ورثا کا توہین رسالت کے ملزم کے قاتل پولیس کانسٹیبل کو معاف کرنے کا اعلان: ’قبیلے نے معاف کیا ہے ریاست نے نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 19, 2024

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں توہین رسالت کے الزام میں زیرِ حراست ایک ملزم کو ہلاک کرنے والے پولیس اہلکار کو مقتول عبدالعلی کے قبیلے اور بیٹوں کی جانب سے معافی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ملزم عبدالعلی کو 11 ستمبر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خروٹ آباد تھانے کی پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا اور ان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج تھا تاہم تھانے کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی جس نے ملزم کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔

کوئٹہ پولیس کے ایک سینیئر افسر نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’مظاہرین کی بڑی تعداد کی وجہ سے ملزم غیرمحفوظ تھا اور اسے کینٹ پولیس سٹیشن منتقل کر دیا گیا جہاں تھانے کے ہی ایک پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے ملزم عبد العلی کو ہلاک کر دیا جس کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔‘

تاہم بدھ کے دن پولیس اہلکار کو مقتول عبدالعلی کے قبیلے کے افراد اور رشتہ داروں نے معافی دینے کا اعلان کرتے ہوئے مقدمے کی پیروی سے بھی دست برداری کا اعلان کیا۔

یہ اعلان نورزئی قبائل کے سربراہ فیض اللہ نورزئی نے توہین رسالت کے مقتول ملزم عبد العلی کے رشتہ داروں، بھائیوں اور دو بیٹوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ توہین رسالت کے ملزم کے فعل سے ان کے خاندان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ ’پولیس اہلکار کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ورثا ملزم کے کیس کی پیروی نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ گرفتار پولیس اہلکار اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان میں توہین مذہب کے معاملے میں ملزم کے خلاف قانون ہاتھ میں لیا گیا ہو۔ رواں برس جون میں خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں توہین قرآن کے الزام میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیاح کو مشتعل ہجوم نے پولیس کی حراست سے زبردستی نکال کر قتل کر دیا تھا۔

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

بی بی سی نے اس اعلان کے بعد پولیس سے رابطہ کیا تو کوئٹہ پولیس کے دو سینیئر پولیس اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔

ان میں سے ایک اعلی پولیس عہدیدار نے کہا کہ ’پولیس اہلکار کو ملزم کے رشتہ داروں اور قبیلے کے لوگوں نے معاف کیا ہے لیکن ریاست نے معاف نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھا جائے گا کہ قانون کیا کہتا ہے اور قانون کے مطابق ہی اس کیس کو ڈیل کیا جائے گا۔‘

دوسرے سینیئر پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’قاتل نے اعتراف جرم کیا جس کے بعد اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم کے رشتہ دار قاتل کو معاف کرنے کا بیان جب عدالت میں دیں گے تو اس کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ پولیس نے کیا کرنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’قاتل پولیس اہلکار کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جو کہ قابل راضی نامہ ہے تاہم اس سلسلے میں عدالت کی اجازت درکار ہوگی۔‘

وائرل ویڈیو ’چلتی گاڑی میں ریکارڈ کی گئی‘

عبدالعلی کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام کی وجہ بننے والی مبینہ ویڈیو ایک چلتی گاڑی میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ بی بی سی اس کے مواد کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق گاڑی عبدالعلی خود چلا رہے تھے اور اس دوران گاڑی میں سوار ایک شخص ان سے تحریک انصاف کے ایک رہنما کی گرفتاری پر ان کا ردِعمل پوچھتا ہے۔

اس گرفتاری پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اب لوگوں کو ہر علاقے میں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ حالات کو کس جانب لے جا رہے ہیں۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے اسی گفتگو کے دوران مذہبی اعتبار سے ’نازیبا‘ الفاظ کا استعمال کیا تھا۔

مدین میں توہینِ قرآن کے الزام میں سیاح کی ہلاکت اور مشتعل ہجوم کے حملے پر دو مقدمات درج: پولیسکیا ہم سب ایک دوسرے کو جلا دیں؟توہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟مشتعل ہجوم کا تھانے پر حملہ

