Getty Images
قدیم مصر کی تاریخ اور اُس کے آثار اب تک مصر کی سرزمین سے ’عبرانیوں کے خروج‘ کے اُس واقعے کے متعلق خاموش رہے ہیں، جس کا ذکر انجیل اور قرآن کی بعض آیات میں موجود ہے۔
الہامی کتب میں بھی مصر کے حاکم اُس فرعون کا نام موجود نہیں جو حضرت موسیٰ کا ہم عصر تھا۔
یہی وہی چیز ہے جس نے قدیم مصری تاریخپر تحقیق کرنے والوں کو مجبور کیا کہ وہ اس بارے میں دستیاب تمام تاریخی معلومات جمع کریں جو اس ’پہیلی‘ کو حل کرنے اور اس ’نامعلوم‘ بادشاہ کی شخصیت کا تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہیں تاوقتیکہ آثار قدیمہ کے ایسے نئے ثبوت سامنے نہ آ جائیں جو استنازعے کو حل کر سکیں۔
سنہ 1976 میں پیرس میں واقع ’بورگے‘ ایئربیس پر فرعون رعمسيس (رمسیس) دوم کی ممی ایک ڈبل ڈیکر فرانسیسی فوجی طیارے میں لائی گئی تھی۔ اس حنوط شدہ لاش کے استقبال کے لیے ایک شاندار سرکاری تقریب منعقد کی گئی، جس میں فرانسیسی صدر کے خصوصی نمائندے، فرانسیسی مسلح افواج کے کمانڈر اور پیرس میں مصر کے سفیر نے بھی شرکت کی۔
اس لاش کو پیرس میں واقع ’میوزیم آف مین‘ میں رکھا گیا جہاں فرانسیسی سائنسدانوں کے ایک گروہ نے پھپھوندی سے متاثرہ اس ممی کی مکمل بحالی کا عمل سرانجام دینا تھا۔
Getty Images
فرانسیسی صدر اُس وقت کے مصری صدر محمد انور سادات کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ بادشاہ کی لاش کو سائنسی معائنے کے لیے پیرس بھیجا جائے۔ اس معائنے سے بادشاہ کی زندگی کے مزید رازوں سے پردہ اٹھانا اور اس کی موت کی وجوہات جاننا مقصود تھا کیونکہ جب اُن کی موت ہوئی تھی تب وہ بڑھاپے کے باعث بہت سے بیماریوں میں مبتلا تھے۔
26 ستمبر 1976 سے لے کر 10 مئی 1977 تک پورے سات ماہ تک، پیرس نے اپنے اس حنوط شدہ ’معزز مہمان‘ کی میزبانی کی۔
معروف فرانسیسی دانشور کرسٹیئن دی روچے نوبلکورٹ نے اس ممی سے متعلق اپنی تحقیق ’رعمسیس دوم۔سچی کہانی‘ میں اس بارے میں لکھا کہ اس فرعون کے لیے ایک بڑا، جراثیم سے پاک ہال تیار کیا گیا تاکہ وہاں اس پھپھوندی اور بیکٹیریا کا پتہ لگایا جا سکے جو اس حنوط شدہ لاش کو نقصان پہنچا رہے تھے اور اسے (ممی) بچانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا جا سکے۔
اس کام کے لیے عجائب گھر کے سربراہ 120 کے قریب معاونین جمع کرنے میں کامیاب رہے جنھوں نے رضاکارانہ طور پر اس کام کو انجام دیا۔ ان معاونین میں مختلف مہارت اور صلاحتیوں کے حامل 63 سائنسی محققین بھی شامل تھے۔
Getty Imagesرعمسیس دوم کی ممی کو فرانس میں کیوں رکھا گیا؟
رعمسیس دوم کی ممی کو پیرس بھیجنے کے پیچھے تین اہم مقاصد تھے، جن میں سے پہلا مقصد لاش کی ٹانگوں، ایڑھیوں، دائیں کندھے اور پیٹ پر نمودار ہونے والی پھپھوندی کا علاج کرنا تھا۔
دوسرا مقصد قدیم مصرمیں لاشیں حنوط کرنے کے طریقوں کے رازوں کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرنا تھا جبکہ تیسرا مقصد فرعون کی موت کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کرنا تھا کہ آیا یہضعیف العمری کی وجہ سے فطری موت تھی یا اس کی موت پانی میں ڈوبنے سے ہوئی کیونکہ مفروضے کے مطابق یہ وہی فرعون تھا جو بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے نیل میں ڈوب کر مرا تھا۔
فرعون کی ممی کے پیرس پہنچنے سے قبل فرانسیسی حکومت نے پیرس کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں اینتھراپالوجی لیبارٹری کی مدد سے جدید سائنسی تکنیک سے لیس لیبارٹری تیار کی تھی، جسے ’رعمسیس دوم لیبارٹری‘ کا نام دیا گیا۔
اس لیبارٹری کو ایک ایکس رے مشین، ایئر کنڈیشنگ ڈیوائسز اور نمی کی پیمائش کرنے کے لیے آلات فراہم کیے گئے تھے۔
Getty Images
میوزیم آف مین کے ڈائریکٹر پروفیسر لیونل بالو کی سربراہی میں سائنسی ٹیم نے ممی کے نمونے لینے کے لیے ایک تفصیلی پروگرام بنایا۔ ڈاکٹر کولیٹ روبیکس محققین، لیبارٹریوں، مراکز اور مختلف سائنسی اداروں کے درمیان سائنسی ہم آہنگی کے عمل کی نگرانی کر رہے تھے، جنھوں نے ممی پر تحقیق کے اس عمل میں حصہ لیا۔
