ضلع کرم میں پرتشدد جھڑپوں میں 42 ہلاکتیں: حکومت اب تک امن بحال کرنے میں ناکام کیوں ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 28, 2024

Getty Images

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں ایک بار پھر تشدد کی لہر جاری ہے اور گذشتہ ایک ہفتے سے جاری قبائل کی آپسی جھڑپوں میں کم سے کم 42 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

یہ جھڑپیں تین ماہ میں دوسری مرتبہ شروع ہوئی ہیں جبکہ اس سے پہلے بھی فسادات میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔

مقامی انتظامیہ اور قبائلی جرگے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس وقت معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ علاقوں میں آج صبح سے فائر بندی کروا دی گئی ہے تاہم چند علاقوں میں جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔

اس مرتبہ یہ قبائلی جھڑپیں ایک ہفتے قبل معمولی مورچے کی تعمیر کے تنازعے پر شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ضلع میں چار مقامات پر آٹھ مختلف قبائل کے درمیان شروع ہو گئی۔

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عبدالخالق پٹھان کے مطابق حالیہ تنازع بوشہرہ اور ملی خیل قبیلے کے درمیان شروع ہوا۔

تنازع یہ تھا کہ ایک قبیلے کے لوگ ایک مورچہ تعمیر کر رہے تھے دوسرے قبیلے کو یہ اعتراض تھا کہ یہ زمین جہاں مورچہ تعمیر کیا جا رہا ہے یہ ان کی ملکیت ہے۔ اس پر کشیدگی بڑھ گئی۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ حالات پر تھوڑی ہی دیر میں قابو پا لیا گیا تھا اور کشیدگی ختم کر دی گئی تھی کہ اتنے میں کہیں ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا جس سے کشیدگی پھر سے شروع ہو گئی۔

عبدالخالق پٹھان کا کہنا ہے کہ یہ مورچے کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہیں بلکہ یہ مورچے اپنی ہی شہر میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف قائم کیے جاتے ہیں۔

ضلع کرم میں تقریباً ہر برس قبائل میں جھڑپیں ہونا ایک معمول بن چکا ہے اور معمولی تنازعات پر شروع ہونے والے جھگڑے اکثر اوقات مذہبی اور فرقہ وارانہ شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان جھڑپوں میں راکٹ لانچر سمیت جدید اسلحے کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس جولائی میں دو قبائل کے درمیان زمین کے تنازعے پر شروع ہونے والی جھڑپیں دیگر علاقوں تک پھیل گئیں جن میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

ضلع کرم میں مقامی عمائدین، انتظامیہ، پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے جنگ بندی کی کوششیں کی جاتی ہیں اور مخالفین کو پابند کرنے کے لیے بھاری جرمانوں کی شرائط بھی رکھی جاتی ہیں لیکن مقامی افراد کے مطابق یا تو ان پر عمل نہیں ہوتا یا پھر کسی سے جرمانے وصول نہیں کیے جاتے اور نہ اس حوالے سے تحقیقات ہوتی ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی کس نے کی اور کیسے ہوئی۔

اکثر مقامی لوگ انتظامیہ اور حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر حکومت چاہے تو یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

اس بارے میں ہم نے مقامی عمائدین اور متاثرین کے علاوہ امن کے لیے کوششیں کرنے والے افراد سے بات کی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ آخر یہ تنازعہ کیا ہے اور کیوں اس کو مستقل بنیادوں پر حل نہیں کیا جاتا۔

Getty Imagesزمین کا تنازعہ حل کیوں نہیں ہو رہا؟

ضلع کرم میں ایک بڑی آبادی شعیہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اسی طرح اہل سنت کے بھی اپنے علاقے ہیں۔ بنیادی طور پر زمین کے معاملے پر شروع ہونے والا تنازعہ فرقہ وارانہ فسادات میں اس وقت تبدیل ہو جاتا ہے جب اس زمین کے دعویداروں میں سے ایک قبیلہ شعیہ اور دوسرا سنی فرقے سے تعلق رکھتا ہے، دونوں قبائل کے درمیان کشیدگی یا جھڑپ کی صورت میں ان کے مسلک سے تعلق رکھنے والے قبیلے بھی ان کی حمایت میں مخالف فرقے کے خلاف مسلح حملے شروع کر دیتے ہیں۔

نوجوان سماجی کارکن عبدالخالق پٹھان اور ان کے ساتھیوں نے اس سال جون میں ایک امن ریلی کا انعقاد کیا تھا اور پھر اہلِ تشیع مسلک کے افراد نے انھیں خوش آمدید کہا تھا لیکن اگلے ہی مہینے قبائل کے درمیان کشیدگی سے امن کی کوششوں پر پانی پھیر دیا گیا تھا۔

