کرکٹ میں آپ نے ہیٹرک کے بارے میں سنا ہوگا۔ وسیم اکرم اور پیٹ کمنز ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہوں نے دو دو بار ہیٹرکس کی ہیں، لیکن یہی بات اگر بالی وڈ کے بارے میں پوچھی جائے تو اسے آپ مذاق سمجھیں گے۔اگر آپ سے پوچھا جائے کہ فلم ’دو بیگھہ زمین‘، ’دیوداس‘، ’بندنی‘ اور ’سجاتا‘ میں کیا مشترک ہے تو آپ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن ان دونوں کا جواب معروف فلم ساز اور ہدایت کار بِمل رائے ہیں۔بِمل رائے انڈین سنیما میں سب سے زیادہ سات بار بہترین ہدایت کاری کا ایوارڈ جیتنے والی شخصیت ہیں اور انہوں نے دو مرتبہ لگاتار تین تین سال تک یہ ایوارڈ جیتا۔
سب سے پہلے انہیں 1953 میں ’دو بیگھہ زمین‘ کے لیے بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ، پھر اگلے سال انہیں اشوک کمار کی فلم ’پرینیتا‘ کے لیے بہترین ڈائریکٹر کا ایوارڈ ملا جبکہ اس سے اگلے سال 1955 میں ’براج بہو‘ کے لیے انہیں بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ دیا گیا۔اس کے بعد 1958، 1959 اور 1960 میں انہیں ’مدھومتی‘، ’سجاتا‘ اور ’پرکھ‘ کے لیے بہترین ہدایت کار کے ایوارڈ سے نوازا گيا۔ پھر 1963 میں انہیں فلم ’بندنی‘ کے لیے ایوارڈ دیا گيا۔اپنا منفرد مقام رکھنے والے بِمل رائے نے آج سے کوئی 90 سال قبل سنیماٹوگرافر کے طور پر فلموں میں قدم رکھا تھا اور یہ فلم کے ایل سہگل کی اداکاری والی ’دیوداس‘ تھی۔اس کے 20 سال بعد انہوں نے دلیپ کمار کے ساتھ جو ’دیوداس‘ بنائی اس نے دیوداس فلموں اور انڈین فلموں کی تاریخ میں ایک انمٹ نقش چھوڑا جسے آج تک ہدایت کاری اور اداکاری کا ایک ایسا معیار مانا جاتا ہے جسے کوئی عبور نہ کر سکا۔خاموش طبیعت بِمل رائے ایسے ہدایت کار ہیں جنہوں نے انڈیا کے آج تک کے سب سے بڑے ہدایت کار مانے جانے والے ستیہ جیت رائے کو بھی متاثر کیا۔ انہیں اور اُن کے فن کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہوئی ان کی سوانح کا عنوان ’بِِمل راۓ: دی مین ہُو سپوک ان پکچرز‘ ہی ان کا بہترین تعارف ہے یعنی وہ شخص جس نے تصاویر کے توسط سے بات کی۔بِمل رائے پر اپنے ایک مضمون میں فلم ناقد آروشی جین نے لکھا کہ ’اگر آج آپ سماجی پیغام پر مبنی سنیما کے بارے میں غور کریں تو آپ کو عصری مسائل کو بیان کرنے والے صرف مُٹھی بھر نام ہی ملیں گے۔‘’اِن میں انوبھو سنہا، ہنسل مہتا، اور شاید عامر خان ہیں، لیکن انڈین سنیما کا کوئی بھی شخص بِمل رائے کے قریب نہیں پہنچتا۔‘
بِمل رائے نے حقیقت کی عکاسی کرنے اور سماجی تبدیلی لانے میں سنیما کی طاقت کو محسوس کیا (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
