’مرنا آپ کی اور لاش منگوانا حکومت کی ذمہ داری ہے‘

بی بی سی اردو  |  Dec 19, 2024

یہ خبر کئی برس سے سال میں ایک بار ضرور آ جاتی ہے کہ بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے سے جو درجنوں یا سینکڑوں تارکینِ وطن ہلاک ہوئے اُن میں اِتنے پاکستانی ہیں۔ ایسی ہر خبر سُننے کے بعد جو بھی وزیرِ اعظم ہو، اُسکی صدارت میں کابینہ اجلاس ہوتا ہے جو سب سے پہلے مرنے والوں کے لیے فاتحہ خوانی کرنے کے بعد بیرون ملک پاکستانی سفارتی عملے کو متاثرین کی ہر ممکن امداد کا حکم دیتا ہے۔

اس کے بعد یہ اجلاس پولیس اور ایف آئی اے کو اُن کی پیشہ ورانہ نااہلی پر سخت سست سُناتا ہے اور دوسرے ہی سانس میں اِن ’نااہل اداروں‘ کے لیے انسانی سمگلرز کے خلاف فول پروف کریک ڈاؤن کا فرمان جاری کرتا ہے۔

پھر یہ اجلاس پاکستان کو ’بدنام‘ کرنے والے اس قبیحکاروبار کو مزید مضبوط تعزیراتی 'نتھ' ڈالنے کے لیے ایک اور سخت قانونی بل پارلیمنٹ سے منظور کروانے کا عزم ظاہر کرتا ہے۔

محکمہ اطلاعات اور میڈیا کو 221ویں بار نصحیت کرتا ہے کہ وہ عوامی آگہی کی مہم تیز کر دیں کہ باہر جنت نہیں ہے۔ اپنا گھر جیسا بھی ہو اپنا ہوتا ہے، بچوں کو سنبھالیں، انھیں قناعت کے فوائد سمجھائیں اور محنت کر کے اپنی ہی جگہ پر رزقِ حلال کمانے کا درس دیں اور راتوں رات امیر بننے کی منحوس ہوس سے بچائیں۔

ایسے ہر سانحے کے بعدایف آئی اے اپنی تازہ ریڈ بُک لہراتی ہے جس میں انسانی سمگلروں کے نام درج ہوتے ہیں۔ اور یہکہ ہم کتنی جانفشانی سے اس سنگین مسئلےکے گڑھ (بالخصوص وسطی و شمالی پنجاب) میں موجود ناسوروں اور اُن کے گاؤں گاؤں پھیلے چیلے چماٹوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں، گرفتار کر رہے ہیں، پرچے کاٹ کر رہے ہیں، تفتیش تیز کر رہے ہیں۔

اور آخر میں وزیرِ اعظم کو بتایا جاتا ہے کہ جو 174 کیسز گذشتہ برس عدالت میں پیش ہوئے اُن میں سے صرف چار کو اب تکالحمدللہ سزا سنائی جا چکی ہے۔

ایف آئی اے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو موت کے سفر پر روانہ کرنے والے خاندان اُن مشکلات سے اچھے سے واقف ہیں۔ وہ اُن سے پہلے جانے والوں کو لاشوں کی صورت گھر واپسی کا منظر دیکھ چکے ہیں، اگر دیکھا نہیں تو آس پاس والوں سے سُنا ضرور ہو گا۔

یہ متاثرین اس ایجنٹ اور دلال کو بھی جانتے ہیں جو کئی برس سے ورغلانے کا کاروبار کر رہا ہے۔ مگر جب اِن متاثرین سے ایسے کسی سانحے کے بعد اپنے بچے کی موت کے ذمہ دار دلال کے خلاف گواہی دینے کے لیے رابطہ کیا جائے تو اکثر یہ کہہ کر صاف مکر جاتے ہیں کہ ہمیں کسی قانونی چکر میں نہیں پھنسنا۔ بس اللہ کی امانت اللہ نے لے لی۔

اور پھر اُن میں سے بہت سے متاثر خاندان اسی ایجنٹ کی ویسی ہی یقین دہانی پر دوبارہ اعتبار کر کے اپنا اگلا بیٹا موت کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں کہ ہم آپ سے اور پیسے نہیں لیں گے، یا پھر آدھے پیسوں میں آپ کے دوسرے بیٹے کو ڈنکی کروا دیں گے۔

