دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جن میں کم عمر بچوں کی نمایاں تعداد بھی شامل ہے۔
یہ بچے نہ صرف تفریح کی غرض سے سوشل میڈیا سے جُڑ رہے ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو سوشل میڈیا سٹارز بن چکے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ان پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہیں۔
اکثر گھروں میں بچے اپنے والدین یا بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے متعارف ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں۔
تاہم حال ہی میں سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر سید مسرور احسن اور سینیٹر سرمد علی کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا جس میں تجویز دی گئی ہے کہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روکا جائے۔
مجوزہ بل کے مطابق کم عمر صارفین کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے گا، اور اگر کسی فرد یا کمپنی نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جا سکتے ہیں۔
کم عمر بچوں کو آن لائن ہراسانی اور ذہنی دباؤ سے بچانا
اس مجوزہ قانون کا مقصد کم عمر بچوں کو آن لائن ہراسانی، ذہنی دباؤ، نامناسب مواد اور جعلی معلومات جیسے خطرات سے محفوظ رکھنا ہے۔
بل میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر نئے صارف کی عمر کی تصدیق کریں۔ اس مقصد کے لیے نادرا کے ڈیٹا بیس سے ڈیجیٹل ویریفکیشن یا والدین کی رضامندی پر مبنی نظام متعارف کرانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کسی پلیٹ فارم نے اگر قانون کی خلاف ورزی کی تو متعلقہ ادارے اس کے خلاف سخت کارروائی کر سکتے ہیں، جس میں بھاری جرمانوں کے علاوہ ملک میں سروس معطل کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اس بل پر سوشل میڈیا انفلوئنسرز، ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹس اور دیگر ماہرین کی آرا جاننے کے لیے اردو نیوز نے ان سے بات چیت کی ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ آیا یہ واقعی ایک مثبت قدم ہے یا اس کے کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں؟
مجوزہ قانون کا مقصد بچوں کو آن لائن ہراسانی، ذہنی دباؤ اور نامناسب مواد جیسے خطرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پابندی کے ساتھ ساتھ پرائیویسی بریچ ہونے کا خدشہ
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی معروف تنظیم ’بولو بھی‘ کے شریک بانی اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ’16 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو انٹرنیٹ تک مکمل رسائی دینے کے یقیناً نقصانات بھی ہیں لیکن مختلف حفاظتی ٹولز کی مدد سے بچوں کے لیے سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے استعمال کو محدود ضرور کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’یوٹیوب کے لیے ’یوٹیوب کڈز‘ دستیاب ہے، جو خاص طور پر بچوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسی طرح نیٹ فلکس میں بھی ’پیرنٹل کنٹرول‘ موجود ہے، جب کہ فیس بک اور میسنجر پر بھی والدین بچوں کے لیے مخصوص کنٹرول اور نگرانی کے فیچرز استعمال کر سکتے ہیں۔‘
’16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کے بجائے بہتر یہ ہوگا کہ والدین اور صارفین کو آگاہی دی جائے کہ وہ کس طرح بچوں کو مخصوص، محفوظ اور محدود نوعیت کا مواد مہیا کر سکتے ہیں۔‘
اسامہ خلجی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ’پاکستان میں آن لائن لرننگ کے ذریعے بچے آج کل بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔‘
’سوشل میڈیا کے استعمال پر اگر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تو اس سے بچوں کو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر سوشل میڈیا تک رسائی کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے تو بچے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں اور خطرات سے بھی بچ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے پرائیویسی کے خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایسی کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے تو اس میں پرائیویسی کا ایک سنجیدہ مسئلہ بھی پیدا ہوگا۔‘
’بل میں پی ٹی اے کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ یہ چیک کرے کہ کس اکاؤنٹ کا صارف 16 سال سے کم عمر ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صارفین کا ڈیٹا حکومتی اداروں کے پاس جائے گا، جبکہ پاکستان میں پہلے ہی ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی مؤثر قانون موجود نہیں۔ اس سے ڈیٹا بریچ ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو گا۔‘
اسامہ خلجی نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں اس طرح کے قوانین بنا تو دیے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اب اگر تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر عمر کی تصدیق کا نظام لاگو کیا جائے تو اتھارٹیز کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ کیسے تعین کریں کہ کون سا اکاؤنٹ 16 سال سے کم عمر فرد کا ہے اور کون سا نہیں۔‘
