اُدھم سنگھ، جنہوں نے ’جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا بدلہ لینے کے لیے 20 برس انتظار کیا‘

اردو نیوز  |  Dec 26, 2024

یہ اپریل 1919 کے موسمِ بہار کا ایک دن تھا۔ امرتسر کے مشہور جلیانوالہ باغ میں ہزاروں کی تعداد میں شہری بیساکھی کا تہوار منانے کے لیے جمع تھے۔ وہ خوش اور شاداں تھے مگر رولٹ ایکٹ کے خلاف سراپأ احتجاج بھی تھے جس پر آزادی پسند رہنماؤں سیف الدین کچلو اور ستیا پال کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔

یہ وہ دن تھے جب برطانوی راج غیرمنقسم ہندوستان پر اپنا تسلط مضبوطی سے قائم کیے ہوئے تھا اور غدر پارٹی کی تحریک کو شروع ہونے سے قبل ہی کچل دیا گیا تھا جس کا اظہار جلیانوالہ باغ میں دکھائی دیا جب بریگیڈیئر جنرل آر ای ایچ ڈائر کے احکامات پر خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جس نے بربریت کی نئی مثال قائم کی اور ہندوستان کی تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔

اُس وقت ہجوم میں ایک نوجوان بھی موجود تھا جو اس قیامت خیز ماحول میں لاشوں کے درمیان بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔

اُس روز اس نوجوان نے ’بدلہ‘ لینے کا عہد کیا، دنیا کے طاقت ور ترین استعمار کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہنے کا عہد، اور اُس کے ارادوں میں مزاحم ہونے کا عزم… یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ شیر سنگھ تھا جو تاریخ میں اُدھم سنگھ کے نام سے ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا۔

آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر سیف الدین کچلو کا ہو جائے، وہ کانگریس کے سینئر رہنمائوں میں سے ایک تھے اور اُردو کے بے مثل افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کے قریبی عزیز تھے۔

اُس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل او ڈائر تھے جنہوں نے جلیانوالہ باغ میں ہوئے قتلِ عام کی اجازت دی اور یوں ہمیشہ کے لیے کروڑوں ہندوستانیوں کی نفرت کا نشانہ بن گئے۔

کہا جاتا ہے کہ اُدھم سنگھ اُس وقت جلیانوالہ باغ میں موجود نہیں تھے جب نہتے پنجابیوں پر فائرنگ کی گئی۔ پروفیسر ملوندر جیت سنگھ وڑائچ معروف تاریخ دان ہیں۔ انہوں نے غدر پارٹی، بھگت سنگھ سمیت اُس زمانے کی مزاحمتی تاریخ پر خاصا کام کیا ہے اور مصدقہ تاریخی مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’اُدھم سنگھ نے جج جسٹس اٹکنسن سے ٹرائل کے دوران کہا کہ ’جب فائرنگ ہو رہی تھی تو میں مشرقی افریقہ میں تھا اور انڈیا میں نہیں تھا۔‘

ایک اور محقق ڈاکٹر نیوتاج سنگھ اپنی کتاب ’Challenge to Imperial Hegemony‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وہ اس بدقسمت دن بیرونِ ملک تھے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ اُدھم سنگھ سال 1917 سے 1922کے دوران نارتھ ویسٹرن ریلوے سے منسلک تھے اور 1919-20 میں وزیرستان کمپین میں حصہ لینے پر انہیں انڈیا جنرل سروس میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔ ‘

ڈاکٹر نیوتاج سنگھ کے مطابق وہ اس مقدس شہر اس سانحہ عظیم کے کچھ ماہ بعد آئے جس نے اُن پر گہرا اثر ڈالا اور اُن کی زندگی کا رُخ ہی موڑ دیا۔

اُدھم سنگھ اُس وقت جلیانوالہ باغ میں موجود نہیں تھے جب نہتے پنجابیوں پر فائرنگ کی گئی (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)دوسری جانب مصنف بی ایس میگھووالیا کی اُدھم سنگھ پر کتاب میں شامل دیپاچے میں انڈیا کے سابق وزیر دفاع وی کے کرشنا مینن لکھتے ہیں کہ ’سردار اُدھم سنگھ نے اوائل عمری میں قومی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی مگر گاندھی سے اُن کے راستے جلد ہی جدا ہوگئے جس کی بنیادی وجہ سانحہ جلیانوالہ باغ تھا جس نے انہیں بڑی حد تک انفرادی سطح پر استعمار کے خلاف بغاوت پر اُبھارا۔‘