اس مہم میں 100 سے زیادہ سائنسی محققین اور 20 سائنسی اداروں، مراکز اور اداروں کی شرکت ضروری تھی، جن میں خاص طور پر نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ (نمونے لینے اور جانچنے کے لیے)، فارنزک میڈیسن ڈیپارٹمنٹ (ہڈیوں اور جلد کی باقیات کا معائنہ کرنے کے لیے)، انسٹیٹیوٹ آف ہیومن پیلونٹولوجی (مٹی کے ذرات کی باقیات کا معائنہ کرنے کے لیے) اور پاسچر انسٹیٹیوٹ فار مائیکرو بائیولوجیکل انیلسز اورکیلیس اینڈ گرینوبل کی اٹامک انرجی فاؤنڈیشن (گاما شعاعوں سے ممی کی بحالی کرنا)، میوزیم آف مین، لوور میوزیم میں مصری نوادرات کے محکمے سمیت دیگر ادارے شامل تھے۔
سائنسی ٹیم کے اس جامع پروگرام میں ممی کے باہر اور اندر سے نمونے لینا، ریڑھ کی ہڈی، بالوں، اور چھاتی اور پیٹ کا معائنہ کرنا، باقیات کی جانچ کرنا، دراڑوں کی بحالی سمیت دیگر کام شامل تھے۔ اسی طرح پھپھوندی کے خاتمے کے لیے اس ممی کو تابکار شعاعوں سے گزارنا بھی اس پروگرام کا حصہ تھا۔
Getty Images
ٹیم نے روایتی ایکس ریز، ریڈیو گرافی، کرومو ڈینسٹی امیجنگ اور اینڈوسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے فرعون رعمسیس دوم کی لاش کے تمام اندرونی اور بیرونی حصوں کا معائنہ کیا جس کے لیے ممی کے جسم کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
سائنسدانوں نے لاش پر بیکٹیریا اور پھپھوندی کے حوالے سے بھی تحقیق کی اور اس پر موجود پودوں کی باقیات کے نمونے بھی لیے جن کا تعلق فرعون کے دور سے بنتا ہے۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کے قدیم ترین پودوں کے نمونے ہیں۔ سائنسدانوں نےپولن، لکڑی، اناج، رال مواد، اور ریت کے ذرات کے نمونے بھی لیے۔ یہ تمام سائنسی تحقیق آٹھ سال بعد 1985 میں ’لا ممی دی رمسیس دوم (دی ممی آف رعمسیس دوم )‘ میں شائع ہوئی۔
رعمسیس دوم کے آخری ایام اذیت میں گزرےGetty Images
رعمسیس دوم فرعون کی ٹانگوں اور ایڑھیوں کے درمیان اور دائیں کندھے کے کچھ حصوں پر مائیکولوجیکل تحقیقات سے معلوم ہوا کہدیر البحاری میں ممی کی دریافت سے قبل وہاں درجہ حرارت اور نمی میں تبدیلی کی وجہ سے کچھ بیکٹیریا پیدا ہو گئے تھے۔
یاد رہے رعمسیس دوم کی ممی اس چیمبر سے ملی تھی جسے سنہ 1881 میں فرانسیسی سائنس دان گیسٹن ماسپیرو نے دریافت کیا تھا اور یکم جون 1886 کو اس ممی کو باقاعدہ طور پر ان تہوں سے نکالا گیا جس میں یہ لپٹی ہوئی ملی تھی۔
سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں اس کے اوپری اور نچلے جبڑوں کی ہڈیوں میں کٹاؤ اور پیپ جمع ہونے کے نتیجے میں دانتوں کے نچلے حصوں میں خالی جگہیں بھی بنی نظر آئیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ بادشاہ (یعنی فرعون رعمسیس دوم ) کی ریڑھ کی ہڈی کے اوپری حصے میں سوزش کے علاوہ کہنی، ران اور ٹانگوں کی شریانیں سکلیروسیس کا شکار تھیں، کولہوں کی ہڈیاں مکمل ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور سر کے بال بھی جھڑ چکے تھے۔
فرعون بادشاہ سکلیروسیس کی بیماری میں مبتلا تھے جس کے باعث ان کی زندگی کے آخری برس اذیت میں گزرے۔
نوبلکورٹ کی تحقیق کے مطابق یہ سب علامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بادشاہ کی صحت بہت زیادہ بگڑ گئی تھی اور وہ اپنی موت سے 20 سال پہلے ریمیٹائڈ آرتھرائٹس میں مبتلا ہو چکے تھے۔
نئی معلومات سے کیا سامنے آیاGetty Images
فرانسیسی سائنسدان نوبلکورٹ نے کتاب ’دی ممی آف رعمیسس دوم‘ میں ’مصریات میں کیا اضافہ ہوا‘ کے عنوان سے ایک باب لکھا جس میں بادشاہ کی ممی کی جانچ کے تمام سائنسی نتائج کو شامل کرنے کے علاوہ اس میں نیا اضافہ کیا گیا تھا۔قدیم مصر کی تاریخ کے مطالعے کی سائنس کو روایتی طور پر ’مصریات‘ کہا جاتا ہے۔
