سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی اگست میں طلبا کے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد معزولی سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے انڈیا کے سیکریٹری خارجہ پیر کو بنگلہ دیش پہنچے۔حسینہ واجد کو انڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور اب وہ انڈیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں، بنگلہ دیش نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان کو انڈیا سے واپس لانے کی کوشش کرے گا۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے ’انڈین جارحیت‘ کی مذمت کی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ انڈیا کا مقصد ان کی انتظامیہ کو غیر مستحکم کرنا تھا۔انڈین وزارت خارجہ کے سیکریٹری وکرم مصری، حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان پہلی ملاقات کے لیے پیر کو ڈھاکہ پہنچے۔وکرم مصری نے بنگلہ دیشی دارالحکومت میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’انڈیا بنگلہ دیش کے ساتھ ایک مثبت، تعمیری اور باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات کا خواہاں ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ باہمی فائدہ مند تعاون ہمارے دونوں لوگوں کے مفاد میں جاری نہ رکھا جائے۔‘وکرم مصری کو ڈھاکہ میں ڈی فیکٹو وزیر خارجہ توحید حسین اور یونس سے ملاقات کرنی تھی۔انڈیا کا بنگلہ دیش پر الزام ہے کہ وہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی اقلیتی ہندو برادری کو انتقامی حملوں سے مناسب طور پر تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔محمد یونس نے انڈیا پر تشدد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان کی حکومت کے خلاف ’پروپیگنڈا مہم‘ چلانے کا الزام لگایا ہے۔اتوار کو حسینہ واجد نے لندن میں مقیم اپنی عوامی لیگ پارٹی کے سینکڑوں اراکین سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کی اور محمد یونس کی حکومت پر اقلیتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔تقریب میں ان کے حامیوں نے کہا کہ حسینہ واجد بغاوت کے باوجود بنگلہ دیش کی قانونی سربراہ ہیں۔عوامی لیگ کے سینیئر سیکریٹری نعیم الدین ریاض نے کہا کہ ’وہ حکومت کی سربراہ ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)عوامی لیگ کے سینیئر سیکریٹری نعیم الدین ریاض نے کہا کہ ’وہ حکومت کی سربراہ ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہماری بات سنے گی اور وہ بہت جلد بنگلہ دیش میں اپنا عہدہ سنبھال لیں گی۔‘ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے بنگلہ دیش میں انڈیا مخالف مظاہرے کیے جا چکے ہیں۔اتوار کو حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے سینکڑوں کارکنوں نے ڈھاکہ میں انڈیا سفارت خانے کی طرف مارچ کیا لیکن پولیس کی جانب سے ان کا راستہ روکنے کے بعد وہ پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔وہ کچھ دن پہلے ہندو کارکنوں کی طرف سے انڈیا میں بنگلہ دیش کے قونصل خانے پر دھاوا بولنے کی کوشش کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے بعد ڈھاکہ نے باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا اور اپنے دو سفارت کاروں کو واپس بلا لیا۔وکرم مصری نے کہا کہ انہوں نے عبوری حکومت کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں ’ثقافتی، مذہبی اور سفارتی املاک پر افسوسناک حملوں‘ پر تبادلہ خیال کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم تعلقات کو مثبت اور تعمیری سمت میں آگے بڑھانے کے منتظر ہیں۔‘