آئینی ترمیم: کیا پیپلز پارٹی ’ججوں کی عمر کی حد‘ پر مسلم لیگ ن کے ساتھ ایک صفحے پر ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2024

Getty Images

پاکستان کی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوششیں کھٹائی میں پڑتی نظر آ رہی ہیں۔ جس کی وجہ تحریک انصاف اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کے بعد اہم حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’ججوں کی عمر کے معاملے میں چھیڑ چھاڑ سےلگے گا کہ ہم کسی خاص فرد کو عہدے سے باہر یا اندر رکھنا چاہتے ہیں جو نا مناسب ہو گا۔‘

گذشہ کئی دنوں سے حکومت اور اس کے اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقاتیں کرتے ہوئے نظر آئے تاکہ ترامیم منظور کروانے میں ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ لیکن یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ حکمراں جماعت کے پاس ان ترامیم کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کروانے کے لیے عددی اکثریت موجود نہیں ہے۔

خیال رہے کسی بھی آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 64 اراکین کی حمایت۔

بدھ کو جمعیت علمائے اسلامکے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے بیان کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا اہم حکومتی اتحادی ججوں کی عمر کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں ہیں؟ مگر اس سوال کے جواب کی جانب بڑھنے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے اپنے بیان میں کیا کہا اور آئینی ترامیم کے حکومتی مسودے میں ہے کیا۔

بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کے اعتراضاتGetty Imagesبلاول بھٹو زرداری نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت ججوں کی عمر سے متعلق تبدیلیاں کرنا چاہتی تھی

بدھ کے روز پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے مجوزہ آئینی ترمیم میں ججوں کی عمر کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت ججوں کی عمر سے متعلق تبدیلیاں چاہتی تھی۔

پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کے اجلاس میں مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق تبادلہ خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ججوں کی ملازمت کی ابتدا کی عمر کی حد کم کرنے کی حمایت کی جس پر حکومت نے اتفاق کیا اور اسے مسودے میں شامل کیا گیا۔

بلاول کا کہنا تھا کہ حکومت نے چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ عمر 67 سال کرنے کی تجویز دی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام ججوں کی موجودہ عمر کی حد 65 سال برقرار رکھنے کے حق میں تھی۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا، ’میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس منصور علی شاہ اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ آئینی ترامیم کا زیرگردش مبینہ مسودہ اصل نہیں ہے۔

خیال رہے کہ پیر کی شب حکومتی جماعتوں کی جانب سے بظاہر 26ویں آئینی ترمیم کے لیے پارلیمانی اکثریت کے حصول میں ناکامی کے بعد آئینی ترامیم کی منظوری کا معاملہ مؤخر کر دیا گیا تھا اور اس معاملے پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے لیے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو چنا گیا تھا۔

مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت آئینی عدالتوں کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت اور پی پی پی کے منشور کی رُو سے ان کی جماعت مجوزہ ترمیم میں آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک اصولی موقف ہے اور وہ فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کرتی۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی سمجھتی ہے کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے قانون سازی ضروری ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ اس پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ قومی سلامتی کا اجلاس بلایا جائے۔

پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟آئینی ترامیم اور مولانا فضل الرحمان: 13 نشستوں والی جماعت حکومت اور تحریک انصاف کے لیے اتنی اہم کیوں؟سپریم کورٹ میں ’تقسیم‘: وہ کیس جس نے پاکستان میں نئے بحران کو جنم دیاپارلیمنٹ کی غلط فہمی اور سپیکر کی معاملہ فہمی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63A کے فیصلے نے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت سمجھتی ہے کہ اراکین پارلیمان کو پہلے کی طرح نہ صرف اپنی مرضی سے ووٹ دینے کا حق ہونا چاہیے بلکہ ان کا ووٹ شمار بھی ہونا چاہیے۔

جبکہ اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر کے گھر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے آئینی ترمیم کے مسودے کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اب یہ کہہ رہی ہے کہ ان کا کوئی ہے ہی نہیں لیکن جو مسودہ فراہم کیا گیا وہ کیا تھا؟‘

’مسودہ کسی کو دیا گیا اور کسی کو نہیں یہ کیا کھیل تھا؟ لیکن جو کچھ بھی ہمیں دیا گیا ہمارے لیے وہ کسی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہم اس ترمیم اور مسودے پر حکومت کا ساتھ دیتے تو قوم کے ساتھ اس سے بڑی اور کوئی خیانت نہیں ہو سکتی تھی۔‘

مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟Getty Imagesکسی بھی آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہے

بی بی سی اردو کو دستیاب آئینی بِل کے مسودے میں حکومت کی جانب سے مجموعی طور پر 54 تجاویز دی گئی ہیں۔

ان تمام تجاویز میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 68 برس کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور یہی وہ تجویز ہے جس پر پی پی پی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔

اس کے علاوہ آئینی ترامیم کے مسودے میں چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد تین برس کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے مسودے میں ایک آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے، جس پر کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی راضی ہے اور اس کی حمایت بھی کرتی ہے۔

اس بِل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف کسی بھی قانون سازی یا بِل پر ووٹ دینے والے رُکن پارلیمان کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔

آئینی ترمیمی بِل میں ہائی کورٹس سے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات واپس لینے اور ایک ہائی کورٹ کے جج کا دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔

حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

’ہمارے درمیان زیر بحث معاملہ عمر کی حد نہیں آئینی عدالت ہے‘Getty Images

پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے آئینی ترمیم میں ججوں کی عمر سے متعلق جو بیان دیا ہے پارٹی اس موقف کی تائید کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ پیپلز پارٹی اور حکومت آئینی ترمیم کے بارے میں ایک پیج پر نہیں البتہ کچھ نکات ہیں جو زیر بحث ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ میڈیا میں جو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی ججوں کی عمر سے متعلق نکتے پر اعتراض کر رہی ہے درحقیقت حکومت نے آئینی ترمیم کے مسودے میں اس کو شیئرکیا تھا اور پیپلز پارٹی نے ابتدا میں ہی ججوں کی عمر کی حد سے متعلق چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا کہا تھا۔

نوید قمر نے کہا کہ ’حکومت کی جو تجویز دی کہ ججوں کی مدت ملازمت کی عمر بڑھانی چاہیے اسے پارٹی نے رد کر دیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان زیر بحث معاملہ ججوں کی عمر نہیں بلکہ آئینی عدالتوں کا معاملہ ہے۔ اور اس معاملے میں ججوں کی عمر کی حد کا کوئی تعلق نہیں بلکہ پارٹی کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر حکومت کسی آئینی معاملے پر عدالت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے توآئین کی تشریح کے لیے ایک علیحدہ خصوصی آئینی عدالت قائم کی جائے۔

انھوں نے میڈیا میں زیر گردش آئینی ترمیمی مسودے کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی ایک مسودہ نہیں ہے بلکہ کئی مسودے ہیں اور ابھی یہ معاملہ زیر غور اور زیر بحث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ججوں کی عمر کی حد بڑھانے کی بجائے ایک آئینی عدالت کا قیام کیا جائے اس میں جج کی تعیناتی ایک مدت کے لیے ہوں نہ کی عمر کی حد کے تحت ہو۔

’ہم اور بلاول سمجھے کہ مولانا قائل ہو گئے ہیں‘Getty Imagesبلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت نے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کے اضافے کی تجویز دی تھی

حکمراں جماعت ن لیگ کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ’آئینی ترمیم کو مسودہ وہی ہوگا جس پر مسلم لیگ ن، پپپلز پارٹی، دیگر اتحادی جماعتیں اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اتفاق کرے گی۔‘

’کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے اور مولانا کی جماعت کے بغیر درکار نمبر پورا نہیں ہوتا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ درکار اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت نے آئینی ترمیمی کے لیے جلد بازی سے کام کیوں لیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اطلاعات دی گئیں تھی، ہماری اور بلاول صاحب کی انڈرسٹینڈنگ یہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان قائل ہوگئے ہیں لیکن ان کے کچھ تحفظات تھے اور انھوں نے مزید وقت مانگا۔‘

’کچھ قوتیں بھی آئینی مسودے پر کام کر رہی ہیں‘

پاکستان کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والی صحافی عارفہ نور بھی کہتی ہیں کہ اس سارے معاملے میں سیاسی جماعتوں میں مشاورت اور رابطوں کا فقدان نظر آتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’یہ معاملہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ اس سے قبل آئینی ترمیم کے حوالے سے افواہیں تھیں، پھر صحافیوں کی رپورٹنگ، پھر کچھ وزرا نے بھی تصدیق کی اور پھر کہا گیا کہ بِل پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کے اراکین کو کہہ دیا گیا کہ وہ شہر سے باہر نہ جائیں۔‘

عارفہ نور کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں شکایت کر رہی ہیں کہ انھیں جو مسودہ ملا وہ الگ ہے تو ’شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کچھ دیگر قوتیں بھی آئینی ترمیم کے اس مسودے پر کام کر رہی تھیں۔‘

دوسری جانب سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ انھیں سینیٹ میں بطور ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر کہا گیا تھا کہ وہ اراکین کی سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کو یقینی بنائیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے نمبر کے حوالے سے کیلکولیشن میں غلطی نہیں کی لیکن ہم سے (آئینی ترمیم کی منظوری کے) وقت کے تعین کی کیلکولیشن کرنے میں غلطی ہوئی۔‘

وہ پرُامید ہیں کہ ’رواں مہینے کے اختتام یا اکتوبر کے شروع میں آئینی ترمیم کے بِل کے مسودے پر اتفاق کے بعد یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ 2006 میں میثاقِ جمہوریت ہوا تھا اور اس آئینی ترمیم میں معاملات آئینی عدالت کے قیام اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار کے گرد ہی گھومیں گے۔

لیکن یہاں یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے ایوانوں سے منظور کروانا اب بھی ممکن ہے؟

عارفہ نور اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ہوسکتا ہے ابھی بھی یہ آئینی ترمیم منظور ہوجائے لیکن کیا اس سے استحکام آئے گا یا اس سے لڑائیاں ختم ہوجائیں گی؟‘

’یہ آئینی ترمیم بھی ملک میں جاری سیاسی بحران کا نتیجہ ہے اور سیاسی مسائل سیاسی طور پر حل ہوتے ہیں۔ یہ ترمیم اگر منظور ہو بھی جاتی ہے تب بھی اسے کسی نہ کسی طریقے سے سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا جائے گا اور پھر حکومت اور عدلیہ کا ٹکراؤ جاری رہے گا۔‘

’عدالت حق تو دلوا سکتی ہے مگر اقتدار نہیں‘: وسعت اللہ خان کی تحریرپاکستانی پارلیمان چوہوں سے پریشان: ’چوہے اتنے موٹے تازے ہیں کہ شاید بلیاں بھی ان سے ڈر جائیں‘آئینی ترامیم: کیا حکومت کی کنپٹی پر کسی نے سائلنسر گن تانی ہوئی تھی؟عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More