نے لیبر مارکیٹوں اور ٹیکسٹائل سپلائرز کے ساتھ بھی وقت گزارا۔
ہم نے دیکھا کہ اس سلطنت کا دھڑکتا ہوا دل دراصل وہ افرادی قوت ہے جو ہفتے میں تقریباً 75 گھنٹے سلائی مشینوں کے پیچھے کام کرتی رہتی ہے اور چینی لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کام کے یہ اوقات زیادہ آمدن کی تلاش میں صنعتی شہر گوانگزو آنے والے دیہی کارکنوں کے لیے غیر معمولی نہیں۔ گوانگزو ایک طویل عرصے سے دنیا کی بے مثال فیکٹری رہا ہے۔
لیکن اس وجہ سے شین کے بارے میں سوالات کی فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جو کبھی چین کی ایک غیر معروف کمپنی تھی اور صرف پانچ سال میں عالمی سطح پر اپنا نام بنا چکی ہے۔
Xiqing Wang/ BBCجیسے جیسے دن گزرتا ہے، ان کی شیلفیں گوداموں میں مال پہنچانے والے صاف پلاسٹک کے تھیلوں سے بھر جاتی ہیں جن پر اب ایک مخصوص پانچ حرفی اسم لکھا ہوتا ہے
یہ ابھی نجی ملکیت میں ہے اور اس کی مالیت تقریباً 60 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے تاہم اس کی تیزی سے ترقی کے دوران بہت سے تنازعات بھی اٹھے ہیں جن میں کارکنوں کے ساتھ بد سلوکی اور جبری مشقت کے الزامات بھی شامل ہیں۔
گذشتہ برس کمپنی نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی چین میں موجود فیکٹریوں میں بچے بھی کام کرتے رہے ہیں۔
کمپنی نے بی بی سی کے ساتھ انٹرویو سے تو انکار کیا لیکن ایک بیان میں یہ کہا کہ ’شین اپنی سپلائی چین میں تمام کارکنوں کے ساتھ منصفانہ اور باوقار سلوک کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے‘ اور گورننس اور کمپلائنس کو بہتر بنانے کے لیے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
اس نے مزید کہا کہ ’ہم تنخواہ کے لیے اعلیٰ ترین معیارات قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام سپلائی چین پارٹنرز ہمارے ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں۔ مزید برآں شین کمپلائنس کو یقینی بنانے کے لیے آڈیٹرز کے ساتھ کام کرتی ہے۔‘
شین کی کامیابی کا انحصار اس کے کام کے حجم پر ہے۔ اس کی آن لائن انوینٹری کی فہرست لاکھوں میں ہے اور اس کے علاوہ انتہائی کم نرخوں پر کپڑے۔
اس کی آمدن میں بہت اضافہ ہوا اور اس نے ایچ اینڈ ایم، زارا اور پرائم مارک یوکے کو پیچھے چھوڑ دیا۔
کٹ پرائس سیلز، شین گاؤں جیسی جگہیں ممکن بناتی ہیں، جہاں تقریباً 5000 فیکٹریاں ہیں اور ان میں سے زیادہ شین کی سپلائر ہیں۔
عمارتوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ان میں سلائی مشینوں، کپڑوں کے رول اور کپڑے کے سکریپ سے بھرے تھیلوں کے لیے راستہ بنایا جا سکے۔ ان کے زیریں حصوں کے دروازے ترسیل اور کولیکشن کے بظاہر نہ ختم ہونے والے چکر کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
جیسے جیسے دن گزرتا ہے، ان کی شیلفیں گوداموں میں مال پہنچانے والے صاف پلاسٹک کے تھیلوں سے بھر جاتی ہیں جن پر اب ایک مخصوص پانچ حرفی اسم لکھا ہوتا ہے۔
لیکن رات کے 10 بجے کے بعد بھی جب دوبارہ نئے مال سے بھرے ٹرک آتے ہیں تو پھر سلائی مشینیں اور ان پر جھکے لوگ کام میں لگ جاتے ہیں۔
Xiqing Wang/ BBCپینیو میں اکثر رات کو بھی کام جاری رہتا ہے
جیانگ شی سے تعلق رکھنے والی 49 سالہ خاتون جنھوں نے اپنا نام نہیں بتایا، کہتی ہیں کہ ’ہم عام طور پر دن میں 10، 11 یا 12 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اتوار کو ہم تقریباً تین گھنٹے کم کام کرتے ہیں۔‘
وہ ایک گلی میں موجود ہیں جہاں ایک درجن کے قریب لوگ بلیٹن بورڈز پڑھنے کے لیے کھڑے ہیں۔ وہ بورڈز پر نوکری کے اشتہارات پڑھ رہے ہیں۔
