Getty Images
پچھلے 72 گھنٹوں میں اسلام آباد میں جو بھی تماشہ ہوا اس کے بعد پرفارمنگ آرٹس سے منسلک فنکار بالخصوص ٹریجڈی اور کامیڈی سے وابستہ آرٹسٹ اپنے روزگاری مستقبل کے بارے میں خاصے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس تماشے کے شایانِ شان کوئی جگت بھی چسپاں کرنے کو نہیں مل رہی۔
تھیٹر کی ایک تکنیک مائم (سوانگی) کہلاتی ہے۔ مثلاً سٹیج پر کسی بھی ایکشن، جذبے یا کردار کو محض جسمانی حرکات کی مدد سے یوں دکھانا کہ تماشائیوں تک اس کا پورا ابلاغ ہو جائے۔
جیسے دو کردار بنا تلوار محض پیروں، ہاتھوں اور بازؤوں کی حرکت سے شمشیر زنی کا بھرپور تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں یا مائیکروفون کے بغیر چہرے اور ہاتھوں کو ایسے استعمال کریں کہ تماشائیوں کو یقین ہو چلے کہ کوئی منجھا ہوا مقرر کسی جمِ غفیر سے خطاب کر رہا ہے۔ اس تکنیک کو ہی ’مائم‘ کہتے ہیں۔
مگر اس تھیٹریکل تکنیک کو بقول میرے جین زی صاحبزادے موجودہ مخلوط حکومت نے گزرے ویک اینڈ پر ’نیکسٹ لیول‘ تک پہنچا دیا۔
سرکاری فنکاروں نے پارلیمانی تھیٹر میں مائم کے ذریعے پارلیمینٹیرینز کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہتصور کر لیں گویا میرے ہاتھ میں آئینی ترامیم کا مسودہ ہے اور جیسے میں نے اسے آپ کو پڑھنے کے لیے دے دیا ہے اور اسے آپ نے جیسے پورا پڑھ لیا اور پھر اس کے حق میں واقعی ہاتھ بلند کر دیا اور یوں آئینی ترامیم کا یہ مائم پیکج کثرتِ رائے سے منظور ہو گیا ہے۔
مگر اس پرمشقت پرفارمنس پر تماشائیوں میں سے کسی نے سیٹی تو کیا تالی تک نہیں بجائی۔ چنانچہ سٹیج پر موجود اداکار جھینپ مٹانے کے لیے تماشائیوں کی جانب پشت کیے بغیرپھیکے پھیکے مسکراتے ہوئے اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کے پردے کے پیچھے ’نیویں نیویں‘ غائب ہو گئے۔
پردہ گرنے کے بعد غضب ناک ڈائریکٹر نے یقیناً ان کی خوب خبر لی ہو گی اور یہ کہتے ہوئے ایکٹ ٹو کی ریہرسل پر لگا دیا ہو گا کہ ویسے تو تم سب اپنے آپ کو بڑا پھنے خان کہتے ہو تم سے تو ایک ایکٹ بھی پورا پرفارم نہ ہو سکا بے عقلو۔
یعنی سنیچر اور اتوار کو کچھ یوں محسوس ہوا گویا میچ کی پوری تیاری ہو چکی ہے۔ سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہے، ٹیمیں آمنے سامنے ہیں، ریفری بے چینی سے فٹبال کا انتظار کر رہا ہے اور بے صبر میزبان ٹیم کا کپتان ریفری کے کان میں کہہ رہا ہے ’تسی گیم شروع کراؤ، فٹ بال آؤندہ رہوے گا۔‘
یہ بھی پڑھیےآئینی ترامیم اور مولانا فضل الرحمان: 13 نشستوں والی جماعت حکومت اور تحریک انصاف کے لیے اتنی اہم کیوں؟پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟مذہبی رہنما یا سیاسی جادوگر، مولانا آخر ہیں کون؟پارلیمنٹ کی غلط فہمی اور سپیکر کی معاملہ فہمی
کیا آپ نے کبھی سنا کہ میزبان مہمانوں سے کہے کہ فرض کر لیں آپ کو دعوت نامہ مل گیا۔ آگے سے مہمان اس کے سوا کیا کہے گا کہ آپ بھی پھر فرض کر لیں کہ ہم نے شادی میں شرکت کر لی۔
یا پھر پارلیمنٹ کو وہ سعادت مند دلہن سمجھ لیا جائے جس کے سر پر خاندان کے بوڑھے کھوسٹ سوار ہوں اور دلہن مکھی اڑانے کے لیے بھی سر کو جنبش دے تو اسے رضامندی سمجھ کے مبارک سلامت کا غوغا بلند ہو جائے۔
ہوابازی کی سائنس کے مطابق شہد کی مکھی (بمبل بی) کو اصولاً نہیں اڑنا چاہیے کیونکہ اس کا وزن اس کے پروں کے سائز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پھر بھی خدا کی قدرت ہے کہ وہ اڑ رہی ہے۔