نوبلکورٹ کی پہلی تحقیق اور بعد میں شائع ہونے والی تحقیق ’رمیسس دوم: دا ٹرو سٹوری‘ میں بھی انھوں نے لکھا کہ ’ممی بنانے کے عمل کے دوران بادشاہ کی پسلیوں والے حصے کو بہت زیادہ مقدار میں جراثیم کش مواد سے بھر دیا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اس عمل میں نکوٹین کے پتوں کو باریک کاٹ کر استعمال کیا۔
نوبلکورٹ نے مزید لکھا ’یہ دیکھ کر ڈاکٹروں کی ٹیم کافی حیران ہوئی کیونکہ اس قوت تک مصر میں اس پودے (نیکوٹیانا) کا کسی کو پتا نہیں چلا تھا۔ اس کے علاوہ سینے والے حصے سے چیمومائل فیملی کے ایک پودے کے پولن گرین بھی ملے۔‘
حسن بن صباح کی جنت، فسانہ یا حقیقت؟7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفر’علوی‘: وہ فرقہ جس نے اقلیت میں ہوتے ہوئے شام پر 50 برس تک حکمرانی کیختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟
جن کپڑوں میں بادشاہ کی ممی کو لپیٹا گیا تھا اس کے نمونوں کی جانچ بھی کی گئی۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے اس کا تجزیہ کیا گیا تاکہ ان کی تاریخ کا تعین کیا جا سکے۔
پہلی پرت 1370 قبل مسیح کی نشاندہی کرتی ہے اور دوسری تہہ 1100 قبل مسیح کی نشاندہی کرتی ہے۔
اکیسویں خاندان کے اقتدار میں جب اسے دوبارہ دفن کیا گیا تو اس سے قبل اسے اصل حالت میں واپس لایا گیا تھا۔
اس کی تہوں کے رنگوں کا خوردبین کے ذریعے معائنہ کیا گیا جس میں ایک پیلی رنگت کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ سائنسدان اس کی نوعیت کے بارے میں تعین کرنے سے قاصر رہے۔
حالانکہ خیال کیا جاتا ہے کہ شاید اس کی وجہ مہندی کا پودا ہو۔
ان رنگوں کی ایکسرے امیجنگ میںبادشاہ کی ناک کے اندر کالی مرچ کے دانے کی موجودگی ظاہر ہوئی اور ناک کی ڈسک کو کسی سخت مادے سے بند کر دیا گیا ہے۔
قدیم مصر کا عظیم ترین بادشاہ جس نے سرزمینِ مصر پر ہر جگہ اپنے لیے ایک یادگار بنوائیGetty Images
فرعون بادشاہ رعمسیس دوم کو قدیم مصر کا سب سے بڑا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قدیم تاریخ میں وہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے 67 سال کے طویل عرصے تک حکومت کی۔
ان کے بچوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے (تقریباً 52 لڑکے اور 32 لڑکیاں) اور مصر کی مشہور ملکہ نیفرتاری کے شوہر تھے۔
رمیسس دوم نے انسانی ہاتھوں سے بنایا جانے والا سب سے بڑا مجسمہ بنوایا (اس کا وزن تقریباً ایک ہزار ٹن ہے) جو زلزے میں گرنے کے باوجود آج بھی اپنے مقام یعنی رمیسیم مندر میں موجود ہے۔
رمسیس دوم کے دور میں ممی بنانے کی تکنیک کے لحاظ سے سب سے اہم ممیاں بنائیں گئیں۔
اس کے علاوہ یہ فرعون چٹان میں تراشے گئے سب سے بڑے مندر (ابو سمبل) کے مالک تھے اور انھوں نے نوبه میں سب سے زیادہ مندر تعمیر کیے۔
مصر کے کرناک مندر میں ان کا ہائپو سٹائل میں بنا ہوا ہال موجود ہے جو رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔
فرعون رمیسس دوم واحد مصری بادشاہ ہیں جس نے مصر کی سرزمین پر ہر جگہ اپنے لیے ایک یادگار بنوائی اور جس نے قدیم دور کی سب سے مشہور لڑائیاں لڑی ہیں۔
رمیسس دوم تاریخکے وہ پہلے بادشاہ تھے جس نے سب سے مشہور اور پہلا امن معاہدہ کیا۔
Getty Images
فرعون ریمسیس دوم نے اپنے والد، کنگ سیٹی اول کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔
ابیڈوس میں ان کے والد کے مندر میں ایک متن میں لکھا گیا ہے کہ سیٹی اول نے اپنے بیٹے رامسیس دوم کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کی۔
رمیسس دوم نے ملک کے دارالحکومت کو ڈیلٹا کے شمال مشرق میں ایک قصبے میں منتقل کیا جسے اس نے ’پائی رامیسس‘ کا نام دیا (جس کا مطلب ہے رمیسس کا گھر)۔
تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ رمیسس دوم نے اسے آوارس کے دارالحکومت ہائکسوس کے کھنڈرات پر قائم کیا تھا جو تینس شہر (اکیسویں خاندان کا دارالحکومت) سے 12 میل دور تھا۔
تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ تنیس کا شہر ’پائی رامسیس‘ کے کھنڈرات پر بنایا گیا تھا اور آج یہ شہر مصری ڈیلٹا کے شمال مشرق میں سان الہیگر ہے۔
اس مفروضے کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اس شہر سے آثار قدیمہ کی بے شمار باقیات ملی ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق رمسیس دوم کے دور سے ہے۔
اپنے دور حکومت کے دوسرے سال تک اور ہٹیوں کا مقابلہ کرنے سے پہلے، رمیسس دوم کوقزاقوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا اور سمندر میں لڑی جانے والی جنگ میں انھیں شکست دینے کے بعد بادشاہ نے انھیں اپنی فوج میں شامل کیا۔
بڑی فوجی لڑائیاں رامسیس کے دورِ حکومت کے چوتھے سال میں اس وقت تک شروع نہیں ہوئیں جب اس نے شام کے خلاف اپنی فوجی مہم شروع نہیں کر دی۔
Getty Images
فرانسیسی سکالر نکولس گریمل نے اپنی کتاب ’قدیم مصر کی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ فوجی مہم مصریوں کو قنطارا سے کنعان اور صور کی سرزمین تک لے گئی، پھر بائیبلوس اور اس کے بعد وہ مشرق میں عمورو کی سرزمین میں جا گھسے۔ جہاں پہنچ کر انھوں نے شہزادے پینشینا کو حیرت زدہ کر دیا۔
یہ شہزادہ ہیٹیوں (قزاقوں) کا اتحادی تھا مگر اس نے مصریوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔۔۔ جس کے بعد یہ فوجیں فونیشیا کے راستے مصر واپس آئیں۔
امرو کی سلطنت کا مصر کے ساتھ الحاق ان وجوہات میں سے ایک تھا جس نے ہیٹی بادشاہ ’موتالی‘ کو ایشیا میں مصری اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے ایک بڑی فوجتیار کرنے پر مجبور کیا۔
رامسیس دوم نے بھی اپنی حکومت کے پانچویں سال میں ہیٹی بادشاہ سے لڑنے کے لیے اپنی فوج تیار کی۔
یہ قادیش کی مشہور جنگ تھی جسے رامسیس دوم نے اپنے عہد میں بنائے گئے بیشتر مندروں کے اگلے حصے اور دیواروں پر نقش و نگار کی صورت میں ریکارڈ کرنے کا حکم دیا۔
ان مندروں میں لکسر، کرناک، ایبیڈوس اور ابو سمبل کے مندر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ فرعون رمسیس دوم کا تابوت لکسر کے مغربی کنارے پر واقع جس مندر میں رکھا گیا تھا اس کی دیوراوں پر بھی یہ متن موجود ہے۔ اس مندر کو رمیسیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
Getty Images
قدیم مصری تحریروں کے مطابق ہیٹی بادشاہ نے رعمسیس دوم کو ایک خط بھیجا جس میں اس سے کہا گیا کہ وہ اپنی شکست کے بعد اپنی رعایا کو معاف کر دے۔
ہیٹی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک مختلف کہانی ملتی ہے جس میں مصریوں کی شکست کی بات کی گئی ہے۔۔
تاہم مصری اور ہیٹی دونوں متن کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں میں سے کسی نے بھی فیصلہ کن فتح حاصل نہیں کی اور یہ کہ دونوں ممالک کی سرحدیں تبدیل نہیں ہوئیں۔
اس سب کے باوجود قادیش کی جنگ ان وجوہات میں سے ایک تھی جس نے رامسیس دوم کو ایشیا میں اپنی سلطنت بحال کرنے پر اُکسایا۔ اپنے اقتدار کے آٹھویں سال میں اس نے فلسطین اور شام کے لیے ایک فوجی مہم شروع کی اور وہاں انقلاب کو دبایا اور ملک میں استحکام بحال کیا۔
تاہم مصریوں اور ہٹیوں کے درمیان کشیدگی جاری رہی، مگر بلاخر دونوں فریقین کو احساس ہوا کہ امن ان کے لیے بہترین راستہ ہے۔
چنانچہ انھوں نے رعمسیس دوم کے دور حکومت کے 21 ویں سال یعنی 1280 قبل مسیح میں تاریخ کا پہلا امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے نے دونوں کے مابین ’سلامتی، بھائی چارے اور امن‘ کو قائم رکھا۔
شاید اس معاہدے کی دفعات میں سب سے نمایاں رامسیس دوم اور ہیٹی بادشاہ ہٹوسالی سوم کے درمیان ایک ’جارحانہ طرز پر‘ قائم کیا گیا دفاعی اتحاد تھا۔
اس معاہدے نے رمسیس دوم کی سفارتی تعلقات کے لیے شادی کی خواہش بھی پوری کی۔ اور اس نے ہیٹی بادشاہ کی بیٹی سے شادی کی اور رعمیس دوم نے اس شادی کو کرناک اور ابو سمبل کی عبادت گاہوں کی دیواروں پر رجسٹر کرنے کا حکم دیا۔