یہ شین کی سپلائی چین ہے۔ فیکٹریوں کو آرڈر پر کپڑے بنانے کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے - کچھ چھوٹے ٹھیکے ہوتے ہیں اور کچھ بڑے۔ اگر پینٹیں مقبول ہو گئیں تو آرڈرز ایک دم بڑھ جائیں گے اور اسی طرح پروڈکشن بھی بڑھے گی۔ پھر فیکٹریاں اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے عارضی ملازمین کی خدمات حاصل کریں گی۔
جیانگشی سے تعلق رکھنے والی ایک ورکر کسی مختصر مدت کے معاہدے کی تلاش میں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بہت کم کماتے ہیں۔ زندگی گزارنے کی قیمت اب کافی زیادہ ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ اتنا کما لیں گی کہ کہ اپنے دو بچوں کے لیے کچھ بھیج سکیں جو اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
’ہمیں فی ٹکڑے کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شے کتنی مشکل ہے۔ ٹی شرٹ جیسی سادہ چیز کے ایک یا دو یوآن (ڈالر سے کم) فی ٹکڑا ملتے ہیں اور میں ایک گھنٹے میں ایک درجن کے قریب بنا سکتی ہوں۔‘
اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے چینوز کی سلائی کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ ان کے چاروں طرف کارکن حساب لگا رہے ہیں کہ انھیں کپڑے کے ہر پیس کو بنانے کے لیے کتنا معاوضہ ملے گا اور وہ ایک گھنٹے میں کتنے بنا سکتے ہیں۔
پینیو کی گلیاں مزدوروں کی منڈیوں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ صبح کے وقت یہ بھر جاتی ہیں جب ورکر اور سکوٹر، ناشتے کی ریڑھیوں، سویا بین کے دودھ کے کپ اور مرغی اور بطخ کے انڈے بیچنے والے پر امید کسانوں کے پاس سے گزرتے ہیں۔
Xiqing Wang/ BBCفیکٹریاں نوکریوں کے اشتہارات کے ساتھ کپڑے کے نمونے بھی رکھ دیتی ہیں
بی بی سی کو معلوم ہوا کہ کام کے اوقات صبح 8 سے رات 10 بجے تک ہیں۔
یہ سوئس ایڈوکیسی گروپ پبلک آئی کی ایک رپورٹ سے مطابقت رکھتا ہے جو شین کے لیے کپڑے تیار کرنے والی فیکٹریوں میں ٹیکسٹائل کے 13 کارکنوں کے انٹرویوز پر مبنی تھی۔
انھیں معلوم ہوا کہ عملے کے بہت سے افراد ضرورت سے زیادہ اوور ٹائم کام کر رہے ہیں کیونکہ اوور ٹائم کے بغیر ملنے والی اجرت محض 2400 یوآن (327 ڈالر) ہے۔
ایشیا فلور ویج الائنس گروپ کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے والوں کی کم سے کم اجرت 6512 یوآن ہونی چاہیے لیکن جن کارکنوں سے ہم نے بات کی وہ ماہانہ چار سے 10 ہزار یوآن کے بیچ کما رہے تھے۔
گروپ سے وابستہ ڈیوڈ ہیچ فیلڈ کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ گھنٹے بہت غیر معمولی نہیں لیکن اتنے گھنٹے کام کرنا غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔
چینی لیبر قوانین کے مطابق ایک ہفتے میں ملازم سے 44 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جانا چاہیے، ان قوانین میں یہ بھی کہا گیا کہ آجروں کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ملازمین ہفتے میں کم از کم ایک دن آرام کریں۔ اگر کوئی آجر ان اوقات کو بڑھانا چاہتا ہے تو ایسا صرف اور صرف کسی خاص وجہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
نوجوانوں کو ’جنون کی حد تک پسند‘ کپڑوں کا فاسٹ فیشن چینی برانڈکپڑوں کا وہ برانڈ جس نے فیشن کو بدل کر رکھ دیافیشن ایبل کپڑوں کی سستے دام دستیابی کیسے ممکن ہوتی ہے؟عالمی رہنماؤں اور ان کی بیگمات کے لاکھوں ڈالرز کے کپڑوں کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟Xiqing Wang/BBC
شین کا ہیڈکوارٹر اب سنگاپور میں ہے لیکن اس کی زیادہ تر مصنوعات چین میں بنتی ہیں۔ شین کی کامیابی نے واشنگٹن کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروائی ہے۔