بِمل رائے ان چند فلم سازوں میں سے تھے جنہوں نے حقیقت کی عکاسی کرنے اور سماجی تبدیلی لانے میں سنیما کی طاقت کو محسوس کیا اور اس کا استعمال کیا جس کا اعتراف بذات خود ستیہ جیت رائے نے بھی کیا ہے۔وہ کسی کہانی کو بیان کرنے کے لیے اُس کی رُوح تک پہنچتے تھے۔ وہ سماجی پیغام دینے کے لیے کسی سوکھے مبلغ کی طرح نہیں تھے بلکہ وہ جو پیغام دینا چاہتے تھے وہ ہمیشہ دلفریب اور دِل پسند کہانیوں کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے جو سامعین کے دلوں میں گہرے اُترے تھے اور اُن کے دِل کے تار کو چُھوتے تھے۔انڈیا کے سماج میں گہرائی سے پیوست ذات پات کے امتیاز کے مسئلے کو بِمل رائے نے اپنی 1959 کی فلم ’سجاتا‘ میں محبت کی کہانی کے ذریعے حل کیا۔ فلم ’سجاتا‘ میں نوتن اور سنیل دت نے اداکاری کی تھی۔ یہ فلم ایک یتیم لڑکی کی کہانی ہے، جو ایک نچلی ذات کے خاندان میں پیدا ہوئی، اور پھر اسے ایک اعلٰی ذات کے خاندان نے گود لیا۔تاہم وہ اپنے اونچے طبقے کے ’خاندان‘ اور معاشرے میں قبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اسے جس خوب صورتی کے ساتھ بِمل رائے نے پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔سنہ 1944 میں بِمل رائے نے اپنی پہلی فلم ’ادیر پاتھے‘ کی ہدایت کاری کی جو کامیاب رہی۔ ایک سال بعد 1945 میں ’نیو تھیٹرز‘نے ہندی میں ’ہم راہی‘ کے نام سے یہ فلم بنائی جس کی ہدایت کاری بھی بِمل رائے نے کی تھی۔بلراج ساہنی کی اداکاری والی یہ رُومانوی حقیقت پسندانہ فلم اس وقت اپنے منفرد موضوع کی وجہ سے بہت زیادہ زیرِ بحث رہی۔ سنیما کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ’ہم راہی‘ انڈین سنیما میں نئی حقیقت پسندی کا آغاز تھا۔
انڈین سنیما میں ’دو بیگھہ زمین‘ بِمل رائے کی ایک رجحان ساز فلم سمجھی جاتی ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
دراصل بِمل رائے کو شروع سے ہی حقیقت پسندی اور سوشلسٹ نظریے میں بہت دلچسپی تھی۔ انہوں نے بائیں بازو کے نغمہ نگار شیلندرا اور موسیقار سلیل چودھری کے ساتھ کئی فلمیں کیں۔ یہ لوگ کمیونسٹ نظریات والے ادارے ’اپٹا‘ سے وابستہ تھے جس کا اثر اُن کی فلموں میں بھی نظر آتا ہے۔کہتے ہیں کہ انہوں نے فلم ’دو بیگھہ زمین‘ معروف اطالوی فلم ’دی بائیسکل تھیف‘ دیکھنے کے بعد بنائی تھی اور اس فلم کی کہانی سلیل چودھری کی کہانی ’رکشہ والا‘ اور رابندر ناتھ ٹیگور کی بنگالی زبان میں لکھی نظم ’دوئی بیگھہ زمین‘ پر مبنی ہے۔اس میں اداکار بلراج ساہنی نے جو اداکاری کی ہے وہ اُن کی بہترین اداکاری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد فلمی ناقدین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بمل رائے تانگے والے ہیں یا پھر زمیندار۔بمل رائے 12 جولائی 1909 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہیں والد کی موت کے بعد خاندانی اختلاف کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ سب کچھ چھوڑ کر کولکتہ چلے گئے۔