جڑانوالہ میں نوبیاہتا دلہن کی ہلاکت: ’دس سالہ بھانجے کے ہاتھ سے گولی چلی اور الزام ٹک ٹاک پر لگا دیا گیا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 05, 2024

جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں چند روز قبل ماحول اس وقت اچانک سوگوار ہو گیا جب وہاں بیاہ کر آنے والی فاطمہ کی شادی کے دو روز بعد ہی ہلاکت کی خبر پھیلی۔

اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فاطمہ نے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے غرض سے پستول اٹھا کر کنپٹی پر رکھا تھا کہ حادثاتی طور پر اسی دوران گولی چلی جو اس کی موت کا سبب بنی۔

ٹک ٹاک پر ویڈیو بناتے ہوئے موت کے منھ میں جانے یا پھر اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے رجحان پر دنیا بھر میں تنقید کی جاتی ہے۔ تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ ضلع فیصل آباد میں پیش آنے والے اس واقعے کی نوعیت کچھ مختلف ہے اور یہ واقعہ اتنا سادہ نہیں جتنا کہ اہلخانہ کی جانب سے بیان کیا گیا ہے۔

فاطمہ کی موت کے وقت کیا ہوا؟

22 سالہ فاطمہ عباس کے چچا اشتیاق احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارے گھر پر تو قیامت ٹوٹ گئی ہے۔ دو دن پہلے ہم نے بچی کو رخصت کیا تو دو دن بعد ہی اس کا جنازہ اٹھایا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقتولہ کہ والدہ، بہن، اس کے بچے اسی کمرے میں تھے۔ اس نے دراز سے پستول نکالی اور ویڈیو بنانے لگ گئی اور اچانک گولی چل گئی۔‘

اس سوال پر کہ پستول کہاں سے آیا، فاطمہ کے چچا کا کہنا تھا کہ ’اس کے شوہر کے دوست کا تھا، شادی پر ہوائی فائرنگ کرنے کے لیے لایا تھا۔‘

اشتیاق احمد نے فاطمہ کی موت کا ذمہ دار سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹک ٹاک اتنی بری چیز ہے اور ہمارے بچے بالکل نہیں سنتے ہیں اور پھر والدین نقصان اٹھاتے ہیں۔‘

اس سوال پر کیا آیا فاطمہ کے گھر والوں نے انھیں کبھی ٹک ٹک بنانے سے روکا تھا ان کا جواب تھا کہ ’جی بہت دفعہ روکا لیکن پھر یہ چھپ کر ویڈیوز بناتی تھی۔ آپ تو جانتی ہیں آج کل کے بچوں کو کہاں سنتے اور مانتے ہیں کسی کی۔‘

تاہم اشتیاق احمد فاطمہ کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کی معلومات فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے کہا ’میں تو موبائل زیادہ استعمال نہیں کرتا اس لیے مجھے اس کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ نہیں معلوم۔‘

Getty Imagesکیا یہ واقعی ہی حادثاتی خودکشی تھی؟

اس معاملے پر معلومات کے حصول کے لیے جب میں نے فیصل آباد پولیس سے رابطہ کیا تو ابتدائی طور پر تو یہی کہا گیا کہ ’ہم نے والد کی مدعیت میں واقعے کی رپورٹ درج کر لی ہے کیونکہ لڑکی کے گھر والوں اور سسرال والوں کا ایک ہی بیان ہے تاہم ہم پھر بھی اس واقعے کی چھان بین کر رہے ہیں۔‘

تاہم ایک روز بعد سی پی او فیصل آباد کامران عادل سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا موقف ابتدائی معلومات سے کہیں مختلف تھا۔ سی پی او کا کہنا تھا کہ ’یہ خودکشی کا معاملہ نہیں ہے۔ اس واقعے میں گولی مقتولہ سے نہیں چلی بلکہ وہ اپنے دس سالہ بھانجے کے ہاتھ سے چلنے والی گولی کا شکار ہوئی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ اپنی نوعیت کا ایسا معاملہ ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا اور ہم نے عوامی احساس تحفظ کے تحت اس کیس کو حل کیا ہے۔ مقتولہ فاطمہ کے والدین، شوہر، سسرال والے سب نے ہی فاطمہ کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر الزام فاطمہ اور ٹک ٹاک پر ڈال دیا۔‘

کامران عادل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے مقدمات جن کی کوئی پیروی کرنے والا نہیں ہوتا ان میں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اور اگر بروقت ثبوتوں اور تفتیش کو صحیح سمت میں رکھا جائے تو اصل ملزم تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔

گھر آئے مہمان کو غلطی سے گولی لگنے پر میزبان کی دل کا دورہ پڑنے سے موتگن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانیمہک بخاری: ٹک ٹاک، بلیک میلنگ اور دوہرے قتل کا قصہکراچی میں وارداتوں کے لیے کرائے پر اسلحہ دینے والے گروہ کیسے کام کرتے ہیں؟پولیس اس کیس کی تہہ تک کیسے پہنچی؟

اس کیس کا معمہ حل کرنے والے ایس پی جڑانوالہ ضیا الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ٹیلی فون پر ہمیں اطلاع ملی کہ ایک لڑکی ٹک ٹاک بناتے ہوئے اپنی ہی گولی کا شکار ہوئی ہے جس کے بعد ہماری ٹیم موقع پر پہنچی۔ جہاں وقوعہ ہوا وہ تقریباً دس مرلہ کا گھر تھا جس کے صحن میں چالیس سے پچاس خواتین بیٹھی تھیں جبکہ گھر کے باہر ساٹھ سے ستر لوگوں کا ہجوم تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب پولیس اہلکار اندر پہنچے تو دیکھا کہ مقتولہ گولی لگنے کی وجہ سے کمرے کے اندر گری ہوئی تھی۔ ’میں نے قریب جا کر دیکھا تو اس کے سر اور کان کے درمیان میں گولی لگی ہوئی تھی۔‘