ماہرین کے مطابق کم عمر بچوں پر پابندی کا بل اصل مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
عمر کی تصدیق ایک پیچیدہ عمل
اس حوالے سے معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر عبدالحئی صدیقی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک، جن میں آسٹریلیا اور ناروے شامل ہیں، اس نوعیت کی قانون سازی کر چکے ہیں۔ تاہم، ان ممالک میں بھی اس پر مکمل عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ یہ تصدیق کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے کہ کون سا صارف 16 سال سے زیادہ عمر کا ہے اور کون سا نہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس مجوزہ قانون میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نادرا اور پی ٹی اے کے تعاون سے دوہری تصدیق (ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن) کے ذریعے اس امر کی تصدیق کی جائے گی کہ 16 سال سے کم عمر بچے سوشل میڈیا استعمال نہ کر سکیں۔‘
عبدالحئی صدیقی نے زور دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بچوں کے لیے ایسا مواد فراہم کیا جائے جو ان کے لیے کسی طور نقصان دہ نہ ہو۔ جیسا کہ نیٹ فلکس اور دیگر پلیٹ فارمز پر بچوں کے لیے موڈ یا فلٹرنگ کے آپشنز موجود ہوتے ہیں، ویسی ہی سہولیات یہاں بھی ہونی چاہییں۔‘
انہوں نے اس امر کو سراہا کہ حکومت بچوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے قانون سازی پر غور کر رہی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پلیٹ فارمز یا ایپس پر مکمل پابندی نہیں لگنی چاہیے، بلکہ ان کو مؤثر طریقے سے منظم کیا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ والدین اپنے بچوں کو سوشل میڈیا پر کیا دیکھنے کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کی نگرانی کیسے کی جا سکتی ہے؟
مجوزہ قانون اصل مسائل کو نظر انداز کرنے کے مترادف؟
ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ صدف خان سمجھتی ہیں کہ ’16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کا بل بظاہر ایک فوری حل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ اصل مسائل کو نظرانداز کرتا ہے۔‘
ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹس کے خیال میں صارفین کی عمر کا تعین ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔ فوٹو: فری پک
ان کے مطابق سوشل میڈیا آج کے بچوں اور نوجوانوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، ایسے میں ان تک اس کی رسائی کو مکمل طور پر روکنا نہ صرف غیر عملی ہے بلکہ یہ ان چیلنجز سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے جن کا سامنا ہمیں بطور معاشرہ کرنا چاہیے۔
’ہمیں اس پر بات کرنی چاہیے کہ بچوں کو سائبر بُلنگ، نقصان دہ مواد، اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے، لیکن یہ بل ان پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ایک سطحی حل پیش کرتا ہے۔‘
وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ ’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ایسے ہزاروں کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس کو کیسے شناخت کرے گی اور انہیں بند کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟ دنیا کے دیگر ممالک جیسے آسٹریلیا میں عمر کی شناخت کے نظام کو آزمانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔‘
’پاکستان میں نہ کوئی ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے، نہ بجٹ مختص کیا گیا ہے، اور نہ ہی عملدرآمد کا کوئی واضح روڈمیپ دیا گیا ہے۔‘
’اس مجوزہ بل کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جو والدین یا بڑے بچوں کے لیے اکاؤنٹ بنانے میں مدد کریں گے اُن کو مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔‘
صدف خان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں اکثر والدین خود ڈیجیٹل دنیا سے ناآشنا ہوتے ہیں، وہاں بچے ہی انہیں آن لائن دنیا سے جوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا اور ان کی مدد کرنے والوں کو سزا دینا، ایک انتہائی غیر دانشمندانہ پالیسی ہے۔‘
صدف خان کے مطابق ہمیں اس مسئلے کا حل زیادہ مؤثر انداز میں تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو ڈیجیٹل شعور رکھتا ہو۔ والدین کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ پیرنٹل کنٹرولز کیسے استعمال کیے جائیں، اساتذہ کو یہ سکھانا چاہیے کہ وہ آن لائن اخلاقیات کے حوالے سے طلبہ سے بات کریں، اور سب سے بڑھ کر، سوشل میڈیا کمپنیوں کو ان نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے جن کا ان کے پلیٹ فارمز کی وجہ سے بچوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کے مطابق ریاستی پابندی کی پالیسی ایک خیالی حل ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچے پہلے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں، اور اس رجحان کو روکنے کے لیے سخت گیر بندشوں کی نہیں بلکہ ایک سمارٹ حل کی ضرورت ہے۔