اس کے بعد وہ فلموں سے اس طرح جُڑے کہ بہت سے لوگوں کے لیے ترغیب و تحریک بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بمل رائے نے ہی ایک گیراج میں کام کرنے والے چھوٹے سے مکینک سمپورن سنگھ کالرا کو فلمی دنیا میں گلزار بنایا۔گلزار کو اگرچہ ادب سے لگاؤ تھا لیکن فلم لکھنے میں ان کی دلچسپی نہیں تھی۔ جب وہ بمل رائے سے ملے تو گلزار کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کی زندگی کیسے بدلنے والی ہے۔گلزار، بمل رائے کی فلموں کے مداح تھے، گلزار نے اپنی کتاب ’آئی میٹ دیم‘ میں لکھا ہے کہ ’مجھے ہمیشہ سے ادب کا شوق تھا، میں ان کی بہت عزت کرتا تھا۔‘
گلزار جب بمل رائے سے ملے تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اُن کی زندگی کیسے بدلنے والی ہے (فائل فوٹو: اے پی)
’اس وقت تک بمل رائے ’دو بیگھہ زمین‘، ’بیراج بہو‘، ’دیوداس‘ اور ’سجاتا‘ جیسی فلمیں دے چکے تھے۔ اس وقت گلزار اپنے دوست دیبو کے ساتھ رہتے تھے جو بمل رائے کے ہیلپر تھے۔اس وقت بمل رائے نوتن اداکاری والی فلم ’بندنی‘ بنا رہے تھے اور وہ اس فلم کے گانے کمپوز کر رہے تھے۔ ہوا یہ کہ گیت نگار شیلندرا اور میوزک ڈائریکٹر ایس ڈی برمن کے درمیان لڑائی ہو گئی اور شیلندر نے ان کے لیے گانے لکھنے سے انکار کر دیا۔بمل رائے سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں گلزار لکھتے ہیں کہ ’میں ایک ایسے سادہ اور معصوم شخص سے ملا کہ ایک لمحے کے لیے میرا دل نہیں جانتا تھا کہ کیا ردِعمل ظاہر کروں۔‘بمل نے دیبو سے بنگالی میں بات کی اور پوچھا کہ ’کیا گلزار کو بنگلہ شاعری کی سمجھ ہے اور وہ لکھ سکتے ہیں؟‘ اس پر دیبو نے انہیں بتایا کہ ’گلزار بنگالی سمجھ اور بول سکتے ہیں۔‘اور پھر گلزار نے جو گیت لکھا اس نے نہ صرف ’بندنی‘ کو بلندی عطا کیا بلکہ انہیں خود امر بنا دیا۔ یہ گيت ’مورا گورا انگ لیے لے، موہے شام رنگ دیے دے‘ تھا جو بہت مشہور ہوا۔اس کے بعد بمل رائے نے گلزار کو اگرچہ کام نہیں دیا لیکن ان سے کہا کہ وہ فلم کو چھوڑ کر نہ جائيں اور پھر گلزار نہ صرف نغمہ نگار بن کر اُبھرے بلکہ اُن کے نقشِ قدم پر سکرپٹ رائٹر، فلم ہدایت کار اور فلم ساز بنے۔بمل رائے نے جتنی فلمیں بنائیں سب کی سب کامیاب رہیں اور سنگِ میل تصور کی جاتی ہیں۔ دلیپ کمار کے ساتھ ان کی فلم ’مدھومتی‘ کو 12 کیٹیگریز میں نامزدگی ملی جن میں اسے نو فلم فیئر ایوارڈز ملے جو کہ اگلے 37 سال تک ایک ریکارڈ رہا۔ان کی فلموں کے گیت بھی لازوال ہیں جس میں ’جلتے ہیں جس کے لیے‘، ’مورا گورا انگ لیے لے‘، ’چلی رادھے رانی‘، ’اب آگے تیری مرضی‘، ’وہ ادا کہاں سے لاؤں‘، ’سہانا سفر‘ اور یہ موسم‘، ’گھڑی گھڑی میرا دل تڑپے‘ وغیرہ شامل ہیں۔تصویروں کے ذریعے بات کرنے والے جینیئس نے آٹھ جنوری 1966 کو آج سے کوئی 60 سال قبل آج ہی کے دن آخری سانسیں لیں۔2007 میں آج ہی کے دن ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