آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  Sep 24, 2024

لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔

سینیئر عسکری ذرائع نے اس تعیناتی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 30 ستمبر کو یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی جگہ لیں گے جنھیں چھ اکتوبر2021 کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا تھا، تاہم گذشتہ برس اس وقت کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی تھی۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کا تعلق ایک عسکری خاندان سے ہے اور ان کے والد لیفٹیننٹ جنرل (ر) جنرل غلام محمد ملک 90 کی دہائی کے اوائل میں راولپنڈی کے کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت ہوئی تھی جس پر میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر باللہ سمیت متعدد افسران کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل بھی ہوا تھا۔

پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے اعزازی شمشیر کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ امریکہ کے فورٹ لیون ورتھ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔

یہ وہی برطانوی کالج ہے جہاں سے پاکستان کی برّی فوج کے سابق سربراہان پرویز مشرف، اشفاق کیانی اور راحیل شریف بھی کورس کر چکے ہیں۔

انھیں بلوچستان کے امور پر دسترس رکھنے والے افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے عسکری کریئر میں انھوں نے دالبندین میں 41 ویں انفنٹری ڈویژن کی کمان کے علاوہ وزیرستان میں انفنٹری بریگیڈ کی کمان بھی سنبھالی۔ اس کے علاوہ وہ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ’وار ونگ‘ کے چیف انسٹرکٹر اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں بھی بطور انسٹرکٹر تعینات رہ چکے ہیں۔

عاصم ملک ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں اور بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔

Getty Imagesنئے ڈی جی آئی ایس آئی فورٹ لیون ورتھ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں

یہ ادارہ پاکستان کی فوج میں ڈسپلن اور ویلفیئر کا ذمہ دار ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل سمیت گذشتہ چند برس میں پاکستانی فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی اور اس طرح کے جو دیگر معاملات سامنے آئے ان کی تحقیقات ایڈووکیٹ جنرل کے ماتحت جج ایڈجوٹنٹ جنرل برانچ نے ہی کی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سابق فوجی افسر کا کہنا تھا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ ایڈجوٹنٹ جنرل ہی تمام معاملات دیکھے۔ ہمارے سامنے ایسے متعدد معاملات موجود ہیں جہاں فوج کی اعلیٰ قیادت براہ راست جج ایڈووکیٹ جنرل سے رابطہ کرتی ہے اور ایسی صورت میں عام طور پر ایڈجوٹنٹ جنرل مداخلت نہیں کرتے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ لیفٹننٹ جنرل عاصم ملک نے ان تمام، خاص طور پر سیاسی معاملات کی، نگرانی خود ہی کی ہو۔ یہ ممکن بھی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ایک افسر نے بتایا کہ لیفٹینٹ جنرل عاصم ملک فوج میں ایک بااصول اور ڈسپلن کے پابند لیکن اہلکاروں اور شہدا کے لواحقین کے تئیں ہمدرد افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق ’جہاں ایک طرف وہ ایک نظم و ضبط کے پابند افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، وہیں انھیں ایک ہمدرد شخصیت بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بطور ایڈجوٹنٹ جنرل ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں اور شہدا کے اہلخانہ سے متعلق معاملات میں نرمی اختیار کرتے رہے ہیں جبکہ ایسے معاملات میں جہاں مسئلہ ادارہ جاتی اور انضباطی شکایت کی بجائے انسانی غلطی کا رہا ہو، انھوں نے اہلکاروں کو ریلیف بھی دیا ہے۔‘

عاصم ملک نے گذشتہ سال پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے بنائے گئے منصوبے ’ایس آئی ایف سی‘ کے تحت ملک میں زرعی اصلاحات کے لیے ’گرین انیشیئیٹو‘ پروگرام کی منصوبہ بندی کی اور بحیثیت ایڈجوٹنٹ جنرل اس کے منتظم رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک فوجی افسر کا کہنا تھا کہ ’جدید زرعی سکیم اور ایس آئی ایف سی کے زیرِ انتظام مختلف منصوبوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد میں جنرل عاصم ملک کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ وہ گرین انیشیئیٹو منصوبوں پر عملدرآمد کے ابتدائی مراحل میں اس کی نگرانی کر رہے تھے اور سٹریٹجک فارمنگ کے منصوبے میں بھی ان کا مرکزی کردار تھا۔‘

لیفٹیننٹ جنرل عاصم کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟

لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک میں خفیہ ایجنسیوں کے سیاست میں کردار اور شہریوں کی نگرانی جیسے معاملات پر بحث ہو رہی ہے، سو اہم سوال یہ ہے کہ انھیں کس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار محمد علی کہتے ہیں کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کا کردار پاکستان میں سب سے الگ ہے، وہ عسکری اور سویلین قیادت دونوں کے لیے قومی سلامتی کے معاملات پر ڈی فیکٹو مشیر ہیں اور دونوں ہی ان کی معلومات، تجزیوں اور رائے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق اس وقت پاکستان کو ان معاملات میں جہاں آئی ایس آئی کا کردار ہے وہیں اندرونی اور بیرونی دونوں ہی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

