Getty Imagesخانہ کعبہ کی سنہ 1971 میں لی گئی ایک تصویر
یہ 20 نومبر 1979 کی علی الصبح کی بات ہے جب دنیا بھر سے آئے تقریباً 50 ہزار مسلمان خانہ کعبہ کے احاطے میں فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے جمع تھے۔ ان 50 ہزار افراد میں 200 آدمیوں کا ایک ایسا گروہ بھی موجود تھا جن کی قیادت ایک 40 سالہ مبلغ جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کر رہے تھے۔
جیسے ہی امام کعبہ نے فجر کی نماز پڑھائی، جہیمان اور اُن کے پیروکاروں نے انھیں ایک طرف دھکیل دیا اور لاؤڈ سپیکر کا کنٹرول سنبھال کیا۔
یہ گروہ اپنے ہمراہ چند بند تابوت بھی لایا تھا جس کا مقصد وہاں موجود سکیورٹی عملے یا افراد کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ نماز فجر کے بعد تابوتوں میں موجود میتوں کی نماز جنازہ ادا کی جانی ہے۔
لیکن لاؤڈ سپیکر پر قبضے کے بعد جب تابوت کھولے گئے تو اُن کے اندر ہتھیار تھے جو جلدی سے جہيمان کے ساتھ موجود 200 افراد میں تقسیم کر دیے گئے تھے۔
Getty Images
لاؤڈ سپیکر پر قبضہ کرنے والے ایک شخص نے فوراً ایک تحریری خطبہ پڑھنا شروع کر دیا اور اعلان کیا کہ مسلم امہ جس مہدی کی منتظر ہے وہ آ چکے ہیں جو اب ظلم او جبر کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم کریں گے۔
یہ اعلان مسجد الحرام میں موجود زائرین کے لیے انتہائی غیر معمولی تھا۔ اسلامی تاریخ کے حوالوں کے مطابق جن امام مہدی کی دنیا میں آنے کی بشارت دی گئی ہے اُن کے بارے میں روایت ہے کہ اُن کا ظہور قرب قیامت یعنی قیامت کے قریب ہو گااور وہ اپنے آنے کے بعد ظلم کا خاتمہ کر دیں گے اور سچ غالب آ جائے گا۔
لاؤڈ سپیکر کے ذریعے یہ خطبہ دینے والے شخص کا نام خالد ال یامی تھا، جہیمان العتیبی کے پیروکار تھے۔ انھوں نے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مزید بتایا کہ ایسی بہت سی نشانیاں پوری ہو چکی ہیں جو (اسلامی روایات کے مطابق) مہدی کے ظہور سے قبل رونما ہونی تھیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مہدی جن کا انتظار کیا جا رہا تھا وہ آ چکے ہیں اور اُن کا نام محمد بن عبداللہ القحطانی ہے۔
اس خطبے کی آڈیو ریکارڈنگ میں اس گروہ کے رہنما جہیمان کو بھی سُنا جا سکتا ہے، جو خالد ال یامی کو اس اعلان کے دوران کئی بار روکتے ہوئے اپنے آدمیوں کو مسجد الحرام کے دروازے بند کرنے اور مسجد کے میناروں پر سنائپرز (ماہر نشانہ باز) تعینات کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
جہیمان نے اپنا اعلان شروع کرتے ہوئے کہا کہ ’بھائیو، الرٹ رہو۔۔ احمد اللیبی آپ چھت پر پوزیشن سنبھال لیں، اگر دروازے پر کوئی مزاحمت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے گولی مار دو۔‘
اس واقعے کے چشم دید گواہوں کے بیانات کے مطابق اس کے بعد جہیمان ’مہدی‘ کی بیعت کرنے والے پہلے شخص بن گئے اور پھر انھوں نے اپنے پیروکاروں کو بھی بیعت کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر اس گروہ کے افراد نے باآواز بلند نعرہ بلند کیا ’اللہ اکبر۔‘
مصر سے تعلق رکھنے والے عبدالمنعم سلطان بھی کعبہ کا محاصرہ کیے جانے کے موقع پر وہاں موجود مجمعے میں موجود تھے۔ اس وقت وہ طالبعلم تھے اور نوجوان تھے۔ انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بڑا عجیب و غریب منظر تھا۔ ان کے مطابق اس وقت مسجد الحرام میں بہت سے ایسے غیر ملکی زائرین بھی موجود تھے جو عربی نہیں سمجھ سکتے تھے اور انھیں بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا تھا۔
