’جب میں اپنے قافلے کے ساتھ وہاں پہنچا تو لوگ ڈرے ہوئے تھے اور ڈاکٹر شاہنواز کا باپ اپنے بیٹے کی قبر کے بارے میں بتانے سے بھی گھبرا رہا تھا۔ ہم نے اُس کا حوصلہ بڑھایا۔ پھر بھی وہ اتنا گھبرایا ہوا تھا کہقبر کی جگہ اشاروں سے بتائی۔‘
یہ الفاظ سندھ کی صوفی شخصیت مانجھی فقیر کے ہیں جنھوں نے عمرکوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کی قبر پر صوفیانہ کلام پڑھا۔
یاد رہے کہ عمرکوٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمے کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین نے ان کی تدفین کی کوشش کی تاہم مشتعل مظاہرین نے ان کی لاش کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔
ڈاکٹر شاہنواز کے ایک قریبی رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اس واقعے کے بعد کی صورت حال بتائی۔ انھوں نے کہا کہ ’جہانرو گاؤں میں خواتین سہم گئی تھیں، کوئی کہیں پناہ لے رہا تھا اور کوئی کہیں۔‘
مقامی صحافی امین ڈیپلائی نے بھی کچھ ایسی ہی منظر کشی کی۔ انھوں نے بتایا کہ ’گاؤں سمیت عمر کوٹ ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مَیں دیکھ رہا تھا کہ ڈاکٹر شاہنواز کا قبیلہ اور ہندو کمیونٹی گھبراہٹ میں مبتلا تھی اور لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھے۔کوئی کسی سے بات ہی نہیں کر رہا تھا۔‘
ایسے حالات میں مانجھی فقیر کے علاوہ سندھ کے مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد عمر کوٹ پہنچے، سندھ اسمبلی میں اس واقعے پر بات ہوئی اور رفتہ رفتہ خوف کی فضا ختم ہوئی۔ اس معاملے میں سندھ کے سماجی اور معاشرتی رویوں سمیت صوفیانہ اقدار پر سوشل میڈیا پر کافی بات چیت ہوئی اور کئی صارفین نے مقامی دانشوروں، فنکاروں اور سیاسی رہنماوں کے کردار کو سراہا۔
بی بی سی نے اسی حوالے سے مختلف افراد سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ عمر کوٹ میں کیا ماحول تھا اور خوف کی فضا کیسے ختم ہوئی، ساتھ ہی ساتھ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ سندھ کی ثقافت میں ایسا کیا خاص ہے جو اسے دوسرے صوبوں یا علاقوں سے مختلف بناتا ہے۔
’کئی لوگوں کے فون اور پیغامات آئے کہ یہ کیا بے وقوفی کر رہے ہو؟‘
عمر کوٹ کے چند مقامی رہائشیوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ مقامی سیاستدان سردار شاہ نے سندھ اسمبلی میں جب اس معاملے پر بات کی تو دوسروں لوگوں کے اندر بھی کھل کر بات کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ مانجھی فقیر کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے۔ ان کے مطابق سیاسی سطح پر معاملہ اُٹھائے جانے پر صورتحال میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔
مانجھی فقیر کہتے ہیں کہ ’مجھے جب واقعہ کے بارے میں معلوم ہوا تو میں نے سوشل میڈیا پر آواز اُٹھائی اور اعلان کیا کہ میں جنازے میں جاؤں گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کئی لوگوں کے فون اور پیغامات آئے کہ یہ کیا بے وقوفی کر رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ہر صورت عمر کوٹ جاؤں گا اور ڈاکٹر شاہنواز کے خاندان کا سہارا بنوں گا اور سندھ کی روادار ثقافت کو بروئے کار لاؤں گا۔‘
ایسے میں حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، سانگھڑ، سکھر، میر پور خاص، دادو، خیرپور اور دیگر شہروں سے سندھ کے قوم پرست رہنما، لوک فنکار، دانشور، سماجی و سیاسی کارکن اتوار کے روز جہانرو پہنچے۔
مانجھی فقیر کے مطابق ان کو ڈاکٹر شاہنواز کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ ’مختلف شہروں سے لوگوں کے جنازہ پڑھنے سے پہلے تک مقامی طور پر کوئی کسی سے نہیں مل رہا تھا اور شاہنواز کے خاندان کی خواتین کو بعض ہندو گھرانوں نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔‘
مانجھی فقیر اپنے قافلے کے ساتھ ڈاکٹر شاہ نواز کے گھر گئے اور پھر یہ قافلہ ’انتہا پسندی نامنظور‘ کے نعرے لگاتا شاہنواز کی قبر پر پہنچا جہاں مانجھی فقیر نے سچل سرمت، شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام پڑھا۔
مانجھی فقیر بتاتے ہیں کہ ’ہم نے پھول برسائے اور صوفیانہ کلام پڑھا جس میں رواداری کا سبق ہے اور سچے عشق کی باتیں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب نمازِ جنازہ ہو گئی تو مجھے کئی لوگوں نے کہا کہ آپ اِدھر رُک جائیں، مت جائیں، یعنی وہ اکیلے اُدھر رہنے سے ڈرتے تھے۔ لیکن اب جب ہم واپس آ چکے ہیں تو دوسرے شہروں سے لوگوں کا وہاں آنا جانا لگا ہوا ہے۔‘
