کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی: ’ایک وقت تھا ہم یہاں بال دھوتے تھے، اب یہ مٹی پاؤں پر لگ جائے تو کئی روز کالک نہیں جاتی‘

بی بی سی اردو  |  Dec 07, 2024

BBC

’جب میں چھوٹا تھا تو اُس وقت یہ مٹی اتنی سفید ہوتی تھی کہ اس سے ہم اپنے بال دھویا کرتے تھے، اور آج اگر یہی مٹی پاؤں پر لگ جائے تو کئی دن تک پاؤں سے کالک نہیں جاتی ہے۔‘

کراچی کے علاقے ریڑھی گوٹھ کے رہائشی نواز علی نے ساحل سمندر پر موجود سیاہ مٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔ نواز پیشے کے لحاظ سے مچھیرے ہیں اور اُن کی عمر 40 سال کے لگ بھگ ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پہلے تک یہاں کا پانی صاف ہوا کرتا تھا اور ہم ساحل کے نزدیک پانیوں سے مچھلی پکڑ کے بازار میں بیچا کرتے تھے۔ مگر گذشتہ چند برسوں سے پورے کراچی کا سیوریج کا پانی اس سمندر میں بہایا جا رہا ہے، (یہاں کی) پوری مٹی کالی ہو گئی ہے۔‘

نواز بتاتے ہیں کہ ’ماضی میں کراچی شہر کے طول و عرض میں بہنے والے برساتی نالوں کے ذریعے پانی اور صاف مٹی سمندر میں داخل ہوتی تھی جس سے ساحل کے قریب موجود جزیرے بڑے ہوتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ وہ جزیرے جن پر ہم کبھی 10 کلومیٹر پیدل چل کر کنارے پر پہنچتے تھے وہ سمندر برد ہو چکے ہیں۔‘

’پہلے پانی بہت صاف تھا اور اگر حادثاتی طور پر کوئی ڈوب جاتا تو اسے باآسانی تلاش کر لیا جاتا تھا مگر اب سیاہی مائل مٹی کی وجہ سے ڈوبنے والوں کی لاشیں کئی کئی روز تک نہیں ملتیں۔ سیوریج کے پانی نے ساحل کے نزدیکی علاقوں میں دلدل کی صورت اختیار کر لی ہے اور اکثر ڈوبنے والے یہاں پھنس جاتے ہیں۔‘

BBC

نواز کے مطابق اس سب کی بڑی وجہ قریب واقع بھینس کالونی سے سمندر میں بہایا جانے والا ہزاروں ٹن فضلہ ہے۔

اُن کے مطابق اِس ساری گندگی کی صورتحال کے باعث پاپلیٹ، کڈی، جھینگا، پھاڑ سمیت دیگر اقسام کی مچھلیاں اب یہاں سے ناپید ہو چکی ہیں۔

مریم بی بی بھی ریڑھی گوٹھ کی رہائشی ہیں۔ ان کو شکوہ ہے کہ ناصرف ساحلی علاقوں سے مچھلیوں کی تعداد کم ہو گئی ہے بلکہ جو مچھلی ملتی بھی ہے اس کا ذائقہ ٹھیک نہیں ہوتا۔

’جو مچھلی ساحل کے نزدیکی پانیوں سےپکڑ کر لاتے ہیں وہ پکانے میں ذائقہ دار نہیں ہوتی، گٹر کے پانی نے مچھلی کا ذائقہ بھی خراب کر دیا ہے۔‘

کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے سنہ 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں روزانہ تقریباً 470 ایم جی ڈی سیوریج پیدا ہوتا ہے جو کہ شہر میں سپلائی کیے جانے والے پانی کا 70 فیصد ہے۔ تاہم یہ اعداد و شمار ناصرف سرکاری ہیں بلکہ نو سال پرانے بھی۔

BBC

ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا میں ہر فرد کو یومیہ اوسطاً 40 گیلن تک پانی درکار ہوتا ہے۔ اور اگر اس اندازے کو سامنے رکھا جائے تو ڈھائی کروڑ کی آبادی کے کراچی شہر کی پانی کی روزانہ ضرورت 1000 ایم جی ڈی ہے اور اگر ان بنیادوں پر تخمینہ لگایا جائے تو کراچی میں پیدا ہونے والے سیوریج کی مقدار 700 ایم جی ڈی کے لگ بھگ بنتی ہے۔

اتنی بڑی مقدار میں خارج ہونے والے سیوریج کو ٹریٹ کرنے کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے تحت تین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم ہیں۔ یعنی ٹی پی 1، ٹی پی 2 اور ٹی پی 3۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اِن تینوں پلانٹس میں سیوریج کو ٹریٹ کرنے کی مجموعی صلاحیت 150 ملین گیلن روزانہ (ایم جی ڈی) ہے تاہم کراچی کے علاقے محمود آباد میں واقع ٹریٹمنٹ پلانٹ، ٹی پی 2، مکمل طور پر بند ہے جبکہ دیگر دوجزوی طور پر چل رہے ہیں۔

اس ضمن میں بی بی سی نے کے ڈبلیو ایس سی کے افسران کو سوالات بھیجے تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

میئر کراچی مرتضی وہاب نے بی بی سی کے روحان احمد کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں تحریری طور پر بتایا کہ ’شہر میں درحقیت چار سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس ہونے چاہییں تھے۔ ٹی پی 2 کے لیے درکار زمین ایم کیو ایم کے دور حکومت میں الاٹ کی گئی تھی جو کہ چائینہ کٹنگ کے ذریعے حاصل کی گئی تھی جبکہ کورنگی کے علاقے میں ٹی پی 4 کبھی تعمیر ہی نہیں ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے ٹی پی 3 کو اب فعال کر دیا ہے جس میں 54 ایم جی ڈی سیوریج کو ٹریٹ کرنے کی صلاحیت ہے اور جون 2025 تک اس صلاحیت کو 100 ایم جی ڈی تک پہنچایا جائے گا۔ ٹی پی ون کو 2025 کے اختتام تک فعال کر دیا جائے گا۔‘

’کراچی کی ساحلی پٹی کہیں ڈھائی تو کہیں پانچ کلومیٹر تک آلودہ ہو چکی ہے‘BBC

پاکستان فشر فولک فورم کے مجید موٹانی بتاتے ہیں کہ کراچی کی کئی کلومیٹر طویل ساحلی پٹی مبارک ولیج سے شروع ہو کر بن قاسم پورٹ پر ختم ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شہر بھر سے بغیر ٹریٹ کیے سیوریج سمندر میں شامل کیے جانے کی وجہ سے کراچی کی ساحلی پٹی کسی جگہ پر ڈھائی اور کسی جگہ پر پانچ کلومیٹر تک آلودہ ہو چکی ہے اور اس صورتحال کے باعث ایسی مچھلیاں جو صاف پانی میں رہنا پسند کرتی ہیں وہ یہاں سے ہجرت کر گئی ہیں۔

مجید موٹانی کے مطابق ماحولیات پر اس کے اثر کے علاوہ ان سب کا معاشی دباؤ ماہی گیروں پر پڑ رہا ہے۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ جو مچھلی یہاں رہبھی گئی ہے اس میں اتنی بُو آتی ہے کہ وہ کھانے کے لائق نہیں ہوتیں اور نہ ہی مارکیٹ میں اس کا دام اچھا لگتا ہے۔

اسی علاقے میں قاسم بھی رہتے ہیں جو کیکڑے کا شکار کرنے والے چھوٹے مچھیروں کو اُن کی کشتیوں کے لیے ڈیزل اور کیکڑے پھنسانے کے لیے مرغی کے پنجے وغیرہ مہیا کرتے ہیں۔ اس کے عوض مچھیرے اپنا شکار انھی کو بیچتے ہیں۔ قاسم کہتے ہیں کہ ساحل پر گندگی کی وجہ سے اب کیکڑےکی تعداد میں بھی کمی آتی جا رہی ہے جس کے باعث اب گزارہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ماہی گیروں کو لکھ پتی بنانے والی کروکر مچھلی میں خاص کیا ہے؟سمندر کی گہرائیوں میں موجود معدنی خزانے کے حصول کی دوڑ جس کے باعث عالمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے’کچرے کی ملکہ‘ جن کے خلاف ملکی تاریخ کا ’سب سے بڑا مقدمہ چلایا جا رہا ہے‘گوادر کی مچھلیوں کے گرد گھومتی معیشت اور ماسی مہاتون کی کہانی

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ سمندر میں پانی ٹریٹ کیے جانے کے بعد ہی چھوڑنا چاہیے جبکہ صنعتوں سے نکلنے والے سیوریج کو الگ سے ٹریٹ کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'کراچی کے دو علاقے ایسے ہیں جہاں کسی قسم کی سمندری حیات نہیں پائی جاتی، ایک کراچی پورٹ کا علاقہ جبکہ دوسرا گزری کریک کا۔'

اُن کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو یہ بےقابو ہو سکتی ہے۔