BBCجب یہ واقعہ پیش آیا اُس وقت عبدالمنعم سلطان ایک طالبعلم تھے
مسجد الحرام میں موجود تمام زائرین مسلح افراد اور اُن کی رائفلوں سے نکلنے والی گولیوں کی آوازیں سُن کر دنگ رہ گئے کیونکہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید نے مسجد الحرام میں کسی بھی طرح کے تشدد اور خون ریزی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسی اثنا اور کنفیوژن کے دوران مسجد الحرام میں موجود چند نمازی دروازے بند ہونے سے قبل وہاں سے بھاگ نکلے۔
اس واقعے کے عینی شاہد عبدالمنعم کا کہنا ہے کہ لوگ ’مسلح افراد کو مسجد الحرام میں دیکھ کر حیران رہ گئے، کیونکہ یہ منظر انتہائی غیر معمولی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ وہاں موجود افراد اس منظر سے خوفزدہ ہو گئے تھے۔‘
ایک گھنٹے کے اندر مسلح افراد نے مسجد کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس نے سعودی حکام کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدن کی وجہ سے سعودی معاشرہ آہستہ آہستہ پرتعیش طرز زندگی کی طرف جا رہا تھا۔ سعودی عرب میں کاروں اور برقی آلات کی خریداری عام ہو گئی، بادشاہت آہستہ آہستہ ایک سول ریاست میں تبدیل ہو رہی تھی اور سعودی عرب کے کچھ علاقوں میں عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں کو میل جول کی آزادی میسر آ رہی تھی۔
خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے والے اس گروہ کے سربراہ جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کا تعلق ساجر شہر سے تھا، جو سلطنت سعودی عرب کے مرکز میں ایک بدو علاقہ ہے۔
Getty Imagesجہيمان بن محمد بن سيف العتيبیجہیمان العتیبی کون تھے؟
صحرا میں آگ کے ارد گرد رات کے کھانے کے سیشن کے دوران اور اپنے کارکنوں کے گھروں میں منعقد ہونے والی محفلوں میں جہیمان اپنے نظریات میں تبدیلی کے بارے میں بات کرے تھے اور اپنے نظریات کا پرچار بھی۔
اسامہ القوسی، جو ان محفلوں میں شریک ہوئے تھے، نے بتایا کہا کہ جہیمان نے انھیں ’منشیات کی سمگلنگ سمیت غیر قانونی تجارت‘ میں اپنے ملوث ہونے کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بعدازاں ان کی زندگی بدلی اور انھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی اور ایک مذہبی رہنما بن گئے۔ کچھ عرصے میں سلفی نظریات رکھنے والے بہت سے لوگ بالخصوص نوجوان اُن کے پیروکار بن گئے۔
میتوالی صالح ایسے افراد میں شامل ہیں جو جہيمان کی شخصیت سے واقف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت مضبوط اور پرعزم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے مطابق جہیمان نے اپنا سب کچھ خدا کے لیے وقف کرنے کا اعلان کر دیا تھا اور وہ دن رات اسی مقصد کے لیے کام کرتے تھے۔
ان کے ایک پیروکار ناصر الہیثمی کا کہنا ہے کہ جہيمان کی تعلیم مذہب تک ہی محدود تھی اور وہ سعودی عرب کے اُن الگ تھلگ اور دیہی علاقوں میں جانے کے خواہشمند ہوتے تھے جہاں بدو بستے تھے۔ اُن کے مطابق اگرچہ جہيمان کا کلاسیکل عربی کا لہجہ کمزور تھا مگر بدو قبائل میں بولے جانے والی عربی کا لہجہ بہت مضبوط تھا اس وجہ سے وہ پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے بات کرنے سے اجتناب کرتے تھے تاکہ ان کا پردہ چاک نہ ہو جائے۔
جہیمان سعودی نیشنل گارڈ میں سپاہی تھے۔ اور مسجد الحرام پر قبضے کی تیاریوں کے دوران اُن کی فوجی تربیت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جدیدیت کے خلاف آواز اٹھانے والے سلفی گروہ سعودی حکام کے ساتھ تنازع میں ملوث ہو چکے تھے، اور اس کے نتیجے میں یہ گروہ سعودی حکام کے زیر عتاب آ رہے تھے۔