جون میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب کردہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ انھیں شین کے ’چینی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات‘ کو لے کر کچھ ’تحفظات‘ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شین کی کامیابی کے پیچھے ’غلاموں کی مزدوری، ان کا خون پسینہ، شاطر تجارتی چالیں اور گھناؤنے راز چھپے ہیں۔‘
اگرچہ شین کے ملازمین کے حالات بالکل ویسے بھی نہیں جسیی روبیو نے بیان کیا لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ طویل گھنٹوں تک کام کرنا گوانگزو میں بہت سے لوگوں کا طریقہِ زندگی بن چکا ہے جو استحصال کے ساتھ ساتھ غیر منصفانہ ہے۔
یہاں مشینیں دن کی ٹیون سیٹ کرتی ہیں۔
ملازمین دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے وقفہ کرتے ہیں اور ہاتھ میں دھاتی پلیٹیں اور چاپ سٹکس اٹھائے کھانا خریدنے کے لیے کینٹین میں داخل ہوتے ہیں۔ زیادہ لوگ آ جانے کی صورت میں بیٹھنے کے لیے جگہ نہ بچے تو وہ گلی میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ایک خاتون جس نے اپنا کھانا کھانے میں محض 20 منٹ سے کم وقت صرف کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان فیکٹریوں میں 40 سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہی ہوں۔‘
ہم نے جن فیکٹریوں کا دورہ کیا وہ تنگ نہیں۔ وہاں کافی روشنی ہے اور مزدوروں کو گرمی سے بچانے کے لیے صنعتی سائز کے پنکھے لگائے گئے ہیں۔
بڑے بڑے پوسٹرز پر لکھا ہے کہ کم عمر مزدور نظر آئے تو اس کے بارے میں اطلاع دیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے چائلڈ لیبر کے وہ دو کیسز ہیں جو پچھلے سال سپلائی چین میں سامنے آئے تھے۔
Xiqing Wang/BBCمزدوروں کو گرمی سے بچانے کے لیے پنکھے لگائے گئے ہیں
بی بی سی کو پتہ چلا ہے کہ کمپنی لندن سٹاک ایکسچینج میں شیئرز بیچنے کے منصوبے سے پہلے اپنے سپلائرز پر زیادہ کڑی نظر رکھ رہی ہے۔
یونیورسٹی آف ڈیلاویئر کے فیشن اور ملبوسات کے پروفیسر شینگ لو کہتے ہیں ’یہ ان کی ساکھ کا سوال ہے، اگر شین اپنے شیئرز فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے ایک اچھی کمپنی کے طور پر تسلیم کیا گیا لیکن اگر وہ سرمایہ کاروں کا اعتماد قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں ذمہ داری لینی ہوگی۔‘
شین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس پر الزام ہے کہ وہ چین کے سنکیانگ علاقے سے کپاس حاصل کرتی ہے۔
سنکیانگ کی کپاس جو کبھی دنیا کی بہترین کپاس سمجھی جاتی تھی، اب ان الزامات کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے کہ یہ مسلمان اویغور اقلیت سے جبری مشقت کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ چین ان الزامات کو مسلسل مسترد کرتا ہے۔
پروفیسر شینگ کہتے ہیں کہ شین کو ان الزامات سے بچنے کے لیے زیادہ شفاف بننا ہوگا۔ ’شین کو اپنی تمام فیکٹریوں کی فہرست عوام کے سامنے لانا اور اپنی سپلائی چین کو واضح کرنا ہو گا۔‘
شینگ کہتے ہیں کہ ’شین کو بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی سپلائی چین مکمل طور پر چین میں ہے۔ بہت کم ممالک کے پاس ایسی مکمل سپلائی چین ہے۔ چین میں یہ سہولت موجود ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘
ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کپڑے بنانے کے لیے خام مال چین سے منگواتے ہیں لیکن چین کی فیکٹریاں ہر چیز، جیسے کپڑا، زپ، اور بٹن، مقامی وسائل سے تیار کرتی ہیں۔ اس لیے چین میں ملبوسات جلدی اور آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں۔
Xiqing Wang/BBCویتنام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کپڑے بنانے کے لیے خام مال چین سے منگواتے ہیں لیکن چین کی فیکٹریاں ہر چیز، جیسے کپڑا، زپ، اور بٹن، مقامی وسائل سے تیار کرتی ہیں۔ اس لیے چین میں ملبوسات جلدی اور آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں
شین کے لیے یہ خاص طور پر فائدہ مند ہے کیونکہ اس کا الگورتھم آرڈرز کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر خریدار بار بار کسی لباس پر کلک کریں یا کسی اونی سویٹر کو زیادہ دیر تک دیکھیں تو کمپنی فوراً فیکٹریوں کو زیادہ کپڑے بنانے کا حکم دے دیتی ہے اور وہ بھی بہت جلدی۔
گوانگزو کے مزدوروں کے لیے یہ کام مشکل ہو سکتا ہے۔
ایک فیکٹری مالک نے کہا ’شین کے فائدے کے ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ آرڈر بڑا ہوتا ہے لیکن منافع کم اور پہلے سے طے شدہ ہی ہوتا ہے۔‘
شین کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ وہ فیکٹری مالکان سے اپنی شرائط منوا لیتے ہیں۔ اس وجہ سے فیکٹری مالکان کو اخراجات کم کرنے کے لیے کہیں اور کٹوتی کرنا پڑتی ہے جو اکثر مزدوروں کی تنخواہوں میں کمی کی صورت میں ہوتی ہے۔
ایک فیکٹری مالک نے بتایا ’شین سے پہلے ہم خود کپڑے تیار کرتے اور بیچتے تھے۔ ہم لاگت کا حساب لگا کر اپنی قیمت اور منافع طے کرتے تھے۔ اب شین قیمت طے کرتی ہے اور ہمیں لاگت کم کرنے کے طریقے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔‘
لیکن جب آرڈرز کی تعداد زیادہ ہو جائے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں لگتا۔ ایک لاجسٹکس کمپنی شپ میٹرکس کے مطابق شین روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً دس لاکھ پیکجز بھیجتی ہے۔
Xiqing Wang/ BBCکئی گھنٹے بعد رات ہونے پر زیادہ تر مزدور اپنے اپنے گھر جا چکے ہیں مگر کچھ عمارتوں میں ابھی بھی روشنی ہے
شین کے سپلائر گو کنگ ای کا کہنا ہے کہ ’شین فیشن انڈسٹری کے لیے ستون ہے۔‘
’میں نے اس وقت شین کے ساتھ کام شروع کیا جب شین نے کمپنی کا آغاز کیا تھا۔ میں نے اس کی ترقی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ سچ کہوں تو شین چین کی ایک زبردست کمپنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اور زیادہ ترقی کرے گی کیونکہ یہ وقت پر ادائیگی کرتی ہے۔ یہی چیز اسے سب سے زیادہ قابل اعتماد بناتی ہے۔‘
’اگر ہماری اشیا کی ادائیگی کی تاریخ 15 ہو تو چاہے رقم لاکھوں میں ہو یا کروڑوں میں، یہ وقت پر ادا کی جاتی ہے۔‘
اگرچہ مزدور شین میں کام کے طویل اوقات اور کم اجرت سے خوش نہیں مگر یہ کمپنی کچھ افراد کے لیے باعثِ فخر بھی ہے۔
گوانگڈونگ سے تعلق رکھنے والی ایک 33 سالہ سپروائزر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ اس کمپنی کے ذریعے ہم چینی لوگ دنیا کے کام آ رہے ہیں۔
باہر اندھیرا ہو چکا ہے اور کھانے کے بعد مزدور دوبارہ فیکٹریوں میں واپس جا رہے ہیں تاکہ دن کا آخری کام مکمل کر سکیں۔
سپروائزر مانتی ہیں کہ کام کے اوقات طویل ہیں لیکن وہ کہتی ہیں ’ہم سب کی آپس میں بہت اچھی بنتی ہے اور ہم ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔‘
کئی گھنٹے بعد رات ہونے پر زیادہ تر مزدور اپنے اپنے گھر جا چکے ہیں مگر کچھ عمارتوں میں ابھی بھی روشنی ہے۔
ایک فیکٹری مالک نے ہمیں بتایا ’کچھ لوگ آدھی رات تک کام کرتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔‘
آخر لندن، شکاگو، سنگاپور، دبئی اور دنیا کے کئی دیگر شہروں میں کئی لوگ شاپنگ سائٹ کھولے سستی چیزیں ڈھونڈ رہے ہیں۔
’حجابی فیشن‘ خواتین میں کیوں مقبول ہو رہا ہے؟فیشن ایبل کپڑوں کی سستے دام دستیابی کیسے ممکن ہوتی ہے؟عالمی رہنماؤں اور ان کی بیگمات کے لاکھوں ڈالرز کے کپڑوں کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟اُن کپڑوں کا کیا کریں جو اب آپ نہیں پہنتے؟نوجوانوں کو ’جنون کی حد تک پسند‘ کپڑوں کا فاسٹ فیشن چینی برانڈاپنے خون سے کپڑے بننے والی فیشن ڈیزائنر