خیال رہے کہ کرشنا مینن اُس ٹیم کا حصہ تھے جس نے لندن میں ٹرائل کے دوران اُدھم سنگھ کا دفاع کیا، وہ مزید لکھتے ہیں کہ اُن (اُدھم سنگھ) کی جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتلِ عام کے دوران وہاں موجودگی اُن کی آنے والی زندگی پر اثرانداز ہوئی۔محقق ڈاکٹر سکندر سنگھ، جنہوں نے اُدھم سنگھ پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا ہے، لکھتے ہیں کہ ’اُدھم سنگھ بھی وہاں (جلیانوالہ باغ میں) موجود تھے اور پانی پلانے کا کام کر رہے تھے۔‘

چناں چہ اس بحث میں جائے بغیر کہ اُدھم سنگھ اُس روز جلیانوالہ باغ میں موجود تھے یا نہیں؟ اس سوال کی کھوج زیادہ اہم ہے کہ لاہور سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے سنام (ضلع سنگرور) کے ایک محنت کش گھر میں پیدا ہونے والے شیر سنگھ کی زندگی میں وہ کیا اُتارچڑھاؤ آئے جنہوں نے اُن میں پنہاں انقلابی فکر کی پرداخت کی اور انہوں نے ’بدلہ‘ لینے کے لیے 20 سال سے زیادہ عرصہ تک صبر کیا۔

یہ عظیم انقلابی آج ہی کے روز 26 دسمبر 1899 کو ایک نچلے متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوا۔ تین برس کے تھے تو والدہ چل بسیں۔ سات آٹھ برس کے تھے جب والد کے ساتھ پیدل امرتسر جا رہے تھے کہ راستے میں والد بیمار ہو گئے اور وفات پا گئے۔ اُس وقت اُن کے ایک عزیز نے انہیں امرتسر کے ایک یتیم خانے میں داخل کروا دیا جہاں انہیں اُدھم سنگھ کا نیا نام ملا۔ ایک بھائی تھا جو جوانی میں ہی چل بسا۔

انہوں نے کچھ عرصہ تو فوج میں ملازمت کی مگر جلد ہی جی اوب گیا تو سال 1919 کے اوائل میں واپس امرتسر چلے آئے اور غدر پارٹی میں شامل ہو گئے جہاں سے اُن کے انقلابی سفر کا آغاز ہوا۔ وہ پنجاب بھر میں انقلابی مواد تقسیم کیا کرتے۔

اس دوران وہ مشرقی افریقہ اور یوگنڈا چلے گئے مگر انقلابیوں سے اُن کے روابط مضبوط ہوتے چلے گئے۔ وہ امریکا میں قیام کے دوران غدر پارٹی کے کارکن کے طور پر نمایاں ہوئے جہاں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت آزاد پارٹی بھی قائم کی اور اپنے تعلقات کو وسعت دی۔اس دوران ہی انہوں نے ایک ہسپانوی خاتون سے شادی کی جس سے اُن کے دو بچے بھی ہوئے۔

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک انگریز خاتون سے بھی شادی کی تھی مگر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ اُس سے ان کی کوئی اولاد ہوئی یا نہیں۔

کرشنا مینن اُس ٹیم کا حصہ تھے جس نے لندن میں ٹرائل کے دوران اُدھم سنگھ کا دفاع کیا (فائل فوٹو: سوارراجیہ)اخبار انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ادھم سنگھ سال 1927 میں اسلحہ رکھنے اور باغیانہ مواد برآمد ہونے پر گرفتار کر کے جیل بھیجے گئے جہاں اُن کی ملاقات بھگت سنگھ سے ہوئی جنہوں نے بعدازاں اُن کی فکری تربیت کی۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’جیل سے رہائی کے بعد اُدھم سنگھ اپنے انقلابی آدرشوں کے ساتھ یورپ کے لیے روانہ ہوئے۔‘

یہ اچانک نہیں ہوا تھا کہ سانحہ جلیانوالہ کے قریباً 21 برس بعد اُدھم سنگھ ایک روز اچانک لندن میں نمودار ہوئے اور انہوں نے مائیکل او ڈائر کو قتل کر ڈالا۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا اس حوالے سے 1930 کی دہائی میں او ڈائر کے قتل سے چار برس قبل انگلینڈ میں برطانوی جاسوسوں کے درمیان ہونے والی خفیہ خط و کتاب کا ذکر کرتا ہے جن کے مطابق اُدھم سنگھ کی نگرانی سال 1936 کے وسط سے کی جا رہی تھی۔

انگلینڈ کی جانب سے افشا کی گئی خفیہ دستاویزات کے مطابق، اُدھم سنگھ میں برطانوی حکام کی دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ میں قیام کے دوران انہوں نے مئی 1936 میں برطانوی حکام سے ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، آسٹریا، ہنگری اور اٹلی جانے کی ’اجازت‘ مانگی۔

