Getty Images
نومبر 1960 تک برطانیہ میں ایک قانون نافذ تھا جس کے تحت غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد کی اشاعت جرم سمجھا جاتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ نامی ناول پڑھنا ممکن نہ تھا۔
اسی زمانے میں برطانوی اشاعتی ادارے پینگوئن بکس نے اس قانون کو چیلنج کرنے کی ٹھانی۔ ان کا ارادہ تھا کہ ڈی ایچ لارنس نامی مصنف کی یہ کتاب مکمل اور بنا سینسر کے چھاپی جائے۔
یوں ایک ایسا مقدمہ شروع ہوا جس نے ایک جانب تو معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کا پردہ فاش کر دیا اور دوسری جانب اس خلیج کو واضح کیا جو عوام اور خود کو اخلاقیات کا محافظ گرداننے والوں کے بیچ موجود تھی۔
یہ ناول 1920 کی دہائی میں اٹلی اور فرانس میں نجی طور پر چھاپا جا چکا تھا تاہم دنیا کے متعدد ممالک، بشمول امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان میں اس پر پابندی عائد تھی۔
برطانیہ میں جس مقدمے کا آغاز ہوا، اس سے قبل مصنفین اور اشاعتی اداروں کی پریشانی میں اس لیے اضافہ ہو رہا تھا کہ قابل اعتراض مواد سے جڑے قانون کے تحت جن کتابوں کی اشاعت پر سزائیں سنائی جا رہی تھیں ان میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
1959 میں ایک نیا قانون متعارف کروایا گیا جس میں فحش کتاب چھاپنے کا الزام لگنے والے کو دفاع کا موقع دیا گیا۔ اس قانون کے تحت یہ راستہ فراہم کیا گیا کہ اپنے دفاع میں یہ موقف اپنایا جا سکتا تھا کہ کسی بھی تحریر کو شائع کیا جا سکتا ہے اگر اس کا شمار ادب میں ہو سکتا ہے اگرچہ کہ اوسط فرد کو یہ تحریر یا کتاب کا مواد پریشان کن لگے۔
’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ (یعنی لیڈی چیٹرلی کا عاشق) نامی کتاب اس وجہ سے متنازع ہوئی کیوں کہ اس میں ایک متمول گھرانے کی عورت، لیڈی کونسٹینس چیٹرلی، اور ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے اولیور میلورز، کے درمیان تعلق کو دکھایا گیا۔ اس ناول میں سیکس کے علاوہ گالیاں اور جنسی خواہشات پر مبنی مواد کی بھرمار تھی۔
Getty Images
مصنف ڈی ایچ لارنس کا ماننا تھا کہ اس کتاب کی مدد سے ادب میں سیکس کو جگہ ملے گی۔ وہ چاہتے تھے کہ سیکس سے جڑے تعلقات کو شرمناک نہیں بلکہ اہم سمجھا جائے۔
1960 میں پینگوئن بکس نے ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشنز کو متنبہ کیا کہ وہ لیڈی چیٹرلیز لوور چھاپنے لگے ہیں۔ اسی سال اگست میں کراؤن کے چیف لیگل ایڈوائزر نے کتاب کے پہلے چار باب پڑھ کر اشاعتی ادارے کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشنز سے کہا کہ ’امید ہے تم سزا دلوانے میں کامیاب ہو گے۔‘
نئے قانون کے تحت یہ پہلا مقدمہ تھا اور لڑائی صرف اشاعتی ادارے اور حکومت کے ایک ادارے کے درمیان ہی نہیں تھی بلکہ یہ آزاد خیال لوگوں اور اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ تھا۔