’اس میں سب سے اہم امریکہ اور چین ہیں جن کے ساتھ پاکستان کی خواہش ہو گی کہ دونوں ملکوں کے ساتھ سکیورٹی اور معاشی تعلقات بہتر ہوں، جبکہ انڈیا کا بڑی مغربی قوتوں کے ساتھ گہرا ہوتا ہوا تعلق ہے جس میں انڈیا کی کوشش ہے انھیں سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت ملے، جبکہ نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کا حصہ بننے کی کوشش وہ عوامل ہیں جو کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی درپیش ہوں گے۔‘

آئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے اور تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟فیض حمید کا کورٹ مارشل: آئی ایس آئی کے سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنازعات کی زد میں کیوں رہتے ہیں؟پاکستان میں خفیہ اداروں کو شہریوں کی کالز اور پیغامات تک کیسے رسائی ملتی ہے؟ہمارے لائق اور نالائق آئی ایس آئی چیف: محمد حنیف کا کالم

محمد علی کے مطابق ’ان کے لیے ایک اور چیلنج افغانستان میں طالبان کی قیادت کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ انھیں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتے ہوئے اثر کو ختم کرنا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اس وقت وزیراعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو کے درمیان تعلقات اچھے ہیں جو ان کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن انھیں یہاں سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔‘

تجزیہ کار اور صحافی عامر ضیا اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں اور ملک کی سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور حکومت کو تمام معاملات کو سلجھانے کا موقع دیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عامر ضیا نے کہا کہ ’پاکستان میں علاقائی چیلنجز کی وجہ سے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے اور یہ اہم ہے کہ ہماری فوج اور انٹیلیجنس ادارے غیر متنازع ہوں اور ان کے ساتھ عوام کی حمایت غیر مشروط ہو۔ اس لیے نئے ڈائریکٹر جنرل کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ آئی ایس آئی کی ساکھ کو بحال کریں اور اس کے متنازع کردار کو ختم کریں۔‘

ان کے مطابق ’لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے معاملے نے خود فوج کے احتسابی عمل پر سوال اٹھائے ہیں کہ آخر ایک فوجی افسر کیسے اس حد تک پہنچ گیا اور ادارے کو خبر کیوں نہ ہوئی۔‘

عامر ضیا کا کہنا تھا کہ ’ضروری ہے کہ صرف ایک شکل ہی تبدیل نہیں ہو بلکہ ادارے کی اسٹریٹجی بھی تبدیل ہو۔ اس وقت ملک میں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے مسائل کا سامنا ہے، ملک میں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں، سیاسی مداخلت ہو رہی ہے، اگر وہ ان تمام مسائل کو حل کر لیں تو یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ اس کے علاوہ کاونٹر انٹیلی جنس اور دہشتگردی ختم کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔‘

Getty Imagesتجزیہ کار کہتے ہیں کہ نئے ڈائریکٹر جنرل کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ آئی ایس آئی کی ساکھ کو بحال کریں

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایسے عہدوں پر آپ کی وفاداری ملک اور ادارے کے ساتھ ہونی چاہیے نہ کہ کسی فرد کے ساتھ۔‘

ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں اس تاثر کی بظاہر وجہ فوج میں گذشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی انضباطی کارروائیاں ہیں جن کا ہدف بڑی حد تک پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بانی عمران خان سے متعلق ہمدردانہ رویہ رکھنے والے افسران بنے۔

خیال رہے کہ فوجی ڈسپلن میں افسران اور اہلکاروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت حتیٰ کی سیاسی وابستگی رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور ایڈجوٹنٹ جنرل ان قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔

خود فوجی افسران عوامی سطح پر عوامی یا سیاسی معاملات پر رائے دینے کے مجاز نہیں ہیں اور ملک کا آئین انھیں ایسے کسی بھی اقدام سے روکتا ہے جس سے ان پر کسی سیاسی جماعت کی جانبداری کا تاثر ملے۔

جب آئی ایس آئی سربراہ کو آرمی چیف بنانے کی کوشش میں وزارت عظمیٰ جاتی رہیفوج اور آئی ایس آئی سربراہان کی میڈیا تشہیر کا معاملہ کتنی اہمیت رکھتا ہے؟ہنی ٹریپ: ماتا ہری سے جُڑی فوجی افسران کی جاسوسی کی روایت جس نے انڈیا کو ’پریشان‘ کیا ہےجنرل حمید گل 'چوکیداروں کا چوکیدار': محمد حنیف کا کالمانڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کیسے بنی اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟فوج جعلی خبر پھیلانے والے کو دہشتگرد کیوں سمجھتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More