گوجرانوالہ سکول ریپ کیس: ’ہماری موجودگی میں بچیوں سے ایسے سوال کیے جاتے ہیں کہ شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 23, 2024

BBC

’جتنی ذلت آج ہمیں برداشت کرنا پڑ رہی ہے اس سے بہتر تھا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ درج کروا کر اسے گرفتار ہی نہ کرواتے۔‘

یہ الفاظ ان پانچ میں سے ایک کمسن بچی کے والد کے ہیں (جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) جنھیں مبینہ طور پر گوجرانوالہ کے ایک نان فارمل ایجوکیشن سکول میں ایک کنٹین چلانے والے ملزم نے دو ہفتے قبل ریپ کیا تھا۔

مقامی پولیس کے مطابق ملزم، جو کہ اسی سکول کی ایک ٹیچر کا خاوند بھی تھا، نے اس سکول میں زیر تعلیم پانچ بچیوں کے ساتھ مبینہ ریپ کیا تھا اور ان کی ویڈیوز بھی بنائی تھیں۔

تاہم ایک بچی کے والد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تفتیش کا عمل کیسے ان کے اور ان کی بیٹی کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ بیٹی کے ساتھ ریپ کے واقعے کے بعد تفتیش اور کارروائی کی غرض سے دیگر متاثرہ بچیوں کو متعدد بار وہ کبھی لاہور لے کر جاتے ہیں۔

’کبھی پولیس کے سامنے، کبھی ڈاکٹر تو کبھی مجسٹریٹ کے پاس اور وہاں پر ان بچیوں کے والدین کی موجودگی میں اس واقعہ سے متعلق ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کو سن کر کر ہم شرم سے پانی پانی ہوجاتے ہیں اور یہ عمل بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔‘

پولیس کا موقف ہے کہ اس واقعہ سے متعلق جو مقدمات درج کیے گئے ہیں اس میں ریپ کے ساتھ ساتھ چائلڈ پورنوگرافی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں اور یہ دونوں دفعات ناقابل ضمانت ہیں۔ پولیس کے مطابق اس واقعے سے پہلے ملزم کا جرائم پیشہ ہونے کا کوئی ریکارڈ پولیس کے پاس موجود نہیں ہے۔

’مالی وسائل بھی نہیں اور تماشا بھی بنایا جا رہا ہے‘Getty Images

گوجرانوالہ کے ایک پسماندہ علاقے کے رہائشی روزانہ اجرت کی بنیاد پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اس واقعے نے ان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیا ہے۔

ان دنوں اب وہ تقریبا ہر دوسرے دن گاڑی کرائے پر لے کر متاثرہ بچیوں کو لاہور لیکر جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’دیگرمتاثرہ بچیوں کے والدین بھی مالی طور پر بہت کمزور ہیں اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہر دوسرے دن ہزاروں روپے خرچ کرکے اپنی بچیوں کو لاہور اور دیگر جگہوں پر لے کر جائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب پولیس حکام کو اس واقعہ کا علم ہو بھی چکا ہے اور میڈیکل رپورٹ میں بھی ریپ ہونا ثابت ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملزم نے اقرار جرم بھی کر لیا ہے تو پھر کیوں ہمیں دنیا کے سامنے تماشا بنایا جارہا ہے۔‘

اس واقعہ کے بعد انھوں نے اپنی بچیوں کو گھر کے باہر کا دروازہ بھی نہیں دیکھنے دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اب تو حالات یہ ہیں کہ نگرانی میں بچیوں کو سکول چھوڑ کر آئیں اور اپنی ہی نگرانی میں بچیوں کو گھر واپس لیکر آئیں۔‘

’گھر سے نہیں نکلتے کہ باہر لوگ بچی کے بارے میں سوالات پوچھیں گے‘BBC

ایک اور بچی کی والدہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنی پریشانیوں سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعہ کے بعد میرے شوہر اس وجہ سے گھر سے ہی نہیں نکل رہے کہ باہر لوگ بچی کے بارے میں ان سے پوچھیں گے تو وہ کیا جواب دیں گے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’شوہر کے باہر نہ جانے کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے اور کبھی ایک وقت کھانا ملتا ہے تو دوسرے ٹائم بھوکا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘

متاثرہ بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کی عمر 12 سال ہے اور وہ اس سکول میں چوتھی کلاس میں پڑھتی تھیں۔

’بچی نے کہا کہ مجھےسکول نہیں جانا اور جب اس کی بڑی بہن نے سکول نہ جانے کی وجہ پوچھی تو پھر اس نے بتایا کہ سکول ٹیچر کے خاوند نے اسے متعدد بار ریپ کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر بچیوں کے ساتھ بھی ریپ کیا ہے۔‘

متاثرہ بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ جب ان کی بیٹی کی سکول کی استانی سے اس کے خاوند، جس کو تمام بچیاں ’بھائی جان‘ کہتی تھیں، کی شکایت کی گئی تو انھوں نے اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’تم کل کی بچیاں میرے شوہر پر کیسے الزام لگا سکتی ہو۔‘

گوجرانوالہ کے سکول میں کینٹین والے پر بچیوں کے ریپ کا الزام: ’بیٹی نے چیخ کر کہا کہ میرے قریب نہیں آنا مجھے ڈر لگتا ہے‘ڈاکٹر شاہنواز: ’ہم جلتی لاش کے شعلے دیکھ رہے تھے اور آس پاس کھڑے لوگ نعرے لگا رہے تھے‘جعفرآباد کے سکول میں بچوں کا مبینہ ریپ، پرنسپل اور ہاسٹل وارڈن گرفتار: ’میرے بیٹے کی وجہ سے دوسرے بچے بچ گئے‘قصور ریپ کیسز: عائشہ سے زینب تکمقدمے میں ریپ اور چائلڈ پورنوگرافی کی دفعات شامل

ڈی آئی جی ایاز سلیم سٹی پولیس افسر گوجرانوالہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعہ کی تفتیش بڑی حد تک مکمل کرلی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملزم نے پولیس کی تحویل میں اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔

ڈی آئی جی ایاز سلیم کا کہنا تھا کہ اگرچہ پولیس کی موجودگی میں ملزم کے اعتراف جرم کے بیان کی کوئی حثیت نہیں ہے لیکن متاثرہ بچیوں نے ملزم کی موجودگی میں علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیے ہیں کہ ان کے ساتھ ملزم نے ریپ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعہ سے متعلق جو مقدمات درج کیے گئے ہیں اس میں ’ریپ کے ساتھ ساتھ چائلڈ پورنوگرافی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں اور یہ دونوں دفعات ناقابل ضمانت ہیں۔‘

متاثرہ بچیوں اور ان کے ورثا کو بار بار پولیس سٹیشن اور دیگر مقامات پر بلانے سے متعلق سٹی پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی باعزت شخص یہ نہیں چاہتا کہ ان کی بچیوں کا نام کہیں پر آئے لیکن بدقسمتی سے یہ ہماری تفتیش کا حصہ ہے جس کی وجہ سے انھیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ابھی جب یہ مقدمہ عدالتوں میں جائے گا تو وہاں پر بھی ان متاثرہ بچیوں سے ایسے سوالات پوچھے جائیں گے کہ اگر عام حالات میں ایسے سوال پوچھے جائیں تو لوگ مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘

ڈی ائی جی ایاز سلیم کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس واقعہ کی ہر پہلو سے تفتیش کی ہے اور ایسے ناقابل تردید شواہد ہیں جن کے ہوتے ہوئے ملزم سزا سے نہیں بچ سکتا۔

تفتیش اور متضاد دعوے

گوجرانوالہ ریپ کیس کی تفتیش کے بارے میں مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ بچیوں سے پوچھ گچھ کے دوران اگرچہ مرد اہلکار سوال کرتے تاہم ایک خاتون کانسٹیبل موجود رہتیں۔