سعودی حکام کی سلفیوں کے خلاف جاری کارروائیوں سے بچنے کے لیے جہيمان صحرا کی طرف فرار ہو گئے اور اس دوران انھوں نے متعدد پمفلٹس شائع کیے جن میں انھوں نے شاہی خاندان پر تنقید کی اور کہا کہ شاہی خاندان اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔
انھوں نے سعودی علما پر دنیاوی فائدوں کے عوض شاہی خاندان سے ملی بھگت کرنے کا الزام عائد کیا۔ اُن کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ آل سعود ’بدعنوان‘ ہو چکے ہیں اور یہ کہ اب صرف خدائی مداخلت ہی مسلمانوں کو نجات دلا سکتی ہے۔
اور اسی دورانیے میں جہیمان نے اعلان کر دیا کہ انھوں نے اس ’مہدی‘ کو پا لیا ہے جن کا انتظار کیا جا رہا ہے اور وہ مہدی محمد بن عبداللہ القحطانی ہیں جو ایک نرم گو نوجوان مبلغ ہیں اور وہ اپنے حسن اخلاق، عزم اور شاعری سے محبت کی وجہ سے سعودی معاشرے میں شہرت رکھتے ہیں۔
اسلامی روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ امام مہدی کی پیشانی چوڑی ہو گی جبکہ اُن کی ناک پتلی اور نوکیلی ہو گی۔ جہیمان کے مطابق انھوں نے یہ سب نشانیاں القحطانی میں دیکھی ہیں۔ القحطانی نے اس متعلق حتمی دعوے سے قبل استخارہ بھی کیا تھا۔
القحطانی بعد میں جہيمان کی باتوں سے قائل ہو گئے کہ وہی مہدی ہیں اور انھوں نے بطور نجات دہندہ اپنا کام شروع بھی کر دیا۔ جہيمان اور القحطانی کے تعلقات میں مزید مضبوطی اُس وقت ہوئی جب القحطانی نے اپنی چھوٹی بہن کی شادی جہیمان سے کر دی۔ جہیمان کی یہ دوسری بیوی تھیں۔
خانہ کعبہ کے محاصرے سے کئی ماہ قبل مکہ کے سینکڑوں باشندوں اور حجاج کرام میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ انھوں نے القحطانی کو خواب میں دیکھا ہے، جو مسجدالحرام میں اسلام کا جھنڈا اٹھائے باوقار انداز میں کھڑا تھے۔
جہيمان کے پیروکار اس بات کے قائل تھے۔ میتوالی صالح کہتے ہیں کہ ’مجھے آخری ملاقات یاد ہے جب ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ ’آپ مہدی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ براہ مہربانی اس متعلق بات نہ کریں، پھر ان میں سے ایک نے کہا، ’تم ایک گونگے شیطان ہو۔ میرا بھائی المہدی حق ہے اور وہ محمد بن عبداللہ القحطانی ہے۔‘
واقعات کیسے رونما ہوئے؟
سعودی حکام کے سلفیوں کے خلاف ایکشن سے بچنے کے لیے دور دراز کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے جہیمان اور ان کے پیروکاروں نے مسلح تصادم کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ان کی جانب سے کعبے کے محاصرے سے ردعمل میں سعودی قیادت کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کو ڈھیلا ڈھالا قرار دیا گیا تھا۔
جس وقت مسجد الحرام میں اس حملے کا آغاز ہوا اُس وقت ولی عہد شہزادہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود تیونس میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں شریک تھے۔ اور شہزادہ عبداللہ، جو نیشنل گارڈ کے کمانڈر تھے اور مراکش میں شہزادوں اور رہنماؤں کی حفاظت کے ذمہ دار تھےT نے سارا معاملہ شاہ خالد، جن کی صحت خراب تھی، اور اس کے وزیر دفاع شہزادہ سلطان پر چھوڑ دیا۔
سعودی پولیس کو پہلے تو اس مسئلے کی گہرائی کا احساس نہیں ہوا اور اس نے دو ریسکیو گاڑیاں جائے وقوعہ کی جانب روانہ کر دیں۔جیسے ہی پولیس کی یہ گاڑیاں مسجد الحرام کے قریب پہنچیں تو اُن پر محاصرہ کرنے والوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کر دی گئی۔