اپنے موقف کی حمایت کے لیے پینگوئن نے 35 معروف مصنفین اور سیاست دانوں کو بطور گواہ طلب کیا۔ ان میں رچرڈ ہوگارٹ بھی تھے جنھوں نے کہا کہ یہ ناول بنیادی طور پر اخلاقیات سے عاری نہیں جس میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو انھوں نے عدالت آتے ہوئے بھی سنے۔
تاہم پراسیکیوشن کی جانب سے وکیل مرون گرفتھ جونز نے موقف اپنایا کہ ناول میں سیکس کو پورن کی طرح پیش کیا گیا۔ جیوری سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’خود سے سوال کریں کہ کیا آپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو یہ پڑھنے دیں گے؟ کیا آپ ایسی کتاب گھر میں رکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ کتاب آپ اپنی بیوی اور ملازمین کو پڑھنے دیں گے؟‘
پراسیکیوشن نے کتاب میں شامل سو سے زیادہ گالیوں کی نشاندہی بھی کی۔ مقدمہ سننے والے جج نے ایک موقع پر کہا کہ ’کتاب کی کم قیمت کا مطلب ہو گا کہ یہ ہر کسی کو دستیاب ہو گی۔‘
فروغ فرخزاد: ایرانی شاعرہ جن کی تصانیف شہوت انگیز اور مخرب اخلاق کہہ کر تہران کے چوک پر نذر آتش کی گئیںنوجوانوں میں کنڈوم کے استعمال کو ترک کرنے کا رجحان جو پورن دیکھنے سے بڑھ رہا ہےخواتین میں شہوت: فرائڈ کے تخلیق کردہ غلط مفروضے جو آج بھی ہزاروں خواتین کو متاثر کر رہے ہیںآرگیزم گیپ کیا ہے اور خواتین میں ہیجانِ شہوت کی شرح کم کیوں ہے؟
دو نومبر 1960 کے دن چھ دن کے مقدمے کے بعد جیوری نے تین گھنٹے کی مشاورت کے بعد مشترکہ فیصلہ سنایا کہ یہ کتاب سزا کی حقدار نہیں۔ پینگوئن اس فیصلے کے لیے تیار تھا اور انھوں نے کتاب کی فروخت کا مکمل انتظام کیا ہوا تھا۔ پہلے ہی دن دو لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور تین ماہ میں 30 لاکھ۔
چند دن بعد بی بی سی کے نمائندے سے ایک دکاندار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ایک ہزار کاپیوں کا آرڈر کیا تھا۔ ہمیں صرف 500 وصول ہوئیں۔ میرا خیال ہے ہم نے بہت جلدی دکان کھولی اور کچھ ہی دیر میں 50-60 کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔‘
تاہم بہت سے گاہک کتاب کا نام لینے سے کتراتے تھے۔ ایک کتاب فروش نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کچھ صرف لیڈی سی کا نام لے کر کتاب مانگتے ہیں اور کچھ تو نام لیتے ہی نہیں بس اس کی قیمت سامنے کر دیتے ہیں۔‘ ایک رپورٹر نے لکھا کہ یہ کسی عام کتاب کو فروخت کرنے سے مختلف ہے۔
لیکن یہ کوئی عام کتاب نہیں تھی۔ اس کی اشاعت کے بعد یہ آزادی اظہار رائے کی علامت بن گئی اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ برطانوی معاشرہ بدل رہا تھا۔
فروغ فرخزاد: ایرانی شاعرہ جن کی تصانیف شہوت انگیز اور مخرب اخلاق کہہ کر تہران کے چوک پر نذر آتش کی گئیںوہ کتابیں جنھیں پڑھنا ’نہایت خطرناک‘ ہو سکتا ہےنوجوانوں میں کنڈوم کے استعمال کو ترک کرنے کا رجحان جو پورن دیکھنے سے بڑھ رہا ہےخواتین میں شہوت: فرائڈ کے تخلیق کردہ غلط مفروضے جو آج بھی ہزاروں خواتین کو متاثر کر رہے ہیںآرگیزم گیپ کیا ہے اور خواتین میں ہیجانِ شہوت کی شرح کم کیوں ہے؟کنوار پن سے جڑا صدیوں پرانا افسانہ جو لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے