Getty Imagesدارالحکومت دلی میں را کا ہیڈکوارٹر
سنہ 1965 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان 22 روزہ جنگ فیصلہ کن نتجے کے بغیر ختم ہو گئی۔ انڈیا کو برتری حاصل ضرور تھی لیکن انڈیا کے پاس یہ خفیہ معلومات نہیں تھیں کہ پاکستان کے پاس ہتھیاروں کی کس حد تک کمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 22 ستمبر کو، جس دن جنگ بندی کا اعلان ہوا، پاکستان کا تقریباً تمام اسلحہ ختم ہو چکا تھا۔
انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سبراہ سنکرن نایر اپنی کتاب ’انسائڈ آئی بی اینڈ را: دی رولنگ سٹون دیٹ گیدرڈ ماس‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل جے این چودھری نے وزیر دفاع یشونت راؤ چوان کو اطلاع دی کہ ’فوج نے پاکستان پر فیصلہ کن فتح اس لیے حاصل نہیں کی کہ ہمارے پاس درست انٹیلی جنس معلومات نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ معلومات اکٹھی کرنے کی ذمہ داری آئی بی کے نااہل جاسوسوں کو دی گئی تھی۔‘
اس تنقید کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انڈیا نے ایک نئی انٹیلیجنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (آر اے ڈبلیو یعنی را) قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی ذمہ داری ملک سے باہر انٹیلی جنس جمع کرنا تھی۔
رشتہ داروں اور ساتھیوں کی ویلفیئر ایسوسی ایشن
را کا قیام 21 ستمبر سنہ 1968 کو ہوا اور رامیشور ناتھ کاؤ کو اس کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ سنکرن نائر کو ان کا نمبر 2 بنایا گیا۔
ان دونوں کے علاوہ 250 افراد کو انٹیلی جنس بیورو سے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ میں منتقل کیا گیا۔
سنہ 1971 کے بعد رامیشور ناتھ کاؤ نے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے براہ راست را کے ایجنٹوں کو منتخب کرنے کی روایت شروع کی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ را میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کے رشتہ داروں اور دوستوں کو تنظیم میں نوکریاں مل گئیں اور اسے مذاق میں ’رلیٹیوز اینڈ ایسوسی ایٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ کہا جانے لگا۔
لیکن سنہ 1973 کے بعد یہ روایت بدل گئی اور براہ راست بھرتی ہونے والوں کو سخت مقابلے اور طرح طرح کے امتحانات سے گزرنا پڑا۔
نتن گوکھلے اپنی کتاب ’آر این کاؤ، جنٹلمین سپائی ماسٹر‘ میں لکھتے ہیں: ’پہلا امتحان ایک نفسیاتی امتحان تھا۔ امیدواروں کو صبح تین بجے ایک جگہ پر آنے کو کہا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی ان کا آبجیکٹو ٹائپ ٹیسٹ لیا گیا۔ ٹیسٹ پاس کرنے والوں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا جو ایک جوائنٹ سیکرٹری نے کروایا۔‘
جے دیو راناڈے سنہ 1973 میں را کے لیے منتخب ہوئے تھے اور ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: ’انٹرویو کا اگلا دور را کے سینیئر افسران این این سنتوک اور سنکرن نائر نے کیا۔ منتخب ہونے کے بعد ہمیں چھ رکنی سلیکشن کمیٹی کا سامنا کرنا پڑا جس میں سیکرٹری خارجہ، را چیف آر این کاؤ اور ایک ماہر نفسیات شامل تھے۔ میرا انٹرویو 45 منٹ تک جاری رہا۔‘
دو ماہ بعد راناڈے کو اطلاع ملی کہ وہ را میں منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کے ساتھ تین دیگر افراد پرتاپ ہیبلیکر، چکرو سنہا اور بیدھن راول کو بھی منتخب کیا گیا۔