عبدالخالق پٹھان اس کے بعد دیگر نوجوانوں کے ساتھ پشاور پریس کلب کے سامنے پہنچے جہاں انھوں نے احتجاجی کیمپ لگا دیا تھا اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ کرم میں امن لایا جائے اور مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس احتجاجی کیمپ میں اہل سنت اور اہل تشیع مسالک کے مقامی نوجوان شامل تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’احتجاجی کیمپ میں صوبائی حکومت کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ضلع کرم کے یہ تنازعات ایک ہفتے کے اندر حل کر دیے جائیں گے لیکن اس وعدے پر عمل نہیں ہوا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب پھر یہاں پر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔‘

’اگر حکومت چاہے تو مسئلہ فوری حل ہو سکتا ہے‘

اس علاقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی مجلس وحدت المسلمین ایم ڈبلیو ایم کے رہنما انجینیئر حمید حیسن نے بی بی سی کو بتایا کہ کرم میں لینڈ ریکارڈ موجود ہے اور کچھ علاقوں میں کہیں دشواری ہے تو اسے حل کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی یا حکومت یہ مسئلہ حل ہی نہیں کرنا چاہتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اتنی فورس، پولیس اور انتظامی کی مشینری یہاں موجود ہے اگر حکومت چاہے تو یہ مسئلہ فوری طور پر حل ہو سکتا ہے کیونکہ جہاں تنازعہ ہے وہاں لینڈ ریکارڈ کے مطابق حد بندی کر دی جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ جرگوں سے اب یہ مسئلے حل نہیں ہو رہے، حکومت کو اپنے اختیارات کے تحت مسئلے حل کرنا ہوں گے وگرنہ اسی طرح لوگوں کی جانیں جاتی رہیں گی۔

’مجھے نہیں لگتا کہ اس میں حکومت کے لیے کوئی مشکل ہوگی بس نیت کی بات ہے اگر فیصلہ کر لیں کہ مسئلہ حل کرنا ہے تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ حل نہیں ہو سکتا ۔ جرگے کے لوگ جاتے ہیں فورسز اور انتظامی افسران بھی ساتھ ہوتے ہیں وہاں بات چیت ہوتی ہے لیکن جیسے ہی جرگے کے لوگ واپس آتے ہیں فائرنگ پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ حکومت کیوں نہیں چاہتی کہ یہ مسئلہ حل ہو تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ کسی کا مفاد ہو یا اس سے کوئی فائدہ حاصل کر رہا ہو۔‘

ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیںکرم میں کشیدگی: ’سکیورٹی فورسز نے جرگہ کی مدد سے امن قائم کروا دیا، سفید جھنڈے لہرا دیے گئے‘کرّم میں جھڑپوں کے بعد حالات بدستور کشیدہ، فوج اور ایف سی تعینات’میں بارود کے ذریعے اپنی کہانی بتاتا ہوں‘ پارہ چنار کے مصور کے غیر روایتی فن پارےحکومت کیا کر رہی ہے؟

صوبہ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں مسئلے کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ، پولیس اور مقامی عمائدین فریقین کے درمیان مسئلے کے مستقل حل کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کی کوششوں سے فریقین کے درمیان سیز فائر ہو گیا ہے۔

مشیر اطلاعات نے اپنے دفتر سے جاری بیان میں کہا ہے کہ کرم میں فریقین کے درمیان زمین کا تنازعہ چل رہا ہے زمینی تنازعے کو دہشت گردی یا فرقہ واریت کا نام نہ دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر فریقین کے درمیان زمینی تنازعے کے پرامن حل کے لیے انتظامیہ، پولیس اور مقامی عمائدین ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں جس کے دیرپا نتائج سامنے آئیں گے اور زمینی تنازعہ مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے گا۔

Getty Imagesعلاقے میں ’بے گناہوں‘ کا قتل کیوں؟

ضلع کرم میں ان تنازعات کے دوران بھاری اسلحے کا اتنا استعمال ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دو ممالک کے درمیان جنگ جاری ہے۔

رات کی تاریکی میں آگ اگلتے راکٹ ایسے برسائے جاتے ہیں جیسے کوئی کھیل ہو، اس میں کتنی ہی ایسی ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں جو مقامی ہسپتال تک پہنچ بھی نہیں پاتیں کیونکہ راستے میں مخالفین کی موجودگی کے باعث انھیں ہسپتال تک لانا بھی خطرناک ہوتا ہے۔

علاقے میں راکٹ اور گولے صرف مخالفین پر نہیں گرتے بے گناہ افراد بھی اس میں مارے جاتے ہیں۔