جب صورتحال کی سنگینی واضح ہو گئی تو نیشنل گارڈ یونٹ نے مسجدالحرام کا انتظام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔
اس وقت جدہ میں امریکی سفارت خانے میں سیاسی محقق مارک ہیمبلی ان چند مغربی سفارت کاروں میں شامل تھے جو اس واقعے کے بارے میں واقفیت رکھتے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ محاصرہ ’جرات اور بے ہودگی‘ دونوں کی علامت تھا۔ ان کے مطابق ’سنائپرز کے پاس بہت اچھے ہتھیار تھے اور بیلجیئم میں تیار کردہ رائفلیں بھی تھیں۔‘
یہ واضح ہو گیا کہ محاصرہ کرنے والے عناصر نے اس طرح منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ انھیں آسانی سے منتشر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے ارد گرد حفاظتی حصار نافذ کر دیا گیا تھا اور خصوصی دستے، سکیورٹی اہلکار اور مسلح یونٹ تعینات کر دیے گئے۔
اس دن خانہ کعبہ کے اندر پھنسے عبدالمنعم سلطان کا کہنا ہے کہ جھڑپیں محاصرے کے دوسرے دن دوپہر کو ہوئیں۔ ان کے مطابق ’میں نے توپ خانے کے گولے میناروں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے، میں نے ہیلی کاپٹر کو مسلسل آسمان پر منڈلاتے دیکھا، اور میں نے جنگی طیارے بھی دیکھے۔‘
مسجدالحرام ایک بہت بڑی عمارت تھی، جس میں سیکڑوں میٹر لمبی راہداری تھی، اس وقت یہ عمارت دو منزلہ تھی۔ محاصرے کے بعد دو دنوں میں سعودی افواج نے حرم کے داخلی راستے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حملے شروع کر دیے۔
لیکن جہيمان اور اس کے پیروکار یکے بعد دیگرے ان حملوں کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئے، باوجود اس کے کہ ان کے پاس ہتھیار ختم ہو رہے تھے اور حملہ آورں کی تعداد بہت کم تھی۔
عبدالمنعم کا کہنا ہے کہ اُس دن جب کعبہ کے قریب اُن سے ملاقات ہوئی تو جہیمان بہت پُراعتماد اور پُرسکون نظر آئے۔ ان کے مطابق ’وہ آدھے گھنٹے یا 45 منٹ تک سوتے رہے، میری ٹانگ پر اپنا سر رکھ کر سوتے رہے جبکہ ان کی بیوی ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔‘
جہیمان کے پیروکاروں نے قالینوں اور ربڑ کے ٹائروں کو آگ لگا دی تاکہ دھوئیں کے بادل اٹھیں اور وہ ستونوں کے پیچھے چھپ گئے۔ اب یہ پناہ گاہ میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی تھی اور ہلاکتوں کی تعداد تیزی سے سینکڑوں تک پہنچ گئی۔
اس وقت وزارت داخلہ کے سپیشل فورس کے کمانڈر میجر محمد النوفی کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ’دو فریقین کے درمیان ایک محدود جگہ پر لڑائی کی صورتحال جیسی تھی جس میں ناقابل یقین حد تک گولیاں بائیں اور دائیں طرف سے چل رہی تھیں۔ وہ سب ناقابل یقین تھا۔‘
اس موقع پر سعودی علما کی جانب سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا جس میں سعودی فوج کو حرم پر قبضہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے ہر طرح کی طاقت کے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ جہيمان کے پیروکاروں کو شکست دینے اور انھیں میناروں سے پیچھے دھکیلنے کے لیے ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور سپیشل فورسز کے ارکان نے گیٹ پر دھاوا بول دیا۔
عبدالمنعم سلطان کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ سب دیکھا تھا کہ القحطانی کی آنکھوں کے نیچے دو ہلکے زخم تھے اور اُن کا لباس پھٹا ہوا تھا اور گولیوں کے سوراخوں سے پُر تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بغیر کسی تحفظ کے کہیں بھی ظاہر ہو سکتے تھے کیونکہ وہ آخر کار مہدی تھے۔‘
