ترکیہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ممانعت کے باوجود مظاہرے میں حصہ لینے پر گذشتہ روز اتوار کو 9 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سات صحافی شامل ہیں۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کی تنظمیوں کا کہنا ہے کہ مظاہرہ دو ترک کرد صحافیوں کی شمالی شام میں ترکی کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے خلاف تھا۔شام میں خدمات انجام دینے والے کرد میڈیا کے دو صحافی 32 سالہ ناظم دشدان اور 29 سالہ جہاں بلکن جمعرات کو تشرین ڈیم کے قریب دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔دجلہ فرات ترک صحافی ایسوسی ایشن نے بتایا ہے جائے حادثہ شام کے شہر حلب سے تقریباً 100 کلومیٹر مشرق میں ہے۔شام کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس اور ترکی و شام کے کرد میڈیا نے تصدیق کی ہے ہلاک ہونے والے دونوں صحافیوں کو ترکیہ کے ڈرون سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ترکی کی میڈیا رائٹس گروپ ایم ایل ایس اے نے بتایا ہے پولیس کی جانب سے ممنوعہ قرار دیے گئے مظاہرے میں شرکت پر 59 افراد کو سنیچر کے روز حراست میں لیا گیا بعدازاں 50 کو رہا کر دیا گیا۔دونوں صحافی جہاں بلکن اور ناظم دشدان شام میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ فوٹو انسٹاگرامایم ایل ایس اے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر بتایا ہے ’مارے جانے والئ صحافیوں ناظم دشدان اور جہاں بلکن کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے7 صحافیوں کو دہشت گردی کی حمایت کے الزام میں باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد ترکیہ نے شمالی شام کے ایک علاقے پر قابض کرد فورسز کے خلاف مسلح گروپوں کی کارروائی کی حمایت کی ہے۔مظاہرے میں شامل 59 افراد کو حراست میں لے کر 50 کو رہا کر دیا گیا۔ فوٹو اے پیترک عہدیدار کے مطابق ترکی کے شام میں تقریباً 18000 فوجی موجود ہیں اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر شمالی شام میں کرد فورسز نے ہتھیار نہ ڈالے تو وہ فوجی آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