خلوت شاہ کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سات سالہ بیٹے کو چند ماہ پہلے راستے میں ایک بم ملا جسے اس نے کھلونا سمجھ کر اٹھا لیا مگر اسے اٹھاتے ہی وہ پھٹ گیا اور اس بچے کا بازو اور دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں۔

خلوت شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تو بیٹے کے معذور ہو جانے کے غم میں مبتلا ہیں۔ سی ایم ایچ میں علاج کرایا تو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اس کی آنکھوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

ملک نجف علی ضلع کرم کے عمائدین میں شامل ہیں، ان کی عمر لگ بھگ 70 سال ہے۔ ان کی بیٹی تقریباً چار سال پہلے عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ ملک نجف علی کو بھی سات گولیاں لگی تھیں۔

ان کی بیٹی سات جنوری 2024 کو اسسٹنٹ پروفیسر نرسنگ کا عہدہ سنبھالنے، والد کے ساتھ جا رہی تھی جب مسلح افراد نے ان کی گاڑی کے سامنے آ کر ان پر فائرنگ کر دی تھی۔

ملک نجف علی کے مطابق ان کی بیٹی کے آخری الفاط یہ تھے کہ ’بابا آپ اتر جائیں آپ بچ جائیں گے ، میں نے موبائل فون نکالا تو سب کچھ خون میں لت پت تھا اس کے بعد میری بیٹی نے کوئی بات نہیں کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ان کی گاڑی کے پیچھے سکیورٹی اہلکار بھی پرائیویٹ گاڑیوں میں تھے ان پر بھی حملہ ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’علاقے میں بد امنی کی لہر ہے یہاں کوئی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوتا لیکن اسے فرقہ وارانہ تشدد بنا دیا جاتا ہے حالانکہ عام دنوں میں کرم میں شیعہ سنی ایک جگہ رہتے ہیں آپس میں اچھے دوست ہیں لیکن اب کیا ہوا ہے کہ جس جس مسلک کے لوگ اقلیت میں ہیں وہ یہ علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘

تشدد کو مستقل روکنے میں جرگے کا کردار

ضلع کرم میں بنیادی طور پر دو طرح کے جرگے ایسے حالات میں جنگ بندی کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایک مقامی قبائل پر مشتمل ہوتا ہے جس میں تمام قبائل کی نمائندگی ہوتی ہے جبکہ دوسرا گرینڈ جرگہ ہوتا ہے جس میں ضلع کرم کی سرحد کے ساتھ واقع دیگر اضلاع کے معتبرین اور عمائدین شامل ہوتے ہیں۔

ان میں اورکزئی، کوہاٹ، ہنگو اور دیگر کچھ علاقوں کے اہم افراد بھی شامل ہوتے ہیں جبکہ اس میں ڈی آئی جی کوہاٹ اور کمشنر کوہاٹ بھی شریک ہوتے ہیں۔

حاجی سلیم خان اہل سنت کی جانب سے ان جرگوں میں شامل ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جنگ بندی سب چاہتے ہیں، امن بھی سب چاہتے ہیں اور اس پر راضی ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی جرگے کے لوگ وہاں سے جاتے ہیں کوئی ایک قبیلہ ایسی شرارت کر دیتا ہے جس سے حالات پھر سے خراب ہو جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سے پھر ایسی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اہل سنت اور اہل تشیع کے رہنما اور قائدین اپنے اپنے مسلح افراد کو روک دیں کہ کوئی اسلحہ نہیں اٹھائے گا تو معاملات سنبھل سکتے ہیں اور ایک دو علاقے ایسے ہیں جہاں تنازعات ہیں وہاں لینڈ کمیشن کے ذریعے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

’ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جو حل نہ ہو سکے اگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے دیتا یا خلاف ورزی کرتا ہے تو ان کے خلاف ریاست کارروائی کر سکتی ہے۔‘

ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات: چند کنال زمین کے تنازعات جو سینکڑوں جانیں لے چکے ہیںضلع کرم میں جھڑپیں: ’معاملہ زمین کی ملکیت کا ہے، فرقہ وارانہ نہیں‘’میں بارود کے ذریعے اپنی کہانی بتاتا ہوں‘ پارہ چنار کے مصور کے غیر روایتی فن پارےکرم میں کشیدگی: ’سکیورٹی فورسز نے جرگہ کی مدد سے امن قائم کروا دیا، سفید جھنڈے لہرا دیے گئے‘کرم میں خواتین پر ’پراسرار‘ حملے: پولیس کا ایئر گن سے حملہ کرنے والے ایک ملزم کی شناخت کا دعویٰ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More