یہی اصول موجودہ حکومت پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ اس کے اول جلول فیصلوں کا وزن اس کی اصل صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے پھر بھی خدا کی قدرت ہے کہ وہ چل رہی ہے بلکہ اڑ رہی ہے۔
یعنی ایسا آئینی مسودہ جسے پڑھ کے ابھی وفاقی کابینہ نے بھی منظوری نہیں دی اور نہ ہی اس مسودے کو اتحادی جماعتوں کے ملاحظے کے لیے من و عن پیش کیا گیا، پھر بھی اسے دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو 24 گھنٹے تک پنجوںکے بل کھڑا رکھنا، یہ حوصلہ، یہ اندھا اعتماد کسی عام شام حکومت کے بس کی بات نہیں تاوقتیکہ وہ بے دماغی کے اوجِ ثریا کو چھو رہی ہو۔ اللہ اللہ، سبحان اللہ۔۔۔
ہو بہو ایسی ہی کوشش 39 برس پہلے ضیا الحق نے مرضی کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے چنندہ پارلیمنٹ کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کے آٹھویں آئینی ترمیممنظور کروانے کے لیے بھی کی تھی مگر میسنی حزبِ اختلاف مسودہ دیکھنے پر اڑ گئی لہذا زہر کے گھونٹ پیتے ہوئے بیس روز کے لیے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
پھر بھی ایک ایک شق کے بال کی کھال نکالی گئی۔ حزب اختلاف نے خاصی حد تک مسودے میں سے ایک شخصی آمریت کے بیج نکلوا دیے مگر وہضیا الحق کو پھر بھی فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بننے سے نہیں روک پائی۔ لہذاکچھ عرصے بعد خدا کو ہی بادلِ نخواستہ صورتِ حال کا ازخود نوٹس لینا پڑ گیا۔
مگر تب تو جلد از جلد مارشل لا اٹھانے کا سوال تھا اس لیے آٹھویں ترمیم کے تحت مارشل لا قوانین کو آئینی تحفظ دینا ناگزیر مجبوری تھی لیکن گزرے ہفتے ایسی کیا مجبوری آڑے آ گئی کہ دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت نے باپردہ آئینی پیکج کو ہانپتے کانپتے منظور کروانے کے لیے دوڑ لگا دی اور ہدف عبور کرنے میں ناکامی کے بعد بنیادی گنتی میں بھی چوپٹ حاکمان بعد از خرابی ِ بسیار پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت پر مجبور ہو گئے۔ یہی کام سلیقے کے ساتھ پہلے بھی تو ہو سکتا تھا۔
تو کیا کسی نے حکومت کی کنپٹی پر سائلنسر والی گن تانی ہوئی تھی؟
ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ آئینی پیکج کتنا اچھا یا برا لکھا گیا مگر اس ملک، قوم اور سیاست پر 77 برس کے اندھیروں اور اجالوں میں اتنے شب خون پڑ چکے ہیں کہ کسی اچھے قانون کی بعجلت منظوری سے بھی ڈر لگتا ہے۔
دل وسوسوں سے بھر جاتا ہے۔ جانے اس اچھائی کے پیچھے کیا برائی دبے پاؤں چل رہی ہو۔ جانے اس قانون کو ملک و قوم کے مفادکا سٹیکر لگا کے کس خاص شخص یا ادارے کی سہولت کے لیے منظور نہ کروایا جا رہا ہو۔
پہلے تو دودھ کا جلا پپو چھاچھ پھونک پھونک کر پی لیتا تھا۔ اب تو چھاچھ سے بھی ڈر لگتا ہے۔
51 برس میں 1973 کے آئین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اب آئین بذاتِ خود اپنی نگاہوں میں نائکہ بن گیا ہے۔
پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟آئینی ترامیم اور مولانا فضل الرحمان: 13 نشستوں والی جماعت حکومت اور تحریک انصاف کے لیے اتنی اہم کیوں؟پارلیمنٹ کی غلط فہمی اور سپیکر کی معاملہ فہمیمذہبی رہنما یا سیاسی جادوگر، مولانا آخر ہیں کون؟پارلیمنٹ لاجز ’سب جیل‘ قرار: تحریک انصاف کے 10 ارکان کی ’غیر معمولی گرفتاری پر سپیکر کا غیر معمولی فیصلہ‘کیا عمران خان کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