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کوئٹہ میں جبل نورالقرآن کے قریب مغربی بائی پاس پر جمع ہو گئی تھی۔

لوگوں نے مغربی بائی پاس اور اسپنی روڈ پر ٹائر جلا کر ٹریفک کے لیے بند کر دی تھی اور وہ ملزم کی گرفتاری اور اسے سزا دینے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

تاہم ملزم کی گرفتاری کے بعد بھی مظاہرین منتشر نہیں ہوئے بلکہ خروٹ آباد پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہو گئے تھے اور وہ پولیس سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ایس پی صدر پولیس شوکت مہمند کے مطابق ’ہجوم کی جانب سے یہ غیر قانونی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے۔‘ انھوں نے ہجوم کے مطالبے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ اسے گرفتار بھی کیا گیا۔

ہجوم کی جانب سے تھانے پر پتھراؤ کیا گیا اور مشتعل افراد نے تھانے کے مرکزی دروازے کو توڑ کر تھانے کی حدود میں داخل ہونے کی بھی کوشش کی تھی جس پر ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔

مظاہرین کی جانب سے تھانے کا گھیراؤ اور اس پر پتھراؤ کا سلسلہ رات دیر تک جاری رہا اور اسی دوران ملزم کو کینٹ تھانہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

Getty Imagesپاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کیا ہیں؟

توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔

سنہ 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973 میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا) کو ملک کی مسلمان اکثریت سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔

برطانوی راج نے جو قوانین بنائے ان میں کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔

سنہ 1980 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں اضافہ کیا گیا۔ 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دے دیا گیا تھا جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔

سنہ 1982 میں ایک اور شق شامل کی گئی جس میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کی سزا پھانسی رکھ دی گئی۔ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید رکھ دی گئی۔

اس قانون کے معروف ناقد سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اس وقت توہین رسالت کے الزام میں قید آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات سے چند روزانھی کے محافظ ممتاز قادری نےسنہ 2011 میں قتل کر دیا تھا۔

توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن اکتوبر سنہ 2018 میں عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے ایک ماہ بعد مذہبی اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی جنھوں نے اس قانون کی مخالفت کی

Getty Imagesتوہین مذہب کے ملزمان کے خلاف ہجوم کے قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ملزم کو ہلاک کرنے یا تشدد کا نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

اس سے پہلے جون پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں توہین قرآن کے الزام میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیاح کو ایک ہجوم کی جانب سے تشدد کر کے قتل کر دیا گیا تھا اور بعد میں لاش کو آگ لگا دی تھی۔

اس سے قبل رواں برس مئی میں سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں ایک فیکٹری کے باہر زمین پر گرے مقدس اوراق کی نشاندہی پر کچھ ہی گھنٹوں میں حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے تھے کہ امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے گئے۔ اس واقعے میں بھی ملزم ہجوم کے تشدد کے باعث ہلاک ہو گیا تھا۔

رواں برس فروری میں لاہور میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون کو اچھرہ بازار میں دوران شاپنگ ان کے لباس کے ڈیزائن کی وجہ سے مشتعل ہجوم کی جانب سے توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔

ہجوم نے الزام عائد کیا تھا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھیں گئی ہیں۔

اس صورتحال میں اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی کی جانب سے بروقت کارروائی نے صورتحال کو نہ صرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکالنا ممکن بنایا۔

اگست سنہ 2023 میں پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزام میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔

سنہ 2021 میں اسی نوعیت کا واقعہ سیالکوٹ میں بھی پیش آیا تھا جب ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے سری لنکن شہری پریا نتھا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

اسی طرح صوابی سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا اور یونیورسٹی کے کچھ ملازمین پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم نے توہینِ رسالت کے الزامات لگانے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

مدین میں توہینِ قرآن کے الزام میں سیاح کی ہلاکت کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟توہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟کیا ہم سب ایک دوسرے کو جلا دیں؟توہین مذہب کے الزام کا خوف: ’لگتا ہے کسی بھی وقت کوئی ہمیں ختم کر دے گا‘’رؤف پڑھنے کے لیے تربت گیا تھا، توہین مذہب کے الزام اور قتل کا سوشل میڈیا سے پتا چلا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More