لیکن القحطانی کا گولیوں سے اپنی ذات کو حاصل استثنیٰ خام ثابت ہوا اور وہ جلد ہی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
Getty Images
اس موقع کے ایک اور عینی شاہد، جنھوں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، کا کہنا تھا کہ لوگ چیخنے لگے کہ ’المہدی زخمی ہو گئے، المہدی زخمی ہو گئے۔‘ اور ان میں سے کچھ نے بھاگ کر ان کی جان بچانے کی کوشش کی لیکن مسلسل گولیوں نے انھیں القحطانی تک پہنچنے سے روک دیا اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔
انھوں نے جہیمان کو المہدی کے زخمی ہونے کی اطلاع دی، جنھوں نے پھر اپنے پیروکاروں سے چلا کر کہا کہ ’ان پر یقین نہ کرو، وہ چھپے ہوئے ہیں۔‘
چھٹے دن سعودی افواج مسجدالحرام کے صحن اور اس کے آس پاس کی عمارتوں کو کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ لیکن جہيمان کے باقی ماننے والوں نے اپنے آپ کو وہاں موجود بہت سے زیر زمین کمروں اور سیلوں میں بند کر رکھا تھا کیونکہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ان کے لیڈر یعنی ’مہدی‘ اب بھی حرم میں کہیں زندہ ہیں۔
’لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کھجور (ذخیرہ کردہ خوراک) بھی ختم ہونے لگی۔۔۔ وہ ایک خوفناک ماحول تھا، بالکل ویسے جیسے ہم کسی ڈراؤنی فلم میں ہوں۔‘
BBCامریکی سفیر مارک ہمبلےفرانسیسی امداد
یہ واضح ہو گیا کہ سعودی حکومت کو باغیوں کے رہنماؤں کو زندہ پکڑنے اور محاصرہ ختم کرنے میں مدد کی ضرورت تھی۔ انھوں نے فرانس کے صدر والری جسکار دایستان سمیت کئی حکومتوں سے مدد کی درخواست کی۔
سابق فرانسیسی صدر والری جسکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سعودی عرب میں ہمارے سفیر نے مجھے بتایا کہ یہ واضح ہے کہ سعودی افواج غیر منظم ہیں اور وہ بحران سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔‘ واضح رہے کہ سابقفرانسیسی صدر نے پہلی بار اس بحران کے حل میں فرانس کے کردار کی تصدیق کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سعودی حکومت کی کمزوری، اس کی تیاری کے فقدان اور تیل کی عالمی منڈی پر اس صورتحال کے ممکنہ نتائج کی وجہ سے یہ معاملہ میرے لیے خطرناک ثابت ہوا۔‘
فرانسیسی صدر نے نئے تشکیل شدہ انسداد دہشت گردی یونٹ سے منسلک تین مشیر خفیہ طور پر سعودی عرب بھیجے۔ مغربی مداخلت کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تنقید سے بچنے کے لیے آپریشن کو خفیہ رکھا گیا تھا۔
فرانسیسی ٹیم طائف شہر کے ایک ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، جہاں انھوں نے ’باغیوں سے نجات حاصل کرنے‘ کے لیے اپنا منصوبہ تیار کیا، جس کا مقصد ان تہہ خانوں کو خالی کروانا تھا جہاں حملہ آور پناہ لیے ہوئے ہوئے تھے۔
BBCسابق فرانسیسی صدر والری جسکار
کیپٹن پال بریل، جو اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے ذمہ دار تھے، کا کہنا ہے کہ ’20 منٹ تک گڑھے کھود کر اُن کے ذریعے گیس تہہ خانوں میں پمپ کی گئی، جو جلد ہی تمام حصوں تک پھیل گئی۔‘
ان تہہ خانوں سے زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے بتایا کہ ’میں جہیمان کے باقی ماندہ پیروکاروں کے ساتھ تہہ خانے میں بند تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے دنیا ختم ہو رہی ہے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے موت ہمارے پاس آ گئی ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ ڈرلنگ کی آواز تھی یا ہتھیاروں کی۔‘
