’یہ کیس میری روح پر بوجھ بن گیا‘: 21 برس سے قید شخص جسے اس جرم میں سزائے موت ہوئی ’جو ہوا ہی نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2024

اگر رابرٹ رابرسن کے وکیل یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ وہ معافی کے مستحق ہیں تو کچھ ہی دن میں ان کی سزائے موت پر عملدرآمد ہو جائے گا۔

رابرسن کو اپنی بیٹی نکی کی موت کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ دو برس کی نکی 31 جنوری 2002 کو اپنے والد کے بازوؤں میں ہسپتال بے ہوشی کی حالت میں پہنچی تھیں اور اسی حالت میں ہی دم توڑ گئی۔

ڈاکٹروں کے مطابق نکی کی موت کی وجہ دماغ کی ایک سنگین چوٹ ’شیکن بے بی سنڈروم‘ (Shaken baby syndrome) بنی، جو دو سال سے کم عمر کے بچے کو زبردستی بہت زیادہ ہلانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس سے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

جیوری کو یقین ہو گیا کہ رابرسن ہی اس کے ذمہ دار تھے کیونکہ نکی کی موت کی تحقیقات کرنے والے برائن وارٹن نے مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا تھا کہ رابرٹ رابرسن نے اپنی بیٹی کی موت پر کوئی خاص ردعمل یا جذبات کا اظہار نہیں کیا۔

نکی کی موت کے وقت رابرسن کی عمر 35 سال تھی۔ وہ سنگل پیرنٹ تھے اور دو ماہ قبل ہی انھوں نے نکی کی کسٹڈی حاصل کی تھی۔

نکی کی موت کے ایک سال بعد 21 فروری 2003 کو ٹیکساس میں رابرسن کو سزائے موت سنائی گئی۔

سنہ 2018 میں 15 سال جیل میں گزارنے کے بعد رابرسن میں آٹزم کی تشخیص ہوئی۔

یہ بھی پڑھیےسزائے موت کے قیدی محمد انور جو تختہ دار تک پہنچنے کے بعد رہا ہوئے’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گیسعودی عرب میں خفیہ سزائے موت: ’دفنانے کے لیے لاش ہے، نہ فاتحہ کے لیے قبر‘’اگر میں ہی رونے لگا تو باپ بیٹی کے درمیان ہوئے وعدے پورے نہ ہو سکیں گے‘گورنر سے معافی کی اپیل

اب رابرسن کی عمر اب 57 سال ہے اور رواں برس 17 اکتوبر کو انھیں پھانسی دے جائے گی۔

رابرسن کے وکلا نے معافی کی درخواست دائر کر رکھی ہے تاکہ امریکی ریاست ٹیکساس کے گورنر ان کی سزائے موت کو ختم کر دیں۔

وکلا کا مقصد صرف رابرسن کی پھانسی کو روکنا ہی نہیں ہے بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے۔

وکلا کی پٹیشن کے مطابق ’رابرٹ رابرسن بے قصور ہیں۔ ایسا نہیں کہ اس جرم میں کسی غلط شخص کو سزا دی جا رہی ہے بلکہ ایک ایسے جرم کا الزام لگایا گیا جو اصل میں ہوا ہی نہیں۔‘

تاہم اگر یہ درخواست مسترد ہو جاتی ہے اور سزا پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو رابرٹ رابرسن امریکہ میں ’شیکن بے بی سنڈروم‘ (Shaken baby syndrome) کی وجہ سے سزائے موت پانے والے پہلے شخص ہوں گے۔

کیس میں تین غلطیاں

معافی کی درخواست میں اس کیس میں ان تین غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو رابرٹ کے وکلا کے مطابق ان کی بے گناہی ثابت کریں گی۔

پہلی غلطی یہ کہ ڈاکٹروں نے ’ڈبل نمونیا‘ کی علامات پر غور کیے بغیر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نکی کی موت ’شیکن بے بی سنڈروم‘ سے ہوئی کیونکہ بے ہوش ہونے سے پہلے نکی کو 40 ڈگری بخار تھا۔

معافی کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اب ہم جانتے ہیں کہ نکی کے پھیپھڑے شدید متاثر ہوئے تھے اور بے ہوش ہونے سے پہلے وہ کئی دن سے آکسیجن کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔‘

ایک نئے پوسٹ مارٹم میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کے جمع کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ نکی دو قسم کے نمونیا (انٹرسٹیشل وائرل اور سیکنڈری ایکیوٹ بیکٹیریل) میں مبتلا تھی، جس سے اس کے پھیپھڑے پھٹ گئے تھے۔

درخواست کے مطابق ڈاکٹروں نے اس وقت اس بات پر غور نہیں کیا کہ نکی کی میڈیکل ہسٹری میں ’انفیکشنز شامل ہیں اور کئی اینٹی بائیوٹکس سے ان کا علاج نہیں کیا جا سکا۔