عین ممکن ہے کہ یہی افسر آپ کے کان کے قریب اپنا منہ لا کر کہے ’خان صاحب آپ کو تو سب پتہ ہے۔ یہ انسانی سمگلر اتنی آزادی سے کیسے کام کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں تو چھوٹ کیسے جاتے ہیں۔ یقین کریں اگر ان کی پشت پر کوئی طاقتور سیاسی یا ادارہ جاتی ہاتھ نہ ہو تو ہم پورا نیٹ ورک ایک دن میں اکھاڑ سکتے ہیں۔ مگر یہ اربوں روپے کا دھندہ ہے اور اس حمام میں حمام والے سے لے کر گاہک تک سب ننگے ہیں۔ ہم تو چاکر لوگ ہیں۔ جتنی کاروائی ڈالنے کا اُوپر سے حکم ملتا ہے اتنی ڈال دیتے ہیں۔‘

اور پھر آپ کو اس افسر کی بے چارگی پر بھی ترس آنے لگتا ہے۔

’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘’پاکستان شمالی کوریائی ماڈل اپنا لے تو مسئلہ ہی نپٹ جائے‘’لاش کو عزت دو‘’خدایا آئی ایم ایف کو ہیضہ ہو جائے‘

ایسے ہر سانحے کے بعد یو ٹیوبرز، لائسنس یافتہ نیوز چینلز کے رپورٹر اور بین الاقوامی میڈیا ادارے رُدالی بن کر متاثرہ خاندانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اُن سے پوچھتے ہیں کہ گھر کا سامان اور زیور بیچ کر 25، 30 لاکھ روپے جٹا کے اپنے 13 سالہ لختِ جگر کواجنبی سمگلروں کے ہاتھوں سونپ کر انجان راہوں پر دھکیلنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟

پھر باپ یا بھائی یا چچا اُن میڈیا والوں کوبتاتا ہے کہ بچےکی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے ہیں۔۔۔ پھر وہڈنکی لگا کے کامیابی سے سمندر پار پہنچ کر گھر پیسے بھیجنے والے ممیروں چچیروں کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس کے بعد خود کو معصوم اور انجان ثابت کرتے ہوئے نااہل حکومت کو دو چار گالیاں دیتا ہے۔

Getty Images

یوٹیوبر اور چینلی رپورٹر اسی گھر کے اندر متاثرہ خاندان کو پیچھے بٹھا کر اپنا درد بھرا بھاشن ریکارڈ کرتے ہیں، گھر کی عورتوں کے بین کرتے مناظر ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر ایک دردیلامیوزک رپورٹ میں ڈال کے ریٹنگ کے کنوئیر بیلٹ پر چڑھاکر مطمئن واپس لوٹتے ہیں۔

ویسے بھی جہاں 1950 کی ساڑھے تین کروڑ آبادی 74 برس میں 25 کروڑ سے اوپر ہو چکی ہو، وہاں سے ہر سال اوسطاً ساڑھے آٹھ لاکھ قانونی اور نامعلوم تعداد میں غیر قانونی راستوں سے چند لاکھ لوگ چلے بھی جائیں، اُن میں سے ایک تہائی یا آدھے راستے میں مر کھپ بھی جائیں یا بیچ راہ میں لاپتہ جائیں، لگ بھگ 25 ہزار لوگ خلیجی و غیر خلیجی ریاستوں کی جیلوں میں سالہا سال قید رہیں اور اُن میں سے چند سو کے سر قلم بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔

معیاری تعلیم، مناسب روزگار، جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دینے والا بہتر مستقبل نہ ہونا کوئی سانحہ نہیں۔ اصل سانحہ امید کا دم توڑ جانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی سمگلنگ کا مستقبل تاحدِ نگاہ شاندار ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی راہ سے موت کے منہ میں جائیں، آپ کی لاش بذریعہ پی آئی اے گھر واپس لانا ریاست نے پچھلے بیس برس سے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔

بھلا ہو چوہدری شجاعت حسین آف گجرات کا جو دورِ پرویزی میں اپنی ساڑھے تین ماہ کی وزارتِ عظمی کے دورانکم ازکم یہ ثوابی کام تو کر گئے۔ مگر اب تو خود پی آئی اے وہ لاشہے جسے کوئی دفنانے کو تیار نہیں۔

یونان کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے 13 سالہ محمد عابد: ’کہتا تھا یورپ نہ بھجوایا تو گھر چھوڑ دوں گا‘ڈنکی سے یورپ جانے کا خواب: ’پاکستان میں بھوکے رہ لو، میں بیٹا گنوا بیٹھی ہوں‘ کشمیر کے ایک ہی گاؤں کے 20 سے زیادہ نوجوان یونان کے پانیوں میں ڈوبنے والی کشتی تک کیسے پہنچے؟’اس گیم میں کوئی خطرہ نہیں‘: جب انڈر کوور صحافی نے یورپ کے خواب دکھانے والے پاکستانی ایجنٹ کو بے نقاب کیاسوشل میڈیا پر پاکستانی نوجوانوں کو یورپ کے خواب دکھانے والے ایجنٹ: ’جس دن گیم ہو گی آپ کو کوئٹہ آنا ہو گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More