جب حجر اسود 22 سال کے لیے کعبہ سے اکھاڑ لیا گیا’خیزران‘: ایک غلام سے تین خلفا کے تخت کی طاقت بن جانے والی خاتونتیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانیآبِ زم زم کیا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ اتنا مقدس کیوں ہے؟فرانسیسی منصوبہ کامیاب ثابت ہوا؟
جہیمان کے پیروکاروں میں سے ایک ناصر الہیثمی کہتے ہیں کہ ’محاصرہ کے آخری دو دنوں کے دوران ہمارے پاس خوراک اور گولہ بارود ختم ہو گیا تھا، باغی سب ایک چھوٹے سے کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے اور فوجیوں نے چھت کے ایک سوراخ سے ان پر دھویں کے بم پھینکے تھے۔ انھوں نے ہتھیار ڈال دیے، اور جہیمان باہر نکلے اور سب ان کی پیروی کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔‘
میجر النوفی سعودی شہزادوں اور جہيمان کے درمیان ملاقات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کے مطابق شہزادہ سعود الفیصل نے ان سے پوچھا کہ ’جہيمان تم نے ایسا کیوں کیا؟‘ انھوں نے جواب دیا، ’یہ تقدیر کا لکھا تھا۔ اس کے بعد شہزادہ سعود نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کو کچھ اور چاہیے؟ تو اس کے جواب میں جہیمان نے کہا کہ اگر پینے کو کچھ پانی مل جائے۔‘
اس واقعے کے تقریباً ایک ماہ بعد سعودی عرب کی حکومت نے اس جرم کی پاداش میں آٹھ شہروں میں 63 افراد کو سرعام پھانسی دی اور ان میں سے سب سے پہلے جہيمان کو پھانسی دی گئی۔
BBCفرانسیسی ٹیم کے پال بیرل بائیں طرف
جہيمان کا مہدی کی آمد سے متعلق عقیدہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہو لیکن وہ ایک ایسی قدامت پسند سماجی اور مذہبی تحریک کا حصہ تھے جو سعودی معاشرے میں جدیدیت کے خلاف تھی۔
ناصر کا کہنا ہے کہ ’جہيمان نے تمام قسم کی جدیدیت کی مخالفت کی۔‘ اُن کے مطابق مثال کے طور پر ان کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ تمام خواتین براڈ کاسٹرز کے ٹی وی پر آنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔‘ ان کے مطابق اس واقعے کے بعد کبھی کوئی خاتون براڈکاسٹر ٹی وی پر دوبارہ نمودار نہ ہوئی۔
مملکت اگلی چار دہائیوں تک اس انتہا پسندی کے راستے پر قائم رہی۔ اس نقطہ نظر سے نکلنے کے آثار حال ہی میں سامنے آئے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ 2018 میں ایک پریس انٹرویو میں کہا تھا کہ ’1979 سے پہلے، ہم تمام خلیجی ممالک کی طرح عام زندگی گزارتے تھے، اور مملکت میں فلم تھیٹر تھے۔‘
وہ مکہ میں مسجد الحرام کے محاصرے کے واقعے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے تناظر میں بات کر رہے تھے۔
خانہ کعبہ کا محاصرہ: 45 سال پہلے کیا ہوا تھا؟’عربوں کا نپولین‘ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود جنھوں نے جدید سعودی ریاست کی بنیاد رکھیتنقید کے باوجود کھیلوں کی دنیا میں بڑھتا اثر و رسوخ: سعودی عرب فٹبال ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟تنقید کے باوجود کھیلوں کی دنیا میں بڑھتا اثر و رسوخ: سعودی عرب فٹبال ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟’نیا مشرق وسطیٰ‘: اسرائیل کے متنازع نقشوں اور خطے کی نئی ترتیب کا مقصد کیا ہے؟’ٹاور 22‘، فضائی اڈے اور بحری بیڑے: امریکی افواج مشرقِ وسطیٰ میں کہاں اور کیوں موجود ہیں؟