گوتم اڈانی کے خلاف رشوت کے الزامات نے انڈیا کے قابلِ تجدید توانائی کے ڈویلپرز کو اپنی پیداکردہ بجلی کے خریدار کی تلاش میں مسائل کو اُجاگر کیا ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق انڈیا کے اڈانی گروپ کے سربراہ گوتم اڈانی پر امریکہ میں ایک مبینہ سکیم کے تحت سینکڑوں ملین ڈالر رشوت دینے اور اس سکیم کو امریکی سرمایہ کاروں سے چھپانے کے الزامات کا سامنا ہے۔امریکہ میں وفاقی استغاثہ نے گوتم اڈانی پر 25 کروڑ ڈالر کی رشوت دینے اور امریکہ میں رقم چھپانے کا الزام لگایا ہے۔
ان الزامات میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی کمپنی کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر انڈین حکام کو رشوت دی تاکہ ایسے ٹھیکے حاصل کیے جائیں جن سے 20 برسوں میں دو ارب ڈالر کا منافع ہو۔
اڈانی گروپ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی زیرِ ملکیت پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں جو لائٹوں کو روشن رکھنے کی ذمہ دار ہیں، کو قابلِ تجدید خریداری کے معاہدوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔مارچ کے آخر تک سال کے دوران انڈیا کی بجلی کی پیداوار میں شمسی اور ہوا جیسے قابل تجدید ذرائع کے ساتھ کوئلے کا حصہ 75 فیصد تھا تاہم، اس میں پن بجلی شامل نہیں۔ انڈیا میں ایک عرصے سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور کاربن اخراج کو کم کرنے کی جانب حکومت کی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔انڈیا 175 گیگاواٹ قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے میں ابھی بھی 10 فیصد کے فرق کے ساتھ پیچھے ہے۔اسی وجہ سے وفاقی حکومت 2030 تک 500 گیگاواٹ کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے قابلِ تجدید منصوبوں کے لیے بولی لگانے کے عمل میں تیزی لائی ہے۔ مارچ 2028 تک کے پانچ برسوں میں یہ اُن قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کی صلاحیت سے چار گنا زیادہ کے ٹینڈر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو اس نے گذشتہ پانچ برسوں میں شروع کیے تھے۔ ریاستوں کو انڈیا کے مجموعی ہدف کو پورا کرنے میں مدد کے لیے نئی دہلی نے 2022 میں آر پی اوز متعارف کرائے۔ انڈیا 175 گیگاواٹ قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے میں ابھی بھی پیچھے ہے (فوٹو: روئٹرز)مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا کی ریاستیں قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے اضافے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ قابل تجدید ذرائع کے بجائے سپلائی کے لیے فوسل فیول پر انحصار کریں گی۔انڈیا کی سب سے بڑی قابلِ تجدید توانائی کمپنی ’اڈانی گرین‘ کے معاملے میں سخت چیلنجز درپیش تھے جس نے خریداروں کے ساتھ 8 گیگا واٹ شمسی توانائی کی صلاحیت کے لیے سپلائی ڈیل کرنے میں تقریباً ساڑھے تین سال کا وقت لیا۔ توانائی کی صنعت کے مشیر اور انڈیا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز کے ڈین آر سری کانت نے کہا کہ ’جب تک بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی دلچسپی اتنی کم ہے ٹینڈرز کے لیے اہداف مقرر کرنا اور کنٹریکٹ جاری کرنا بےمعنی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’گوتم اڈانی کے خلاف الزامات کے نتیجے میں قابلِ تجدید ذرائع میں مزید سست روی کا امکان ہے۔‘