مانجھی فقیر کے بیٹے منصور مانجھی کہتے ہیں سیاسی رہنما ڈاکٹر نیاز کالانی، پہنل ساریو، سماجی رہنما سندھو نواز گھانگھرو سمیت اور بھی کئی نمایاں لوگ تھے جنھوں نے عمر کوٹ کا دورہ کیا۔
BBCعمرکوٹ کراچی سے تقریباً 325 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مغل سلطنت کے بانی شہنشاہ اکبر کی پیدائش اور سندھ کی لوک داستان عمر ماروی نے بھی یہاں جنم لیا تھا’قانون موجود ہے تو ماورائے قانون طریقہ کار کیوں‘
سوموار کی دوپہر کو حیدرآباد شہر سے بعض دیگر لوگوں کے ہمراہ تعزیت کے لیے آنے والے ایک شخص عبدالوحید بھی تھے جو شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور مصنف بھی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں جب دیگر لوگوں کے ساتھ تعزیت کے لیے پہنچا تو ڈاکٹر شاہنواز کی اوطاق (بیٹھک) میں بیس پچیس لوگ پہلے سے موجود تھے۔ لوگ آ جا بھی رہے تھے اور جب ہم وہاں سے اُٹھے تو پندرہ بیس گاڑیوں پر لوگ تعزیت کے لیے پہنچے۔‘
اس واقعہ پر سوشل میڈیا پر مسعود لوہار نے بھی آواز اٹھائی ہے جو سندھ کے دانشور ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’میرا اس واقعہ پر اپنا ایک موقف ہے۔‘
ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘ورثا کا توہین رسالت کے ملزم کے قاتل پولیس کانسٹیبل کو معاف کرنے کا اعلان: ’قبیلے نے معاف کیا ہے ریاست نے نہیں‘لاہور میں خاتون کے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: ’اگر چیخ کر ہجوم کو قائل نہ کرتی تو حالات بدتر ہوتے‘کوک سٹوڈیو کے نغمے’آئی آئی‘ کی مرکزی کردار ماروی کون تھیں؟
’مَیں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تو رات ڈیڑھ بجے مجھے میرے قریبی لوگوں نے جگا کر کہا کہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دو، یہ خطرناک معاملہ ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ جب ایک ایشو پر قانون موجود ہے تو ماورائے قانون طریقہ کار کیوں روا رکھا گیا؟‘
’میری یہ کوشش رہی کہ سندھ کے باسیوں کو اس پر آواز اُٹھانی چاہیے اور عمر کوٹ پہنچنا چاہیے۔‘
مسعود لوہار کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر شاہنواز کی فیملی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا یہاں رہنا ناممکن ہو رہا تھا اور اگر آپ لوگ نہ آتے تو ہم یہاں سے نقل مکانی کر جاتے۔‘
’سندھ کا مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقہ بھائی چارے کو اہمیت دیتا ہے‘
حشو کیولرامانی لائبریری حیدرآباد کے انچارج اور صوفی درگاہ کے منتظم فقیر قادر داد خشک کہتے ہیں کہ ’اپنے اپنے خطے کی پرورش ہوتی ہے۔‘
’سندھ میں ایسا بھی ہوگا کہ ایک جوتے گانٹھنے والے کے سامنے پنجاب کے صوفی بابا بلھے شاہ کے کلام کا ایک مصرع پڑھا جائے تو وہ باقی کا پورا کلام سنا دے گا۔ بلھے شاہ کا ہی نہیں وہ تو مادھولعل کا کلام بھی سنا دے گا۔ سندھ کے لوگوں نے بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، مادھو لعل اور دیگر صوفیا کی زبان کو قبول کیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سندھ کا مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقہ بھائی چارے کو اہمیت دیتا ہے اور صوفیا کے خیالات کو لے کر چلتا ہے۔‘
BBC(فائل فوٹو) حشو کیولرامانی لائبریری حیدرآباد کے انچارج اور صوفی درگاہ کے منتظم فقیرقادر داد خشک کہتے ہیں کہ ’اپنے اپنے خطے کی پرورش ہوتی ہے۔‘
’میرے آبائی شہر سے پانچ سات کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ہی حویلی میں مسجد بھی ہے اور مندر بھی۔‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے مشہور سرائیکی شاعر اور مصنف رفعت عباس کہتے ہیں کہ ’یہ سندھ دھرتی کا تصوف تھا کہ وہ اپنے گیت اور اپنی اجرکیں لے کر آئے۔‘
’یہ سندھ کا اپنا طریقہ کار تھا، جسے آگے بڑھنا چاہیے۔‘
ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘’میرے شوہر معصوم تھے، وزیر اعظم پاکستان ہمیں انصاف دیں‘: مقتول سری لنکن شہری کی اہلیہلاہور میں خاتون کے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: ’اگر چیخ کر ہجوم کو قائل نہ کرتی تو حالات بدتر ہوتے‘عمرکوٹ: جہاں بہادری اور رومانوی داستان بستی ہےصوفی درگاہوں میں خواتین کی گائیکیکوک سٹوڈیو کے نغمے’آئی آئی‘ کی مرکزی کردار ماروی کون تھیں؟