سیوریج ملے سمندری پانی میں مچھلیوں کا زندہ رہنا کیوں ممکن نہیں؟BBC

ڈاکٹر شہناز راشد میرین بیالوجسٹ ہیں اور وہ کراچی یونیوسٹی کے انسٹییوٹ آف میرین سائنسز سے منسلک ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ کیسے بنا ٹریٹمنٹ کےگٹر کا پانی سمندر میں چھوڑنے کے نتیجے میں کراچی کی ساحلی پٹیوں سے مچھلیاں ناپید ہو رہی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ سیوریج میں نامیاتی مادہ ہوتا ہے اور جب یہ مادہ پانی سے ملتا ہے تو اس عمل کے دوران آکسیجن استعمال ہوتی ہے جس کے باعث سمندر کے اُس حصے میں جہاں سیوریج موجود ہو وہاں آکسیجن کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ ’اس سارے عمل کے نتیجے وہاں ہائپوکسیا یا 'ڈیڈ زون' وجود میں آ جاتا ہے جہاں سمندری حیات زندہ نہیں رہ سکتی۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سیوریج کے پانی میں اکثر زہریلے کیمیکلز اور پیتھوجینز جیسے بیکٹیریا اور وائرس پائے جاتے ہیں جو سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر راشد کہتی ہیں کہ یہ صورتحال صرف سمندری حیات کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانوں اور دیگر جانوروں کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ گائے اور بھینسوں کا فضلہ ایک آرگینک میٹیریل ہے تو اس کے پانی میں شامل ہونے سے سمندری حیاتیاتی نظام کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

جب ہم نے یہی سوال ڈاکٹر راشد کے سامنے رکھا تو اُن کا جواب تھا کہ ’ایسا نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’گائے، بھینسوں کے گوبر اور فضلے کو سمندر میں پھینکنے سے سمندری ماحول میں خلل پڑتا ہے اور آلودگی کی دیگر اقسام کی طرح اس سے سمندری حیات، پانی کے معیار اور ساحلی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘

کیا ہمیں سمندری مچھلی کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے؟BBC

معظم علی خان کہتے ہیں کہ مچھلی کھانے کے افراد کو زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیوںکہ ان کے مطابق پاکستان کے ماہی گیری کے گراؤنڈز کراچی کے آلودہ ساحلی علاقے سے بہت دور ہیں۔

تاہم ان کے مطابق اگر یہی مچھلی کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی کے نزدیکی پانیوں سے پکڑی جاتی ہے تو اس سے کھانے والوں کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کراچی اربن لیب کے محمد توحید کہتے ہیں کہ پاکستان میں گرے واٹر کو دوسرے سیوریج سے الگ رکھنے کا تصور نہیں جس کی وجہ سے شہر میں پیدا ہونے والے سیوریج کی مقدار اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

گرے واٹر اس استعمال شدہ پانی کو کہتے ہیں جس میں زیادہ کمیکلز یا دوسرے مواد شامل نہ ہو جیسے واش بیسن میں منہ دھونے کے بعد سیوریج کا حصہ بننے والا استعمال شدہ پانی۔

ان کے مطابق دنیا بھر میں اس پانی (گرے واٹر) کو باغبانی اور دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سٹیج پر اسپانی کو ٹریٹ کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔

محمد توحد کہتے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں گھریلو سیوریج کو مرکزی سیوریج کے نظام کا حصہ بننے سے پہلے ہی ٹریٹ کر لیا جاتا ہے اس سے نہ صرف سیوریج کی مقدار میں کمی آتی ہے بلکہ اُس کی کیمیکل کمپوزیشن بھی ہمارے ہاں کے سیوریج سے مختلف ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لگ بھگ تین کروڑ کی آبادی کا سیوریج ٹریٹ کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اس بارے میں لوگوں میں آگاہی پھیلا کر شہر میں پیدا ہونے والے سیوریج میں کمی لائی جا سکتی۔

کراچی کی سیوریج کی صورتحال اس نہج پر کیسے پہنچی، اس بارے میں محمد توحید کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ جب شہر میں گٹر اور برساتی نالے الگ ہوا کرتے تھے، مسئلہ تب شروع ہوا جب برساتی نالوں میں سیوریج کا پانی شامل کر دیا گیا اور یہ سیوریج کے نالے بن گئے۔

’خوش قسمتی‘ کی علامت کروڑوں روپے مالیت والی ’سوا‘ مچھلی، جس نے کراچی کے ماہی گیروں کو لکھ پتی بنا دیاگوادر کی مچھلیوں کے گرد گھومتی معیشت اور ماسی مہاتون کی کہانی’کچرے کی ملکہ‘ جن کے خلاف ملکی تاریخ کا ’سب سے بڑا مقدمہ چلایا جا رہا ہے‘ماہی گیروں کو لکھ پتی بنانے والی کروکر مچھلی میں خاص کیا ہے؟سمندر کی گہرائیوں میں موجود معدنی خزانے کے حصول کی دوڑ جس کے باعث عالمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More