ہم نوبیا میں واقع وادی السبوہ کی عبادت گاہ میں موجود تصاویر سے جانتے ہیں کہ بادشاہ رعمیسس دوم کثیر اولاد تھا اور یہ اس کی بیویوں اور لونڈیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
ان کے بچوں میں بظاہر سب سے مشہور شہزادہ خائموست تھے، جو نوادرات کی بحالی میں دلچسپی رکھتے تھے اور دیوتا تاہ کے پجاری تھے اور شہزادہ مرنیپٹاہ، جنھوں نے اپنے والد کے بعد اقتدار سنبھالا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ خروج کے دور کے فرعون تھے، جس کی بنیاد مصر کی مشرقی سرحدوں کے باہر تادیبی فوجی مہمات کے واقعات والی تختیاں ہیں جنھیں کچھ محققین نے اس واقعے سے جوڑا ہے لیکن یہ کہانی غیر مصدقہ ہے۔
Getty Imagesکیا رعمسیس دوم خروج کے دور کے فرعون تھے؟
مصر کی قدیم تاریخ کے ماہرین کی اس معاملے پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض نے بغیر کسی آثار قدیمہ کے دور کی دستایزات یا ثبوتوں کے ہی یہ یقین کر لیا کہ ’خروج‘ کا واقعہ، جس کا ذکر انجیل اور قرآن میں بھی ہے وہ ’ہائکسوس‘ کے دور میں ہوا۔
ایک اور رائے سامنے آئی ہے کہ یہ قدیم مصر کی تاریخ میں حکمران فرعون خاندان کی اٹھارویں سلطنت یعنی بادشاہ تحوتمس سوم کے دور میں ہوا۔ کچھ اور ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ بادشاہ امنحتب دوم کے دور میں پیش آیا تھا۔
ماہرین کا اور ایک چوتھا گروہ ہے جو یہ مانتا ہے کہ یہ بادشاہ امنحتب دور کا واقعہ ہے۔
کچھ مؤرخین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’خروج‘ کا واقعہ بادشاہ امنحتب چہارم کی موت کے بعد پیش آیا۔ تاہم اس سلسلے میں سب سے زیادہ جس رائے پر اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ’خروج‘ کا واقعہ غالباً رعمسیس دوم کے دور حکومت میں پیش آیا تھا۔ اسی رائے کو دنیا بھر کے سنیماؤں پر چلنے والے ڈراموں اور فلموں میں بھی اس رائے کو ہی جگہ دی گئی ہے جس کی واضح مثال فلم ’دی ٹین کمانڈز‘ ہے۔
نوبلکورٹ، این میری لوئرٹ، کلیئر لالویٹ، فيرمان سمیت بہت سے سکالرز نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ بادشاہ رعمسیس دوم وہی تھے جس کا حضرت موسیٰ کے زمانے میں خروج ہوا تھا۔
یہ رائے نوبلکورٹ کی تھی، جنھوں نے اپنے مطالعے ’رعمسیس دی گریٹ‘ کے عنوان سے اس کا ذکر کیا۔ اس مطالعے میں دیگر فرانسیسی سکالرز نے بھی حصہ لیا۔ ان کے مطابق خروج کا واقعہ رعمسیس دوم کے دورِ حکومت کے دسویں اور اٹھارہویں سال کے درمیان کے عرصے میں پیش آیا۔
تاہم نوبلکورٹ یہ بات مانتی ہیں کہ ان کی اس رائے کی بنیاد کسی ٹھوس ثبوت یا تاریخی شواہد پر مبنی نہیں ہے۔ آئیں اب اس رائے کی حمایت اور مخالفت میں نمایاں ترین نکات پر نظر دوڑاتے ہیں۔
نوبلکورٹ نے اپنے مطالعہ میں کہا کہ ’خروج کے واقعے کی مدت دسویں اور اٹھارہویں سال کے درمیان والی ہے۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ اس رائے کے حق میں کوئی مصری تاریخ سے ایسی دستاویز یا ثبوت دستیاب نہیں ہے۔ ان کے مطابق اگر ہم اس مسئلے کو بیان کرنے کی بات کریں تو کچھ ایسی تفصیلات ہیں جو بتائی نہیں جا سکتیں۔ ان کے مطابق موسیٰ نام کا مطلب ہے کہ ’نوزائیدہ‘ جو کہ یقیناً ایک مصری نام ہے اور یہ نام رعمسیس کے دوسرے اور تیسرے حرف سے ملتا جلتا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’وہاں غیر ملکی، سامی اور عبرانی تھے، جنھوں نے مصر کے سرحدی علاقوں میں خود کو الگ تھلگ کر لیا تھا۔ ان پڑھے لکھے طبقات نے ’الفیوم‘ اور ’می ور‘ کے علاقوں میں رہائش اختیار کر لی۔ عبرانی قدیم مشرق میں پھیلے ہوئے تھے اور پھر مصر میں آباد ہو گئے تھے۔ انھوں نے خود کو شاسو کے فسادی بدوؤں سے الگ کر لیا تھا۔ وہ انگور کی کاشت اور گارے والی اینٹیں بنانے کا کام کرتے تھے۔
ہمیں رعمسیس دور کے ایک خط سے بھی کچھ معلوم ہوتا ہے۔ رعمسیس نام متعدد بادشاہوں کے نام کا حصہ ہوتا تھا۔