ضیا الحق کے مطابق ’ہم نے جائے وقوعہ پر موجود لوگوں سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا تو لڑکی کی ماں بولی کہ ہم یہاں آئے ہوئے تھے۔ میں بھی اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی تھی اور میری دوسری بیٹی بھی ساتھ تھی جبکہ فاطمہ ٹک ٹاک بنا رہی تھی پستول کے ساتھ اور اچانگ گولی لگی اور یہ موقع پر ہی فوت ہو گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب وہاں موجود دیگر افراد سے پوچھ گچھ کی گئی تو سب نے والدہ کے موقف کی تائید کی لیکن پولیس کو صورتحال مشکوک لگ رہی تھی۔

انھو نے بتایا کہ موقع پر موجود پولیس ٹیم نے اس واقعے میں استعمال ہونے والے پستول کی تلاش شروع کی تو انھیں وہاں کوئی پستول نہیں ملا۔ ’اس کمرے کی تلاشی لی گئی تو ہمیں وہاں پستول نہیں ملا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ پستول کہاں ہے تو انھوں نے کہا ہمیں نہیں پتا کہ کہاں گیا۔ پھر ہم نے کرائم سین کو اچھی طرح دیکھا تو ہمیں گولی کا خول مل گیا۔‘

ایس پی جڑانوالہ کے مطابق پستول نہ ملنے پر وہاں موجود افراد سے فاطمہ کے موبائل فون کی بابت دریافت کیا گیا تو بتایا گیا کہ وہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ ’ہم نے کہا جس موبائل پر فاطمہ ٹک ٹاک بنا رہی تھی وہ کہاں ہے؟ پہلے تو انھوں نے کہا کہ وہ موبائل نیچے گرا اور ٹوٹ گیا اور اب اس کا پینل کھل نہیں سکتا مگر ہم نے ان سے موبائل لیا تو لگ رہا تھا کہ جیسے کہ پاؤں کے نیچے آ کر ٹوٹا ہو۔‘

ضیا الحق کے مطابق اس پر انھیں زیادہ شک ہوا کیونکہ بقول ان کے ’کرائم سین کو پہلے ہی انھوں نے خراب کرنے کی کوشش کی ہوئی تھی۔ پھر انھوں نے کہا ہم نے لڑکی کا پوسٹ مارٹم نہیں کروانا۔ ہم نے کافی مشکل سے انھیں پوسٹ مارٹمپر منایا۔‘

Getty Images

پولیس افسر کے مطابق اس دوران فارانزک ٹیم نے شواہد بھی جمع کیے اور ’انھیں بھی شک تھا کیونکہ فائر نزدیک سے لگا تھا لیکن اس کا زاویہ ایسا بھی نہیں تھا کہ کہا جا سکے کہ وہ خودکشی ہے۔‘

ایس پی جڑانوالہ کا کہنا تھا کہ جب اہلخانہ سے فاطمہ کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کے بارے میں تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ اس کا ایسا کوئی اکاؤنٹ تھا ہی نہی۔ ’ہم نے پوچھا کہ فاطمہ کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ کیا ہے۔ اس بارے میں ہمیں پتا چلا کہ اس بچی کا تو کوئی اکاؤنٹ ہی نہیں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس دوران اس واقعے کے بارے میں معلومات لینے کے لیے جن اہلکاروں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی ’انھوں نے اگلی صبح خبر دی کہ مقتولہ نہ تو ٹک ٹاک بنا رہی تھی اور نہ ہی وہ اپنی گولی کا شکار ہوئی ہے بلکہ گولی مقتولہ کے دس سالہ بھانجے نے چلائی اور اس کا نتیجہ فاطمہ کی موت کی صورت میں نکلا۔‘

پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ان اطلاعات پر ’ہم نے تفتیش کا دائرہ کار مزید بڑھایا اور الگ الگ سب گھر والوں کے بیانات ریکارڈ کیے جن میں تضاد تھا۔ سب ثبوتوں کے سامنے آنے کے بعد پھر ہم نے جب فیملی سے بات کی وہ کہنے لگے کہ یہ حادثہ ہو گیا تھا، ہم ڈر گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر ہم نے ان سے کہا کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے اس لیے ہم کسی کہانی پر یقین نہیں کر سکتے اور معاملہ قانونی طور پر ثبوتوں نے ساتھ دیکھا جائے گا۔ جس کے بعد ہم نے پولیس کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔‘

پولیس نے اس معاملے میں گولی چلانے والے دس سالہ بچے کو حراست میں لے لیا ہے تاہم ایس پی جڑانوالہ کے مطابق ’ابھی ہم اس معاملے میں مزید تحقیقات کر رہے ہیں کہ کہیں اس بچے کے ساتھ کوئی شامل تو نہیں ہے اور حتمی معلومات کچھ دن تک سامنے آ جائیں گی۔‘

گھر آئے مہمان کو غلطی سے گولی لگنے پر میزبان کی دل کا دورہ پڑنے سے موتگن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانیکراچی میں وارداتوں کے لیے کرائے پر اسلحہ دینے والے گروہ کیسے کام کرتے ہیں؟’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیلنے والا ’ٹک ٹاک کا جنون‘ نوجوانوں کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More