خیال رہے کہ 1927 میں اُدھم سنگھ جب گرفتار ہوئے تھے تو پانچ سال تک پابندِ سلاسل رہے تھے، انہوں نے اس دوران اپنا نام اُدے سنگھ رکھا۔ تاہم، انہوں نے لاہور سے 30 مارچ 1930 کو ادھم سنگھ کے نام سے اپنا پاسپورٹ بنوایا تھا۔ چناں چہ دیگر وجوہات کے علاوہ نام کی اس تبدیلی کے باعث بھی اُدھم سنگھ پر برطانوی حکام کے شبہات میں اضافہ ہوا۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ ’برطانوی ریکارڈز کے مطابق، اُدھم نے پولینڈ، لیٹویا اور روس کا دورہ کیا اور 25 جون 1936 کو لندن واپس لوٹ آئے۔ اُن کے اس سفر کے دوران اُن کا آخری پیڑائو لینن گراڈ میں تھا جو اُس وقت کمیونسٹ سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ لینن گراڈ کے اس دورے نے برطانوی حکام کے شبہات میں اضافہ کیا۔‘

اخبار کے مطابق اکتوبر 1937 تک برطانوی خفیہ ایجنٹ بہت حد تک واضح ہو چکے تھے اور انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ سال 1936 سے جس شخص پر نظر رکھ رہے تھے، وہ غدر پارٹی کے کارکن اُدے سنگھ کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ 11 اکتوبر 1937 میں ہونے والی خفیہ خط و کتابت کے مطابق، ’اُدھم سنگھ جن کا حقیقی نام اُدے سنگھ ہے، کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔‘

سانحہ جلیانوالہ کے قریباً 21 برس بعد اُدھم سنگھ ایک روز اچانک لندن میں نمودار ہوئے اور انہوں نے مائیکل او ڈائر کو قتل کر ڈالا (فائل فوٹو: پینٹریسٹ)اخبار کے مطابق فروری 1938 تک برطانوی حکام صرف اُدھم سنگھ پر ہی نظر نہیں رکھ رہے تھے بلکہ سیاسی طور پر اُن تمام متحرک لوگوں پر بھی نظر رکھی جا رہی تھی جن سے وہ ملاقات کرتے تھے۔

اُدھم سنگھ اس نگرانی کے باوجود 13 مارچ 1940 کو لندن کے کاکسٹن ہال تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے جہاں ایک تقریب سے مائیکل او ڈائر نے خطاب کرنا تھا۔ وہ اس تقریب میں اپنی بیوی کے نام پر جاری ہونے والے ٹکٹ پر داخل ہوئے جب کہ انہوں نے کتاب کے صفحات کو ریوالور کے انداز میں کاٹ کر اس میں پستول چھپا رکھی تھی۔

وہ اطمینان کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے اور ایک نشست پر براجمان ہو گئے۔ تقریب اختتام کے قریب تھی اور او ڈائر تقریر کرنے کے لیے سٹیج پر جا رہے تھے کہ اُدھم سنگھ نے گولی چلا دی۔ او ڈائر اس حملے میں جاں بر نہ ہو سکے۔ کچھ دیگر انگریز حکام بھی زخمی ہوئے۔ اُدھم سنگھ کو موقعٔ واردات سے حراست میں لے لیا گیا جب کہ پستول کو بطور ثبوت ضبط کر لیا گیا۔

اُدھم سنگھ کا بدلہ پورا ہو گیا تھا۔ انہوں نے او ڈائر کو مار دیا تھا۔ وہ او ڈائر جو اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے جب جلیانوالہ باغ میں خون کی ہولی کھیلی گئی لیکن کیا وہ انہی او ڈائر کو مارنا چاہتے تھے یا بریگیڈیئر جنرل ڈائر اُن کا ہدف تھے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج برسوں گزر جانے کے باوجود بھی اکثر کیا جاتا ہے  کہ ممکن ہے اُدھم سنگھ جنرل ڈائر کو مارنا چاہتے ہوں مگر نشانہ او ڈائر بن گئے۔

ادھم سنگھ نے 13 مارچ 1940 کو لندن کے کاکسٹن ہال میں جنرل ڈائر کو گولی مار کر قتل کیا (فوٹو: وکی پیڈیا)تاریخ دان ڈاکٹر نیوتاج سنگھ لکھتے ہیں کہ ’غلط شناخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ ڈائر 1927 میں (او ڈائر کے قتل سے 13 برس قبل) وفات پا گئے تھے، یہ ممکن ہی نہیں کہ اُدھم سنگھ اس حقیقت سے آگاہ نہ رہے ہوں۔‘