فرانسیسی سکالر این میری لوئرٹ نے بھی نوبلکورٹ کی شائع ہونے والی تحقیق میں خروج سے متعلق بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’خروج‘ تیرہویں صدی قبل مسیح میں ہوا۔ ان کے مطابق ’موسیٰ کو فرعون سے خصوصی تحفظ حاصل تھا، اور بادشاہ ’حور محب‘ ایشیائی شہریوں کے مسائلکے حل میں مگن تھا۔ جب حضرت موسیٰ نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تو پھر وہ اپنے قبیلے میں واپس آ گئے۔‘
اس عرصے کے دوران بادشاہ سيتی اول نے قنطیر (یا قنتیر) میں قلعوں کی ایک قطار تعمیر کروائی۔ رعمسیس دوم نے قنطیر کو اپنا دارالحکومت بنا لیا تھا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ وہ اپنے قبیلے کے ساتھ تین دن تک صحرا میں چل کر قربانی کرے۔ فرعون نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی جس سے پھر تنازعے نے جنم لیا۔ حضرت موسیٰ کی اس درخواست کا معاملہ رعمسیس دوم کی بادشاہت کے پانچویں سال کا ہے۔ اس واقعے کو پہلی کادیش مہم سے پکارا جاتا ہے۔ اس دور کے آٹھویں برس ایک دوسری مہم شروع ہوئی۔ ان کے مطابق اس دور میں پھر مشرقی سرحد کے قریب کئی مقامات پر بغاوت ہو گئی۔
این میری لوئرٹ نے مجوزہ خارجی راستے کا تفصیلی نقشہ بھی کھینچا اور کہا کہ ’موسیٰ مصر سے نکلے اور قلعہ بندی والا رستے کا انتخاب نہیں کیا، وہ صحرا سے واقف تھے، اس لیے وہ وادی التمیلات سے خلیج کے جنوب کی طرف ایک رستے پر چل پڑے جہاں کوئی قلعے نہیں تھے۔
اس بیابان رستے میں بحیرہ احمر کے پاس کلیسما کے مقام پر ان کا سامنا مصری فوج سے ہوا۔ مصر چھوڑنے کے بعد حضرت موسیٰ اپنی عبرانی قوم کو وادی سینا میں لے گئے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عظیم فرعون (رعمسس دوم) کی حکومت کے دوران، نئی سلطنتیں نقشے پر ابھریں۔۔ آدوم (سعیر)، مواب، اس وقت جب مصری بادشاہ حيثيون کے مسئلے سے نمٹنے میں مشغول تھے۔ ان ریاستوں کی طرف سے نئے خطرے کو بھانپتے ہوئے رعمسیس دوم نے ان نئی ریاستوں پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔
یہ رعمسیس دوم کے دور حکومت کے دسویں اور اٹھارہویں سال کے درمیان یہ واقعات پیش آئے۔
فرانسیسی نکولس گریمل نے اپنے پہلے ذکر کیے گئے مطالعے میں کہا کہ ’یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ عبرانیوں نے رعمسیس دوم کے دور میں مصر چھوڑا تھا اور ہم نے اس گروپ (العابيرو) کے بارے میں پہلے مصری دستاویزات میں بات کی تھی۔
قدیم مصری تاریخ کا ایک مسئلہ
معروف مصری سکالر رمضان عبدو علی، جو منیا یونیورسٹی میں قدیم مصری علوم کے پروفیسر ہیں، نے اپنے سائنسی مطالعہ قدیم مصر کی تاریخ سے ثبوت سے متعلق شائع کیا ہے۔
اس مطالعے میں آثار قدیمہ کے شواہد اور ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے نوبلکورٹ، این میری لوئرٹ سمیت دیگر ماہرین کی آرا کی نفی کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آثار قدیمہ کا ایک بھی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے جس سے کہیں سے بھی یہ ثابت ہو سکے کہ ’یہ بادشاہ، رعمسیس دوم وہی والے فرعون ہیں جن کا حضرت موسی کے دور میں خروج ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ مصر کے اس حکمران خاندان کی انیسویں سلطنت میں تو جگہ جگہ مہمات کا ذکر ملتا ہے، یعنی جہاں بھی مصر کی پالیسی کے خلاف کچھ بھی کیا جاتا تو مصر کی طرف سے فوج کشی کی جاتی۔ ان کے مطابق اب تک دستیاب شواہد میں خروج کے ایسے واقعے کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی بادشاہ رعمسیس دوم کے بارے میں کچھ پتا چلتا ہے کہ وہ حضرت موسی کے ہمعصر تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’خروج اور اس کے بعد ہونے والے واقعات رعمسیس دوم کے دور حکومت کے دسویں اور اٹھارویں سال کے درمیان کیسے پیش آ سکتے ہیں کیونکہ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ رعمسیس دوم پچاسی یا اس سے زیادہ کی عمر تک زندہ رہے (عمر تقریباً 90 سے 100 سال تک رہی) انھوں نے سنہ 1301 سے لے کر تقریباً 1235 قبل مسیح تک مصر پر تقریباً 66 سال حکومت کی۔
