بنگلہ دیشی سیاست دان کا انڈین ریاستوں پر دعویٰ، ’انڈین لالی پاپ نہیں چوس رہیں ہوں گے‘

اردو نیوز  |  Dec 09, 2024

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے رواں برس اگست میں اقتدار سے بے دخلی اور پھر انڈیا میں پناہ لینے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات دن بدن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔  یہاں تک کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے مختلف علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کی ری پبلک بنگلہ ٹی وی نے دعویٰ کیا کہ چٹاگانگ انڈیا کا حصہ تھا۔  اس دعوے کے جواب میں بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سینیئر جوائنٹ سیکریٹری جنرل روح کبیر رضوی نے انڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انڈین ریاست مغربی بنگال، بہار اور اڈیشہ پر دعویٰ کر دیا۔

بنگلہ دیشی سیاستدان کے دعوے پر انڈین ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلٰی ممتا بینرجی کھل کر میدان میں آ گئیں اور انہیں جوابی تنقید کا نشانہ بنایا۔

انڈین میڈیا کے مطابق پیر کو مغربی بنگال کی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ممتا بینرجی نے کہا کہ ’جب بیرونی طاقتیں انڈیا سرزمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گی تو انڈین لالی پاپ نہیں چوس رہیں ہوں گے۔‘

انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ پرسکون رہیں اور بنگلہ دیش کے اشتعال انگیز بیانات پر مشتعل نہ ہوں۔

ممتا بینرجی نے اشتعال انگیز دعوؤں کا تمسخر اڑاتے ہوئے امن اور اتحاد پر زور دیا۔ مغربی بنگال کی وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ مغربی بنگال کے اماموں نے بھی ان بیانات اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔

ڈھاکہ ٹریبیئون کے مطابق چند روز قبل جمعے کو انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کی ایک تقریب سے خطاب میں بی این پی کے سینیئر رہنما روح کبیر رضوی نے کہا تھا کہ ’آپ نے فرقہ پرستی کو بہانہ بنا کر انڈیا کو تقسیم کیا اور اب آپ ان جمہوری روایات کو بھی تباہ کر رہے ہیں جو انڈیا اپنی آزادی کے بعد سے برقرار رکھے ہوئے ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کہ نیپال، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ اور پاکستان انڈیا کے نفرت انگیز اور بدنیتی پر مبنی رویے کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش بھی آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف آپ کے تکبر اور استحصالی رویہ کی وجہ سے ہے جس کا آپ مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔‘

روح کبیر رضوی نے انڈین چینل کے دعوے پر خبردار کیا کہ ’بنگلہ دیش بنگال، بہار اور اڈیشہ جیسے علاقوں پر بھی ملکیت کا دعویٰ کرے گا، جہاں کبھی مسلم نوابوں کی حکومت تھی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More