مصنف گورڈن ہنی کامب کی کتاب ’مرڈرز آف دی بلیک میوزیم‘ کے مطابق اُدھم سنگھ نے ابتدا میں اپنے قتل کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے یہ کیا کیوں کہ مجھے اُس پر غصہ تھا۔ وہ اسی کا مستحق تھا۔ میں کسی سوسائٹی یا تنظیم سے منسلک نہیں ہوں۔ مجھے پروا نہیں ہے۔‘

’مجھے موت کا ڈر نہیں ہے۔ بوڑھے ہونے کا انتظار کرنے کا فائدہ ہی کیا؟ کیا ذیٹ لینڈ مر گیا؟ اسے مرنا تھا۔ میں نے اس پر دو (گولیاں) چلائی تھیں۔ میں نے ایک پبلک ہاؤس (پب) میں ایک سولجر سے ریوالور خریدا تھا۔ میں تین یا چار برس کا تھا جب میرے والدین چل بسے۔ کیا صرف ایک کی ہی موت ہوئی ہے؟ میرا خیال تھا کہ میں زیادہ کی جان لے سکتا تھا۔‘

یوں اُدھم سنگھ نے دشمن کے گھر میں گُھس کر اُن سینکڑوں بے گناہوں کی موت کا بدلہ لیا جنہیں جلیانوالہ باغ میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا۔

یہ معاملہ عدالت میں چلا تو اسے بہت زیادہ توجہ حاصل ہوئی۔

اخبار انڈین ایکسپریس لکھتا ہے کہ ’5 جون 1940 کو اولڈ بیلی میں مرکزی فوجداری عدالت کی جیوری نے اُدھم سنگھ کو مائیکل او ڈائر کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا تو کلرک نے اُدھم سنگھ کی جانب رُخ کیا اور کہا کہ اُن کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ ہے کہ اُن کو قانون کے مطابق موت کی سزا کیوں نہ دی جائے تو اُدھم سنگھ نے کہا کہ ’وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے اپنا چشمہ درست کیا، کاغذات سے پڑھنا شروع کیا، ’میں کہتا ہوں برطانوی استعمار مردہ باد۔ آپ کہتے ہیں کہ انڈیا میں امن نہیں ہے۔ ہم صرف غلام ہیں۔ نام نہاد تہذیب نسلِ انسانی کی تمام خرابیوں کی ذمہ دار ہے۔ آپ کو صرف اور صرف اپنی تاریخ پڑھنی چاہیے۔‘

اُدھم سنگھ کو پنجاب کے دونوں طرف انہیں ایک ایسے ہیرو کا درجہ حاصل ہو چکا ہے (فوٹو: نیوز کلک)حراست کے دوران اُدھم سنگھ نے 42 روز تک بھوک ہڑتال کی جسے ختم کرنے کے لیے انگریز حکام نے ہر جتن کیا اور بالآخر مصنوعی طریقے سے خوراک دی جب کہ انہوں نے دورانِ حراست اپنا نام تبدیل کر کے رام محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا۔ اُن کے نام کے پہلے تین الفاظ برصغیر کے تین بڑے مذاہب ہندو مت، اسلام اور سکھ ازم کی علامت تھے تو آخری لفظ آزاد اُن کی انگریز راج سے آزادی کی خواہش کا مظہر تھا جس کے بارے میں انہوں نے عدالت میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ

’میں پورے 21 سال تک بدلہ لینے کا انتظار کرتا رہا۔ میں خوش ہوں کہ میں نے اپنا کام کیا۔ میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ میں اپنے ملک کے لیے جان دے رہا ہوں۔ میں نے اپنے لوگوں کو برطانوی دورِ اقتدار میں فاقوں سے مرتے دیکھا ہے۔ میں نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ یہ میری ذمہ داری تھی۔‘

اُدھم سنگھ کو 31 جولائی 1940 کو پھانسی دے دی گئی مگر پنجاب کے دونوں طرف انہیں ایک ایسے ہیرو کا درجہ حاصل ہو چکا ہے جن کے ذکر کے بغیر پنجاب ہی کیا، غیرمنقسم ہندوستان کی مزاحمتی تاریخ کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں کیوں کہ وہ صرف ایک قاتل نہیں تھے بلکہ اُن میں ایک انقلابی کی روح رچی بسی تھی، ایک ایسا انقلابی جسے استعمار کی غلامی منظور نہیں تھی اور جو آزادی چاہتا تھا جسے پانے کے لیے اس نے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More