اس کیس میں رابرٹ کے وکیل کا دوسرا الزام یہ ہے کہ حکام نے ’ڈاکٹروں کے مفروضوں کو درست تسلیم کیا اور اس معاملے کی مزید تفتیش نہیں کی۔‘

رابرٹ کے وکیل کے مطابق نکی جب ہسپتال میں مر رہی تھیں تو رابرٹ کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا اور پھر انھیں حراست میں لے لیا گیا۔

دستاویز میں سائنسی شواہد کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نکی میں موجود علامات دیگر وجوہات سے بھی منسوب ہو سکتی ہیں، جیسے کہ نمونیا جس سے دماغ میں آکسیجن کی ترسیل رک جاتی ہے اور اس سے موت واقع ہو سکتی ہے۔

جیل میں رابرسن کی قید کے دوران ’شیکن بے بی سنڈروم‘ نے اپنی وہ سائنسی ساکھ بھی کھو دی ہے، جس کی وجہ سے اسے مجرمانہ مقدمات میں ٹھوس ثبوت سمجھا جاتا تھا۔

تیسری غلطی یہ کہ طبی عملے اور پولیس نے رابرسن کے ردعمل کی غلط انداز میں تشریح کی۔

’انھوں نے رابرٹ کے غیر اعصابی رویے، جو آٹزم کی وجہ سے ہے، کو نکی کی موت پر جذبات کی کمی کے طور پر دیکھا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔‘

معافی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’نکی کی موت کوئی جرم نہیں تھا۔ والدین اکثر پیچیدہ طبی مسائل کی وضاحت نہیں کر سکتے جو کبھی کبھی تربیت یافتہ طبی پیشہ ور افراد بھی نہیں سمجھ سکتے۔‘

’دل اور روح پر بوجھ‘

رابرسن کے خلاف گواہی دینے والے برائن وارٹن نے دو دہائیوں بعد تسلیم کیا کہ پوری کارروائی بے بنیاد تھی۔

گذشتہ برس برطانوی اخبار ’دا گارڈیئن‘ کو ایک انٹرویو میں برائن وارٹن نے بتایا کہ ’کوئی کرائم سین یا فرانزک ثبوت نہیں تھا۔ صرف تین الفاظ تھے’شیکن بے بی سنڈروم‘۔

وارٹن جنھوں نے بعد میں اپنا پولیس کیرئیر چھوڑ دیا، اب ایک چرچ میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف رابرسن کی معافی کی درخواست پر دستخط کیے بلکہ معافی مانگنے کے لیے جیل میں رابرسن سے ملاقات بھی کی۔

امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی دستاویزی فلم کے ایک سین میں آپ وہ لمحہ دیکھ سکتے ہیں جب وارٹن جیل میں رابرسن کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور شیشے کے آر پار بات کرنے کے لیے فون استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

وہ رابرسن کو کہتے ہیں کہ ’مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ یہاں ہیں۔ آپ ابھی تک یہیں ہیں۔ یہ ہماری غلطی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے غلطی کی۔‘

برسوں بعد رابرسن کے وکیل، وارٹن کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ رابرسن میں آٹزم کی تشخیص ہوئی ہے، جس سے رابرٹ کو اندازہ ہوتا ہے کہ نکی کی موت کے وقت ان کا رویہ جذبات سے خالی کیوں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کیس میرے دل اور روح پر بوجھ بن گیا۔‘

فلم کے سین میں وارٹن سے بات کرتے وقت قیدی ہکلاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’میں اسے واپس لانے کے لیے کچھ بھی کروں گا۔‘

اس گفتگو کے اختتام پر وارٹن، رابرسن سے یہ پوچھنے کی ہمت کرتے ہیں کہ وہ اپنی سزا کے ذمہ داران افراد سے کیا کہنا چاہیں گے؟

’میں بتانا چاہوں گا کہ میں آپ سب کو معاف کرتا ہوں۔ میں صرف امید اور دعا کرتا ہوں کہ ہم مل کر چیزیں ٹھیک کر سکیں۔‘

سعودی عرب میں بیٹے کو سزائے موت سے بچانے کے لیے ’خون بہا‘ کی رقم جمع کرتی ماں کی کہانیسزائے موت کے قیدی محمد انور جو تختہ دار تک پہنچنے کے بعد رہا ہوئے’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گیسعودی عرب میں خفیہ سزائے موت: ’دفنانے کے لیے لاش ہے، نہ فاتحہ کے لیے قبر‘وہ ماں جس نے ’مورفین دے کر اپنے سات سالہ بیٹے کی زندگی ختم کی‘’اگر میں ہی رونے لگا تو باپ بیٹی کے درمیان ہوئے وعدے پورے نہ ہو سکیں گے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More