را کے سپیشل سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے رانا بنرجی کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد سنہ 1985 سے 1990 کے درمیان را میں اس طرح کچھ اور لوگ بھرتی کیے گئے، جس کی وجہ سے سپیشل سروس کا قیام عمل میں آیا۔ بعد میں یہ تجربہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر روک دیا گیا۔ اب 95 فیصد سے زیادہ لوگوں کا انتخاب انڈین پولیس سروس سے کیا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو کسٹمز اور انکم ٹیکس سروسز سے اکنامک انٹیلی جنس کے کام کی دیکھ بھال کے لیے لیا جاتا ہے۔‘
BBCرا کے سابق سیکریٹری رانا بنرجیآئی پی ایس سے بھرتی پر سوال
اس انتخابی عمل کو را کے بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
را کے سابق سربراہ وکرم سود اپنی کتاب ’دی ان انڈنگ گیم‘ میں لکھتے ہیں: ’جب کوئی شخص پولیس سروس میں افسر بنتا ہے، اس کی اوسط عمر 27 سال ہوتی ہے۔ اگر وہ تین سال کے بعد را میں آتا ہے تو اس کی عمر 30 یا اس سے زیادہ ہوگی۔ اس عمر میں اس کے لیے خود کو نئے پیشے میں ڈھالنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت وہ زیادہ خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتا ہے۔‘
وکرم سود لکھتے ہیں: ’پولیس سروس سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لوگوں کو لینا اب اتنا موثر نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جہاں لسانی مہارت اور معلومات نکالنے کا فن بہت اہم ہے، جس کے لیے پولیس اہلکاروں کو تربیت نہیں دی جاتی۔ انھیں اقتصادی، سائبر، سائنسی اور سٹریٹجک شعبوں میں بھی ماہر ہونا ضروری ہے، جس کی تربیت کسی آئی پی ایس افسر کو نہیں دی جاتی ہے۔‘
را کے افسران کی تربیت
منتخب افراد کو انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنے کے لیے بنیادی تربیت دی جاتی ہے جس کے بعد انھیں فیلڈ انٹیلی جنس بیورو میں رکھا جاتا ہے جہاں انھیں سخت سردی میں کام کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔
دراندازی کیسے کی جائے، پکڑے جانے سے کیسے بچا جائے، سوالات کے جوابات اور نئے رابطے کیسے قائم کریں وغیرہ سکھایا جاتا ہے۔
میدان میں جانے سے پہلے انھیں ’کراوماگا‘ میں اپنے دفاع کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ اسرائیلی مارشل آرٹ کی ایک قسم ہے جس میں دوبدو لڑائی کے لیے غیر روایتی حربے سکھائے جاتے ہیں۔
رانا بنرجی بتاتے ہیں: ’بیرون ملک جانے سے پہلے انھیں اور بھی ایسی چیزیں سکھائی جاتی ہیں جو بعد میں کام آئیں گی۔‘
’جیسے کسی زمانے میں ’ڈیڈ لیٹر باکس‘ کا چرچا تھا۔ آپ کاغذ کو درخت کی جڑ کے پاس رکھیں گے۔ دوسرے اسے وہاں سے لے جائیں گے۔ رکھنے اور لینے کے عمل میں نشانات لگانے پڑتے ہیں۔ کوڈ لینگویج لکھنا بھی سکھایا جاتا ہے۔‘
Getty Imagesرا کے ایجنٹس کو بھی اکثر انڈین سفارتخانوں میں تعینات کیا جاتا ہےسفارت خانوں میں ’خفیہ‘ تعیناتی
دنیا کے تمام ممالک بیرون ملک اپنے سفارت خانوں کو جاسوسی کے اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
بیرون ملک انڈین سفارت خانوں میں بھی اکثر را کے ایجنٹ تعینات ہوتے ہیں۔ کئی بار انھیں فرضی ناموں سے باہر بھیجا جاتا ہے۔
صحافی یتیش یادو اپنی کتاب ’را اے ہسٹری آف انڈیاز کوورٹ آپریشنز‘ میں لکھتے ہیں: ’اس کے پس پشت وجہ یہ ہے کہ ان کے اصل نام سول سروسز کی فہرست میں ہیں۔ ایک بار را میں کام کرنے والے وکرم سنگھ کو وشال پنڈت کے بھیس میں ماسکو جانا پڑا۔ ان کے خاندان کے افراد کو بھی اپنی جگہ بدلنی پڑی۔ غیر ملکی پوسٹنگ کے دوران اگر ان کے گھر بچہ پیدا ہوا تو اس کی کنیت بھی جعلی رکھی گئی جو عمر بھر اس کے ساتھ لگی رہی۔‘
را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دُلت ایک دلچسپ کہانی سناتے ہیں: ’ہمارا ایک کشمیری دوست ہاشم قریشی ہے جس نے پہلی بار انڈین طیارہ ہائی جیک کیا۔ وہ مجھے ملک سے باہر کہیں ملا۔ ہم نے مصافحہ کیا تو میں نے کہا میرا نام دُلت ہے۔ وہ کہنے لگا، ٹھیک ہے۔ براہ کرم مجھے اپنا اصلی نام بتائیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہاں سے لاؤں؟ یہ اصل نام ہے۔ بعد میں اس نے کہا کہ تم وہی ہو جس نے اپنا اصل نام بتایا۔‘
سمارٹ فون، جاسوسی کے سافٹ ویئر اور ’ایم کامل‘: اسرائیل کیسے لبنان میں گاڑیوں یا عمارت کے اندر موجود اپنے ہدف کی بھی نشاندہی کر لیتا ہے؟آئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے اور تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟نازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاںچار ملین ڈالر کا مکان، فراری اور ’خصوصی بطخ‘: امریکی عہدیدار جن پر چینی جاسوس ہونے کا الزام ہےBBCریحان فضل کے ساتھ امرجیت سنگھ دلتشناخت ظاہر ہونے اور ملک بدری کا خوف
اس سب کے باوجود پہچانے جانے اور شناخت ظاہر ہونے کا خوف ہمیشہ رہتا ہے۔ پیشہ ور جاسوس بہت جلد پہچانے جاتے ہیں۔
رانا بنرجی بتاتے ہیں: ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک سفارتی پروٹوکول ہے کہ انٹیلی جنس کاروبار میں شامل لوگوں کے نام جو ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں، اس ملک کو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔ یہ طے ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بدتمیزی نہیں کریں گے۔ اگر کوئی حد سے بڑھ کر کام کرتا ہے تو اسے واپس بلا لیا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’برطرف کیے جانے کا خوف ہمیشہ رہتا ہے۔ اگر کوئی تین سال کی پوسٹنگ پر جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرتا ہے لیکن اگر چھ ماہ بعد اسے فوری طور پر ملک چھوڑنے کو کہا جائے تو یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے۔‘
Getty Imagesآئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانیرا اور آئی ایس آئی کا موازنہ
آئی ایس آئی پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے، اس لیے را کا اس سے موازنہ کرنا فطری ہے۔
را کے سابق سربراہ وکرم سود اپنی کتاب ’دی ان انڈنگ گیم‘ میں لکھتے ہیں: ’اگر دونوں ایجنسیوں کا موازنہ کیا جائے تو را کے پاس گرفتاری کا حق نہیں ہے۔ نہ آدھی رات کو دستک دیتی ہے، را ملک کے اندر جاسوسی بھی نہیں کرتی جبکہ یہ سب آئی ایس آئی کرتی ہے۔‘
’را ملک کے وزیراعظم کو جوابدہ ہے جبکہ آئی ایس آئی آرمی چیف کو رپورٹ کرتی ہے۔ حالانکہ کاغذ پر یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو رپورٹ کرتی ہے۔‘
آئی ایس آئی کی تاریخ را سے بہت پرانی ہے۔ اس کی بنیاد 1948 میں برطانوی فوج میں کام کرنے والے ایک آسٹریلوی افسر میجر جنرل والٹر جوزف نے رکھی تھی۔
را کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کہتے ہیں کہ ’آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کہتے تھے کہ آپ کے را والے ہم سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ ہمارے ہاں آنے والے زیادہ تر فوجی ہوتے ہیں، زیادہ شور مچاتے ہیں۔‘
’میں یہ بھی اندازہ لگاتا ہوں کہ ہم بھی آئی ایس آئی سے کم نہیں۔ پاکستان میں بھی مجھ سے یہی سوال پوچھا گیا۔ میں نے جواب دیا کہ اگر درانی صاحب کہتے ہیں کہ ہم بہتر ہیں تو میں مانوں گا لیکن میں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایس آئی بہت بڑی ایجنسی ہے۔ کاش میں اتنی بڑی ایجنسی کا چیف ہوتا۔‘
BBCسابق افسر رانا بنرجیرا اور آئی ایس آئی کے درمیان مقابلے
را اور آئی ایس آئی کے درمیان مقابلے کی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔
رانا بنرجی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں 1984 سے 1988 تک پاکستان میں تعینات رہا۔ آئی ایس آئی والے ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ ان کی شفٹ صبح ساڑھے سات بجے سے شام آٹھ بجے تک ہوتی تھی۔‘
بنرجی یاد کرتے ہیں: ’ہمیں ٹریننگ دی گئی تھی کہ آپ کو مانیٹر میں موجود خلا کو دیکھنا ہے اور پھر اس کے مطابق اپنا کام کرنا ہے۔ ایک بار جب وہ میرا پیچھا کر رہے تھے، میں نے ڈائیورژن والا راستہ اختیار کیا اور اپنی گاڑی روک دی۔‘
’جب اس نے دیکھا کہ میری گاڑی نظر نہیں آ رہی تو اس نے اپنی گاڑی میرے گھر کی طرف موڑ دی۔ میں وہاں نہیں تھا۔ واپسی پر اس نے مجھے اپنی گاڑی میں آتے دیکھا تو میں نے اسے تنگ کرنے کے لیے ہاتھ ہلایا۔ اس پر وہ بہت ہنسا۔‘
را کے افسر کا کوپن ہیگن تک پیچھا
را کے سابق سربراہ سنکرن نائر اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ’سنہ 1960 اور 70 کی دہائیوں میں خان عبدالغفار خان کے بیٹے ولی خان لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ بھٹو کے سخت مخالف تھے اور بھٹو پاکستان کے نئے وزیراعظم بنے تھے۔ وہ اندرا گاندھی کو سیاسی اور اخلاقی حمایت کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ مجھے ان سے ملنے کو کہا گیا۔‘
نائر لکھتے ہیں: ’یہ ملاقات کسی اور ملک میں ہونی تھی کیونکہ لندن میں پاکستانی سفارت خانہ بھی ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ میں پہلے لندن اور پھر وہاں سے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن گیا۔ جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے میز پر کچھ لوگوں کو اردو بولتے ہوئے سنا۔ مجھے شبہ تھا کہ وہ لوگ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔‘
’میرا شک اس وقت یقین میں بدل گیا جب وہ ناشتہ چھوڑ کر راہداریوں میں مجھے اور ولی خان کو ڈھونڈنے لگے۔‘
نائر نے فوراً ملاقات کی جگہ بدلی اور ولی خان کو ان کی پسندیدہ مٹھائی کے سی داس کے رس گلوں کا ایک ٹین پیش کیا، جس سے وہ بہت خوش ہوئے۔
انڈیا واپس آنے کے بعد نائر نے ولی خان کا پیغام وزیر اعظم اندرا گاندھی کو دیا۔
گفتگو کو ٹیپ کرنے کی کوشش
پاکستان میں را کے جاسوسوں کے فون ہمیشہ ٹیپ کیے جاتے تھے۔
رانا بنرجی ایک اور کہانی سناتے ہیں: ’اسلام آباد میں ہمارا ایک ویٹر ہوا کرتا تھا۔ وہ اینگلو انڈین عیسائی تھا۔ اس کی ایک کمزوری تھی کہ جب بھی وہ شراب پیش کرتا تو پیش کرنے سے پہلے چند گھونٹ پیتا۔‘
’اسے روکنے کے لیے ہم کہتے تھے کہ پارٹی ختم ہونے کے بعد ہم آپ کو ایک مشروب دیں گے جسے آپ اپنے گھر بھی لے جا سکتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں مانتا۔‘
یہی وجہ تھی کہ بنرجی ان پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’ایک بار میں نے دیکھا کہ وہ عجیب انداز میں کھڑا ہے اور میز کے نیچے پاؤں سے کچھ کھسکا رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ ایک چھوٹی ماچس کی ڈبیا کی طرح ہے۔ دراصل وہ کھانے کے کمرے میں ’ہیئرنگ ڈیوائس‘ لگا رہا تھا۔ میں نے وہ آلہ بند کر دیا اور اسے ایک طرف رکھ دیا۔ پارٹی ایسے چلتی رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اگلے دن ہمارے سفیر نے پاکستان کی وزارت خارجہ سے اس کی شکایت کی۔‘
Getty Imagesآئی سی-814تنقید اور گمنامی
سنہ 1999 میں را کی اس وقت بدنامی ہوئی جب قندھار ہائی جیک کے بعد انڈیا کو تین خطرناک انتہا پسندوں کو رہا کرنا پڑا۔ یہی نہیں اس وقت کے را چیف اے ایس دُلت، مسعود اظہر اور مشتاق احمد زرگر کو اپنے طیارے میں سری نگر سے دہلی لائے جہاں سے اس وقت کے وزیر جسونت سنگھ انھیں اپنے ساتھ قندھار لے گئے۔
جس طرح آئی سی-814 طیارے کو امرتسر سے لاہور تک پرواز کی اجازت دی گئی اس پر بھی کافی تنقید کی گئی۔
دنیا کے دیگر جاسوسوں کے برعکس را کے جاسوسوں کے سینے پر کبھی کوئی تمغہ نہیں سجایا گیا۔
یتیش یادیو اپنی کتاب ’را اے ہسٹری آف کوورٹ آپریشنز‘ میں لکھتے ہیں: ’کارگل جنگ کے بعد را کے وہ لوگ خاموش کھڑے رہے جنھوں نے اس جنگ میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو کھو دیا تھا۔‘
’رحمان نامی ایک جاسوس نے را کے اعلیٰ حکام سے کہا کہ وہ ملک کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کی قربانی کا سرعام اعتراف کریں جب یہ تحویز اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری برجیش مشرا کے پاس پہنچی تو انھوں نے اس کی مخالفت کی۔‘
یتیش یادو لکھتے ہیں: ’کسی نہ کسی طرح یہ خبر اٹل بہاری واجپئی تک پہنچ گئی۔ را کے ان 18 افسران کے نام اور کارگل جنگ میں ان کے کارناموں کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے ایک بند ہال میں بلند آواز سے پڑھ کر سنایا گیا۔ را کی تاریخ میں پہلی بار ان جنگجوؤں کو خصوصی تمغوں سے نوازا گیا، واجپئی نے را کے اعلیٰ عہدیداروں سے مصافحہ کیا اور ان گمنام ہیروز کی قربانی پر اظہار تشکر کیا۔ اس تقریب کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اگلے دن کے اخبارات میں اس کی کوئی تفصیلات شائع کی گئیں۔‘
’کار سپیکر میں چھپا ٹرانسمیٹر۔۔۔‘ وہ خفیہ مقام جہاں برطانوی جاسوسوں کے لیے خصوصی آلات بنتے ہیںوہ معروف صحافی جن کا 35 سال تک روسی خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے کا راز اُن کی موت کے بعد فاش ہواجاسوس سیٹیلائٹس کی دوڑ: ’انڈیا اب بھی چین سے ایک دہائی پیچھے ہے‘برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سِکس نے جاسوسی کے لیے ایک چینی جوڑے کو بھرتی کیا، چین کا الزامجرمنی میں قید اِس قاتل کی رہائی اور روس واپسی کے لیے صدر پوتن اتنے بےچین کیوں ہیں؟آپریشن ’ییلو برڈ‘: جب چین میں حکومتی مخالفین کو ’پارسل‘ کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا