جنوبی کوریا کے صدر یون سوک ییول ملک میں مارشل لا کے نفاذ پر مواخذے سے بچ گئے ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر یون سوک ییول نے مارشل لا نافذ کرنے کے اقدام پر استعفیٰ دینے کی بجائے معافی مانگ لی تھی تاہم سنیچر کو ان کے مواخذے کی تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے لیے ووٹنگ کے موقعے باہر بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن صدر یون سوک ییول کی حکمراں جماعت کے ارکان نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کر دیا۔منگل کی شب جنوبی کوریا کے صدر نے اس وقت اپنی قوم اور عالمی برادری کو حیران کر دیا تھا جب انہوں نے سویلین حکومت کا خاتمہ کر کے فوجی اہلکاروں کو پارلیمنٹ بھیج دیا تھا۔ لیکن ارکان پارلیمنٹ کی مخالفت کے باعث جلد ہی انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔اس کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس اقدام پر صدر کے مواخذے کی تجویز دی تھی جس کے لیے دو تہائی اکثریت لازم تھی۔ لیکن آج صدر یون سوک ییول کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) نے اس ووٹنگ کا بائیکاٹ کر کے اسے ناکام بنا دیا ہے۔جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کے سپیکر وون شِک نے کہا کہ ’جن ارکان نے مواخذے کے حق میں ووٹ ڈالے، ان کی تعداد مطلوبہ دو تہائی اکثریت تک نہیں پہنچ سکی۔ اس لیے مواخذے کی تحریک کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس وقت دنیا کی نظریں ہمارے ملک پر ہیں لیکن یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ اس قدر نازک قومی مسئلے پر ووٹنگ قریب قریب ہو ہی نہ سکی۔ یہ حکمراں جماعت کی جمہوری عمل میں عدم دلچسپی کی علامت ہے۔‘دوسری جانب حکمران جماعت پی پی پی کا موقف ہے کہ انہوں نے ’شدید تقسیم اور افراتفری سی بچنے کے لیے‘ اس ووٹنگ سے لاتعلقی اختیار کی اور وہ اس بحران کو ‘زیادہ منظم اور ذمہ دارانہ انداز میں حل کریں گے۔‘پولیس کے مطابق سنیچر کو پارلیمنٹ کے باہر ڈیڑھ لاکھ مظاہرین موجود تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)صدر کے مواخذے کی تحریک کی ناکامی نے احتجاج کرنے والے بڑے ہجوم کو مایوس کا شکار کیا ہے۔پولیس کے مطابق سنیچر کو پارلیمنٹ کے باہر ڈیڑھ لاکھ مظاہرین موجود تھے جبکہ احتجاجی مظاہرے کے منتظمین نے شرکاء کی تعداد 10 لاکھ بتائی ہے۔اے ایف پی کے مطابق مواخذے کی تحریک کی ناکامی کے بعد مظاہرے میں شریک کئی افراد رو بھی پڑے۔صدر یون سوک ییول کی پیپلز پاور پارٹی نے اس ووٹنگ کا بائیکاٹ کر کے مواخذے کو ناکام بنا دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)مظاہرے میں شریک ایک 30 سالہ خاتون جو آ گیونگ نے کہا ’گو کہ ہم جو چاہتے تھے، وہ حاصل نہ کر سکے لیکن میں نے حوصلہ ہارا اور نہ ہی میں مایوس ہوں کیونکہ ہم بتدریج اپنا ہدف پا لیں گے۔‘انہوں نے کہا ’میں اپنے ہدف کے حصول کے لیے یہاں آتی رہوں گی۔‘