رمضان عبدو علی کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب ہے کہ رعمسیس دوم نے اٹھارہویں سال کے بعد مزید 48 سال حکومت کی جبکہ مانيتون کے بیانات کے مطابق بادشاہ رعمسیس دوم کی حکومت 66 سال اور دو ماہ تک قائم رہی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ نوبلکورٹ نے ذکر کیا ہے کہ رعمسیس دوم نے ٹھیک 66 سال اور دس مہینے حکومت کی اور رعمسیس چہارم کے دور کی ایک پینٹنگ، جو ابيدوس میں پائی گئی تھی اور اس کی حکومت کے چوتھے سال کی تھی، ہمیں بتاتی ہے کہ بعد میں بادشاہ اورسرماعت ستب ان رع (شاہ رعمسیس دوم کے تخت نام، جس کا مطلب ہے ’رع کی طرف سے منتخب کردہ ایک عظیم معبود (دیوتا) جو ساٹھ برس تک حکمرانی کرے گا۔
رمضان عبدو علی بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ ’قدیم مصر کی تاریخ میں اس وقت تک ایک مسئلہ رہے گا جب تک کہ آثار قدیمہ کے شواہد سامنے نہ آئیں جو ہمیں خروج والے فرعون کی شخصیت کے بارے میں بتا سکیں۔
معروف مصری ماہر آثار قدیمہ، مصر میں آثار قدیمہ کے سابق وزیر زاهی حواس نے بھی ایک سے زیادہ ٹیلی ویژن انٹرویوز میں بار بار اس بات پر زور دیا کہ فرعون کی طرف سے مقدس کتابوں میں بیان کردہ خروج کے واقعے کو بادشاہ رعمسیس دوم سے جوڑنے والا خیال ہالی وڈ کی فلموں سے فروغ پایا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب ہالی وڈ نے حضرت موسیٰ کے اس قصے کے بارے میں بہت بڑی فلمیں بنائیں تو اس نے بادشاہ رعمسیس دوم سے زیادہ مشہور کسی کو نہیں پایا جسے حضرت موسی کے دور کا فرعون ظاہر کیا جا سکے۔ تاہم اس کا کوئی آثار قدیمہ کا ثبوت ابھی تک موجود نہیں ہے۔
معروف فرانسیسی سکالر کلیئر لالوئٹ کا خیال ہے کہ قدیم مصری تحریروں میں خروج کے واقعے کا ذکر اس وجہ سے بھی نہیں کیا گیا کہ یہ مصر جیسی سلطنت کے لیے اتنی اہمیت کی حامل نہیں تھا۔ ان کی رائے میں یہ مصر کی سلطنت میں پیش آنے والے بہت سارے واقعات کی طرح ایک چھوٹا سا واقعہ ہی تھا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم اسے رعمسیس دوم یا اس کے بیٹے اور جانشین مرنبتاح کے دور کا واقعہ بھی نہیں قرار دے سکتے حالانکہ ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کو رعمسیس دوم کی حکمرانی کے دور میں پیش آنے والے واقعات میں شامل کیا جانا چاہیے۔‘
قاہرہ یونیورسٹی میں قدیم مصری علوم کے پروفیسر مصری سکالر عبدالحلیم نورالدین نے اپنی تحقیق ’قدیم مصر کی تاریخ اور تہذیب۔۔ شاہی خاندانوں کے آغاز سے نئی بادشاہت کے اختتام تک‘ میں تصدیق کی ہے کہ بادشاہ رعمسیس دوم کا نام مصر سے خروج اور موسیٰ کے واقعہ سے جوڑا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر کچھ لوگوں نے خروج کے واقعہ کو فرعون رعمسیس دوم کے نام سے جوڑ دیا ہے تو یہ معاملہ محض ایک مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جس میں اس کے حامیوں نے اس حقیقت پر بھروسہ کیا کہ رعمسیس دوم تمام اہم واقعات کے مصنف تھے اور کوئی آثار قدیمہ یا واضح ثبوت نہیں ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہو۔ اور اس طرح یہ معاملہ محققین کے درمیان تنازع کا موضوع رہے گا، جب تک کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے آثار قدیمہ کے شواہد سامنے نہ آئیں۔‘
’ریت کے ذرات‘
اپنی تحقیق میں نوبلکورٹ نے ایک ایسی دریافت کے بارے میں بات کی جس نے کچھ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ رعمسیس دوم کی ممی سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مؤرخ اس مفروضے پر یقین کر لیں کہ فرعون کی ممی شمالی مصر میں اس مقام پر حنوط کی گئی، جسے بر-رعمسیس کہا جاتا ہے اور جو رعمسیس دوم کا دارالحکومت تھا۔
ریت کے ذرات جو فرعون کی ممی کے بالوں میں دھنسے ہوئے تھے، نے اب تک اس بارے میں حاصل ہونے والی معلومات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دریائے نیل سے بہت دور کا واقعہ ہے۔
اسکندریہ یونیورسٹی میں قدیم تاریخ اور آثار قدیمہ کے پروفیسر عبدالمنعم عبدل حلیم سید نے اپنی تحقیق میں نوبلکورٹ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بہت اہم حقیقت ہے جو اس وقت واضح ہو گئی جب بادشاہ کی ممی کو 1976 میں بحالی کے لیے پیرس منتقل کیا گیا تھا، جو کہ مشرقی ڈیلٹا کے صحرا کی ریت کی ایک قسم کا وجود ہے۔ فرانسیسی محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کی ابتدائی تحقیق کے دوران جب شہر کے کسی ایک مقام (بر-رعمسیس) پر اس ممی کو حنوط کیا جا رہا تھا تو مشرقی ڈیلٹا کی ریت جسم سے چپک گئی تھی۔
تاہم رمضان عبدو علی نوبلکورٹ اور عبدلمنعم کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ صحرائی اور سمندری ریت کے دانے، جو ابھی تک فرعون کی ممی کے بالوں اور انگلیوں پر چپکے ہوئے تھے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پہلی بار یہاں پر فرعون کی ممی کو حنوط کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ریت کے ذرات کو مصدقہ آثار قدیمہ کے ذرائع کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی محقق جسیٹ تورنک نے اس ممی پر پائے جانے والے ریت کے ذرات سے متعلق اپنی تحقیق میں یہ کہا کہ وہ ذرات بالائی مصر کے شہر لقصر میں پائے جانے والے ریت کے دانوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور کہ یہ ریت اس وقت ممی میں داخل ہوئی جب اسے اس خاندان کی اکیسویں سلطنت میں آمون کے بڑےپادری نے دیر البحاری کے علاقے میں اس ممی کی ایک نئی جگہ پر تدفین کی۔
رمضان عبدو علی ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ’بادشاہ رعمسیس دوم کی ممی شدید پانی کی کمی کا شکار رہی، اور یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی سائنسدانوں کے لیے جدید ترین آلات کے ساتھ ان تجربات اور معائنوں کے باوجود یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل یا ناممکن رہے گا کہ کیا بادشاہ کی موت ڈوب جانے یا سانس رکنے کے نتیجے میں ہوئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ان تجربات اور امتحانات نے ایک واضح حقیقت کو ثابت کیا، جو کہ بادشاہ کے بڑھاپے کی وجہ سے اس کی صحت کی خرابی ہے، اور یہ کہ وہ کسی ایسے ہنگامی حادثے کا شکار نہیں ہوئے، جس سے وہ فوت ہوئے۔‘
انھوں نے کہا کہ جدید دور میں ایکسرے مشینوں کی مرہون منت ہم فرعون کے پٹھوں اور خون کی نالیوں کی باقیات کو دیکھنا ممکن بنا، جو مکمل طور پر بند ہو چکیتھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تمام آرا آثار قدیمہ کے تصدیق شدہ ذرائع یا ان کی تائید کے لیے درکار شواہد پر منحصر نہیں ہیں۔ اور ہمیں ابھی تک مصری نوادرات اور تاریخی ماخذ پر ایک بھی نوشتہ یا دستاویز نہیں ملی ہے جو ان میں سے کسی رائے کی تائید کرتی ہو۔ اس کے برعکس آثار قدیمہ کے مختلف ذرائع اور تحریریں آج تک اس مسئلے پر خاموش ہیں، جو درحقیقت قدیم مصر کی تاریخ میں ایک مسئلہ بن چکا ہے۔‘
’علوی‘: وہ فرقہ جس نے اقلیت میں ہوتے ہوئے شام پر 50 برس تک حکمرانی کیحسن بن صباح کی جنت، فسانہ یا حقیقت؟ختنے کی رسم یہودیوں میں کیوں باقی رہی اور مسیحیوں نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفرعید الاضحیٰ اور قربانی: یہودیت، عیسائیت اور ہندومت جیسے مذاہب میں قربانی کا تصورفرعون رامسیس دوم کے معبد سے ملنے والی حنوط شدہ مینڈھوں کی دو ہزار کھوپڑیاں کیا ایک ’نذرانہ‘ تھیں؟فرعون کے دور کا عبادت خانہ جسے بچایا گیامصر: قدیم عبادت گاہ کی کھدائی میں ’مسکراتے چہرے‘ والا ابوالہول کا چھوٹا مجسمہ دریافتاہرام مصر کے بارے میں وہ دس اہم نکات جو ہمیں مصر کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں