انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کو دوست قرار دیتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر بنیں گے تو تجارتی تنازعات ان کے خوشگوار تعلقات کا امتحان لیں گے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں نئی دہلی کو ’ٹیرف کنگ‘ اور ’تجارتی بدسلوکی‘ کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔
ٹرمپ نے ان ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کا وعدہ کیا جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس ہے، یہ ایسا اقدام ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت میں صنعتوں کو روک سکتا ہے۔ دہلی میں قائم اننتا ایسپن سنٹر کے تھنک ٹینک کی چیف ایگزیکٹیو اندرانی باغچی نے کہا کہ ’اقتصادی اور صنعتی سرگرمیوں کو امریکہ میں واپس لانے کے لیے ٹرمپ امریکہ کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی دہائیوں سے امریکہ اس خیال میں رہا ہے کہ چیزیں کہیں اور پیدا ہوتی ہیں اور آپ کو وہ سستی مل جاتی ہیں، اگر مینوفیکچرنگ واقعی واپس امریکہ منتقل ہو جاتی ہے، تو اس کا ان ممالک کے لیے کیا مطلب ہوگا جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس ہے؟‘انڈیا 2023-24 مالی سال میں 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی سرپلس کے ساتھ امریکہ کا نواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔مودی کی حکومت نے اپنی ’میک اِن انڈیا‘ مہم کے ذریعے مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی ہے، جس میں نئے کاروباری اداروں کے لیے آسان قوانین اور ٹیکس میں رعایت کی پیشکش کی گئی ہے۔
اس اقدام کی وجہ سے ایپل اور دیگر ٹیک کمپنیاں چین سے باہر انڈیا میں اپنی سپلائی چینز کو متنوع بنانے کی کوشش میں ہیں۔
اور انڈیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنیاں بشمول ٹی سی ایس اور انفوسیز اپنے امریکی ہم منصبوں کو اپنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضروریات کو سستی لیبر فورس تک آؤٹ سورس کرنے کا ذریعہ دے کر ترقی کر رہی ہیں۔بزنس کنسلٹنسی دی ایشیا گروپ کے اشوک ملک نے کہا کہ اگر ٹرمپ ملازمتوں کو واپس لانے اور ’ٹیرف وار‘ شروع کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔دونوں نے 2019 میں ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران ہیوسٹن سٹیڈیم میں مشترکہ طور پر ایک دوسرے کی تعریفیں کیں (فوٹو: اے ایف پی)مودی اور ٹرمپ دونوں کو اپنے دائیں بازو کے حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور ان پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔دونوں نے 2019 میں ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران ہیوسٹن سٹیڈیم میں مشترکہ طور پر ایک دوسرے کی تعریفیں کیں، دسیوں ہزار انڈین نژاد امریکیوں کے سامنے ایک قریبی اور ذاتی اتحاد کا اظہار کیا۔مودی نے اگلے سال اپنی آبائی ریاست گجرات میں ایک ریلی میں ٹرمپ کی میزبانی کی۔ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کامیڈین اینڈریو شولٹز کے پوڈ کاسٹ میں مودی کے بارے میں کہا کہ ’وہ میرا دوست ہے، ظاہری طور پر وہ آپ کے والد کی طرح لگتے ہیں، وہ سب سے اچھا ہیں۔‘کنگز کالج لندن کے پروفیسر ہرش وی پنت نے کہا کہ انڈیا دونوں رہنماؤں کے درمیان مشترکہ گرمجوشی سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ ’مودی یقینی طور پر اس قسم کے مضبوط لیڈر ہیں جو ٹرمپ کو پسند ہیں۔‘
انڈیا امریکہ میں قانونی ہجرت کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہے، لیکن دسیوں ہزار انڈین بھی حالیہ برسوں میں کینیڈا اور میکسیکو کی سرحدوں کو عبور کرکے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے ہیں۔
باغچی نے کہا کہ جب ٹرمپ غیر قانونی امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے اپنی من مانی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے تو یہ لازمی طور پر ایک مسئلہ ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر انڈینز کو اٹھا کر بڑے پیمانے پر ملک بدر کیا جاتا ہے تو ہم تعلقات کی تباہی کو دیکھ رہے ہیں۔