تاہم ایک متاثرہ بچی کے والد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ لیڈی کانسٹیبل ایک یا دو مربتہ ہی تفتیش کے دوران موجود تھیں۔ ان کے مطابق ’جب بچیوں کو لاہور لے جایا جاتا تو لیڈی کانسٹیبل ان کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں۔‘

دوسری جانب سٹی پولیس افسر گوجرانوالہ ڈی آئی جی ایاز سلیم سے جب اس نوعیت کی تفتیش کی حساسیت اور اس سے جڑے نفسیاتی اثرات کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ریپ کیسز کی تحقیقات کے دوران ایک خاتون ماہر نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جو پولیس کی جانب سے اس مقدمے کی تحقیقات میں پوچھے جانے والے سوالات سے متعلق ریپ کا شکار ہونے والی خاتون یا بچی کو پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے تاکہ جب سوال پوچھیں جائیں تو وہ پرشان نہ ہوں۔‘

تاہم متاثرہ بچیوں میں سے ایک کے اہلخانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچیوں سے ہونے والی پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے اب تک کسی ماہر نفسیات کو نہیں دیکھا۔

اس بارے میں بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات رپورٹ کرنے والے ادارے ساحل سے وابستہ ایڈووکیٹ امتیاز احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس ابھی تک ایسا کوئی نظام وضع نہیں کر سکی ہے جس میں متاثرہ بچوں سے تفتیش اس انداز سے کی جائے کہ پھر وہ سہم نہ جائیں اور خوف ان کے اندر گھر نہ کر سکے۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت پولیس ہر جرم کی طرح اس طرح کے مقدمات میں بھی تفتیش کو معمول کے مطابق آگے بڑھاتی ہے اور بچوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ نہیں لیتی۔‘

امتیاز احمد کے مطابق ’سنہ 2013 میں سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلے میں پولیس کو اس بات کا پابند بنایا تھا کہ وہ اپنی تفتیش سے پہلے متاثرہ بچے یا بچی کو کسی ایسے ادارے یا این جی او کے پاس بھیجیں گے جہاں اس کی ٹھیک طریقے سے 'کونسلنگ' ہو سکے۔‘

ان کی رائے میں ’عدالتوں میں فیصلے بھی آ جاتے ہیں مگر پھر سوال عملدرآمد پر آ کر اٹک جاتا ہے۔‘

ایڈووکیٹ امتیاز احمد کے مطابق ’جب ایسے فیصلے اور رہنمائی کر دی جائے تو پھر یہ پولیس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے لیے اس انداز میں ایس او پیز تیار کریں تا کہ مستقبل میں وہ ایسے متاثرہ خاندانوں اور ان کے بچوں کے لیے زحمت کا باعث نہ بنیں۔‘

BBCنان فارمل ایجوکیشن سکول کیا ہیں؟

گوجرانوالہ کے جس سکول میں ریپ اور بچیوں کی وڈیوز بنانے کے واقعات پیش آئے وہ نان فارمل ایجوکیشن سکول سسٹم ہے جسے قائم ہوئے سات سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔

نان فارمل ایجوکیشن سکول ایسی جگہوں پر کھولے جاتے ہیں جہاں پر محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اکثریت میں رہتے ہیں۔

نان فارمل ایجوکیشن سکول سسٹم پنجاب حکومت کے لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کا منصوبہ ہے اور یہ سکول ایسے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں کھولے جاتے ہیں جہاں پر عام لوگوں کو سرکاری اور پرائیویٹ سکولز تک رسایی نہیں ہوتی۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایسے سکولز کی تعداد 13 ہزار سے زیادہ ہے جس میں ساڑھے چار لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔

یہ سکولز پرائمری لیول تک کے ہوتے ہیں اور ایسے سکولز میں بچوں کی عمر کو سامنے نہیں رکھ جاتا اور وہ جس عمر میں بھی ہوں، وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان سکول میں داخلہ لے سکتے ہیں۔

گوجرانوالہ میں نان فارمل ایجوکشن سکولوں کی تعداد 413 ہے جس میں زیادہ تر بچوں کے والدین یا تو اینٹوں کے بھٹوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں اور یا پھر ان کی مائیں لوگوں کے گھروں میں برتن دھونے اور صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں۔

محکمہ ایجوکیشن کے ایک اہلکار کے مطابق اگر کوئی شخص 15 سے 20 بچوں کو متعقلہ محکمے کے حکام کے سامنے ظاہر کر دے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی گھر کے کاغذات بھی پیش کردے تو اسے سکول کھولنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

تاہم جس کو سکول کھولنے کی اجازت دی گئی ہے اس کے کردار کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے کی کوئی مثال ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

نان فارمل ایجوکیشن سسٹم کی انچارج فوزیہ زریں کا کہنا ہے کہ حکومت ایسے سکول کو چلانے کے لیے ماہانہ 25 ہزار روپے دیتی ہے جس میں ٹیچر کی تنخواہ اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔

BBCسپروائزری رول موجود لیکن مانیٹرنگ کے وسائل نہیں: ڈی سی گوجرانوالہ

اس واقعہ کے بارے میں جب فوزیہ زریں سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ نان فارمل سکول سسٹم کے ڈائریکٹر جنرل خرم شہزاد سے رابطہ کرکے ان سے اس واقعہ کے بارے میں موقف لے سکتے ہیں۔

بی بی سی نے متعدد بار نان فارمل سکول سسٹم کے سربراہ سے رابطہ کرکے ان سے موقف لینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔

گوجرانوالہ میں نان فارمل سکول سسٹم کی انچارج نے دعویٰ کیا کہ جن پانچ کمسن بچیوں کے ساتھ مبینہ ریپ ہوا ہے اس میں تین بچیاں اس سکول کی نہیں ہیں تاہم مقامی پولیس نے اس دعوی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پانچوں بچیاں اسی گھر میں پڑھنے جاتی تھیں جہاں پر یہ سکول قائم کیا گیا تھا۔

ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ محمد طارق قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت شہر بھر میں نو ہزار کے قریب نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر چہ ان کا اس معاملے میں سپروائزری رول ہے لیکن ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ان تمام اداروں کی مانیٹرنگ کی جاسکے۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد ایسے سکولوں کی نگرانی سخت کر دی گئی ہے تاکہ مستقبل میں ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

انھوں نے کہا کہ جن افراد کو یہ سکول چلانے کی اجازت دی ہے اس کا طریقہ کار موجود ہے لیکن جب ان سے طریقہ کار کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ڈی آئی جی ایاز سلیم کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس ایسا سسٹم موجود ہے جس کے تحت ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے جو ایسے سکول چلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ سپیشل برانچ سے بھی ایسے سکول چلانے والوں اور ان سکولوں کا وزٹ کرنے والوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘

’لیکن پولیس یہ کام اس وقت ہی کرے گا جب متعلقہ محکمہ انھیں ایسا کرنے کے لیے کہے گا کیونکہ پولیس اپنے تئیں کسی کے کوائف کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتی۔‘

گوجرانوالہ کے سکول میں کینٹین والے پر بچیوں کے ریپ کا الزام: ’بیٹی نے چیخ کر کہا کہ میرے قریب نہیں آنا مجھے ڈر لگتا ہے‘قصور ریپ کیسز: عائشہ سے زینب تکانڈیا میں سیکس کے لیے ’رضامندی کی عمر‘ پر بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟قصور ویڈیوز سکینڈل کے ملزمان بری: کیا ایسا ہو سکتا ہے اصل ملزم کبھی گرفتار ہی نہ ہوا ہو؟روچ ڈیل گرومنگ: ’12 سال کی عمر سے میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا‘جعفرآباد کے سکول میں بچوں کا مبینہ ریپ، پرنسپل اور ہاسٹل وارڈن گرفتار: ’میرے بیٹے کی وجہ سے دوسرے بچے بچ گئے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More