لکی مروت کے بعد بنوں اور باجوڑ میں بھی پولیس اہلکار سراپا احتجاج کیوں ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 12, 2024

BBCپولیس کا دعویٰ ہے کہ اس وقت لکی مروت میں ڈیڑھ سے دو سو شدت پسند موجود ہیں جن سے پولیس اہلکار خود ہی نمٹ سکتے ہیں

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے جاری احتجاج چوتھے روز میں داخل ہونے کے بعد ضلع بنوں اور ضلع باجوڑ میں بھی پولیس اہلکاروں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

ان تینوں اضلاع کے پولیس اہلکار اپنے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور مسلح افراد کے حملوں میں ہلاکت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

لکی مروت اور باجوڑ میں احتجاج کرنے والے پولیس اہلکاروں کا مطالبہ ہے کہ اُن کے اضلاع میں ’فوج کو محدود کیا جائے اور پولیس کے اختیارات واپس کیے جائیں۔‘ جبکہ بنوں میں احتجاج کرنے والے اہلکار تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا میں پولیس اہلکاروں کا سب سے بڑا احتجاج ضلع لکی مروت میں گذشتہ چار روز سے جاری ہے اور جمعرات کو مقامی کاروباری کمیونٹی نے بھی شٹرڈاؤن ہڑتال کر کے اس احتجاج میں شرکت اختیار کی ہے۔

بی بی سی نے ان تینوں اضلاع میں احتجاج کرنے والے پولیس اہلکاروں سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اُن کے مطالبات کیا ہیں اور انھیں کس نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔

بنوں میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کی بابت بنوں پولیس کے ترجمان بشیراحمد نے بتایا کہ اہلکاروں نے پولیس لائن کے باہر جمعرات کی صبح احتجاج اس وقت شروع کیا جب کانسٹیبل نور عالم خان کو تھانہ ڈومیل کی حدود میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آئے روز پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے۔

پولیس ترجمان کے مطابق اہلکاروں کا مطالبہ ہے کہ ہلاک ہونے والے کانسٹیبل کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔

دوسری جانب باجوڑ پولیس کے مطابق گذشتہ روز ضلع باجوڑ میں پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے میں پولیس اہلکار کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی مجموعی تعداد سو ہو چکی ہے جس کے بعد ہی پولیس لائن ہیڈکوارٹرز خار کے سامنے احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔ باجوڑ پولیس کا مطالبہ ہے کہ ’ہمارے اختیارات واپس کیے جائیں اور ضلع میں فوج کومحدود کیا جائے۔‘

پولیس اہلکاروں کا سب سے بڑا احتجاج اس وقت ضلع لکی مروت میں جاری ہے۔

لکی مروت: ’روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں‘

’ہمارے احتجاج کی وجہ روزانہ کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں کی ٹارکٹ کلنگ ہے۔ روز ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں فوج کو لکی مروت میں محدود کر دیا جائے یا ان کو لکی مروت سے نکالا جائے۔ پولیس خود ان دہشت گردوں کو ختم کر دے گی۔‘

یہ الفاظ خیبرپختونخوا پولیس کے سب انسپکٹر انیس الرحمان کے ہیں جو صوبے کے جنوبی ضلع لکی مروت میں چار روز سے جاری اُس احتجاج کا حصہ ہیں جس میں شامل پولیس اہلکار ضلع سے ’فوج کی واپسی‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے دوران لکی مروت میں پانچ پولیس اہلکاروں کی نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے اس احتجاج کے باعث پشاور اور صوبے کے جنوبی اضلاع کو کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے جوڑنے والی انڈس ہائی وے پر ٹریفک بند ہے۔

پولیس اہلکاروں کے احتجاج کو مقامی آبادی کی حمایت بھی حاصل ہے اور جمعرات کو اہلکاروں کے دھرنے کی حمایت میں لکی مروت میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی جا رہی ہے اور کاروباری مراکز بند ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کر رہے ہیں تاہم جمعرات کی صبح تک یہ بات چیت بے نتیجہ رہی ہے اور مظاہرین مُصر ہیں کہ جب تک اُن کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے دھرنا جاری رہے گا۔

لکی مروت میں احتجاج کرنے والے پولیس اہلکاروں کی جانب سے حکام سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رُکن سب انسپکٹر انیس الرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر ایک جانتا ہے کہ لکی مروت میں دہشت گردوں کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں۔ فوج کی ایک بڑی تعداد لکی مروت میں بیٹھی ہے لیکن آج تک ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔‘

بی بی سی نے اس دعوے اور الزام پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر سمیت خیبرپختونخوا حکومت اور آئی جی پولیس خیبرپختونخوا سے بھی رابطہ کیا تاہم اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران لکی مروت سمیت خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع بشمول بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور کلاچی میں پولیس اہلکاروں پر حملوں اور اُن کے اغوا کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگست میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چھ ماہ کے دوران خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 220 اہلکار مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فوج، پولیس، ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔

BBCلکی مروت میں پولیس اہلکاروں کے احتجاج کے باعث انڈس ہائی وے بند ہے

اِن بڑھتے واقعات کے تناظر کے بعد رواں سال جولائی میں بنوں میں بھی مقامی آبادی کی جانب سے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی کمان فوج سے لے کر سی ٹی ڈی کے حوالے کرنے کے مطالبے سامنے آئے تھے۔ اسی سلسلے میں ایک احتجاجی مارچ کے دوران فائرنگ اور بھگدڑ سے ایک شخص ہلاک اور تقریباً 25 افراد زخمی ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے مارچ میں شریک چند ’منفی عناصر‘ اور مسلح افراد کو فائرنگ کے ساتھ ساتھ ’ریاست اور فوج مخالف نعرے لگانے‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

بنوں کے بعد اب لکی مروت میں پولیس اہلکار، جن میں سپاہی، ہیڈ کانسٹیبل، اے ایس آئی اور سب انسپکٹرز رینک کے اہلکار شامل ہیں، فوج کی واپسی کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ بی بی سی نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے احتجاج میں شامل اہلکاروں سمیت اعلیٰ پولیس افسران اور پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ حالات اس نہج پر پہنچے کیسے۔

’پولیس اہلکار شام کے بعد گھر سے نہیں نکل سکتے‘

’ہمیں خطرہ تھا، دھمکیاں بھی ملی تھیں اور ہم ہوشیار تھے کہ گاؤں میں مشکوک افراد دیکھے جانے کی اطلاع ملی۔ میرے بھائیوں نے اُن کا پیچھا کیا اور آواز لگائی 'کون ہو؟ رک جاؤ۔۔۔‘ انھوں نے ابتدا میں تاثر دیا کہ جیسے وہ مقامی لوگ ہیں، مگر جیسے ہی میرے بھائیوں نے کلاشنکوف نیچے کی انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔‘

شفقت اللہ ضلع لکی مروت میں پولیس سٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) ہیں۔ وہ اس واقعے کے بارے میں بی بی سی سے بات کر رہے تھے جس کے دوران اُن کے دو بھائیوں، جو خود بھی پولیس اہلکار تھے، کو چند ہی دن قبل نامعلوم مسلح شدت پسندوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

ایس ایچ او شفقت اللہ کے والد بھی پولیس کے محکمے سے تھے اور بطور سب انسپکڑ ریٹائر ہوئے تھے۔ شفقت اللہ نے کہا کہ اُن کے ’سات بھائیوں میں سے تین پولیس کی ملازمت کے دوران جان کی بازی ہار گئے ہیں۔‘ اُن کے ایک بھائی 2013 میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے تھے جن کی جگہ پر شفقت اللہ پولیس میں بھرتی ہوئے۔

’گڈ طالبان‘ کون ہیں، یہ بنوں کیسے پہنچے اور اب ان کی بے دخلی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟’تحریک جہاد پاکستان‘: ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پاکستان میں شدت پسندوں کے حالیہ حملوں سے ٹی ٹی پی نے لاتعلقی کیوں ظاہر کی؟فتنہ الخوارج: خوارج کون تھے اور تحریکِ طالبان پاکستان کو یہ نام دینے کا مقصد کیا ہے؟

انھوں نے بتایا کہ ’گذشتہ دنوں جب مشکوک افراد کی ہمارے گاؤں اباخیل میں موجودگی کی اطلاع ملی تو میرے بھائی آگے گئے۔‘

شفقت اللہ نے بتایا کہ اُن کے جن بھائیوں کو مسلح شدت پسندوں نے ہلاک کیا وہ ماضی میں بھی دو مرتبہ زخمی ہوئے تھے۔ خود شفقت اللہ کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں وہ بھی زخمی ہو چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے پولیس کی نوکری پھولوں کی سیج نہیں تھی بلکہ ہم نے اپنے لوگوں اور اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی اور مسلح افراد سے مقابلے کیے ہیں۔‘

لکی مروت کے چند دیگر پولیس اہلکاروں، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی، نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ضلع کی حدود میں ’ڈیڑھ سے دو سو شدت پسند موجود ہیں جو دس، دس اور پندر، پندرہ افراد کی ٹولیوں میں قریبی جنگلات اور پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔‘

پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ’لکی مروت میں خوف پایا جاتا ہے اور پولیس اہلکار شام کے بعد گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے جبکہ بعض علاقوں میں مقامی افراد امن کمیٹی کے نام سے پہرے دیتے ہیں۔‘

پولیس اہلکاروں کے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ وہ ’گذشتہ چند راتوں سے سو نہیں سکے، بچے اور گھر والے روتے رہتے ہیں کہ کسی وقت بھی اُن کے گھروں پر مسلح افراد حملہ کر دیں گے، ہم گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں۔‘

احتجاج کرنے والے پولیس اہلکار کیا چاہتے ہیں؟Getty Imagesاس مہینے میں اب تک لکی مروت میں پانچ پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا کر قتل کیا جا چکا ہے

سب انسپکٹر انیس الرحمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’روز ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں اور پورے کا پورا خاندان ہی تباہ ہو جاتا ہے، بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔‘

حالیہ صورت حال کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم اس صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتے، ہم اپنے جوانوں کی لاشوں کو نہیں اٹھا سکتے۔‘

’جرم، دہشت گردی کے خلاف لڑنے سے نہیں ڈرتے۔ ہم پہلے بھی اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے لیے لڑے ہیں، قربانیاں دی ہیں، اب بھی لڑ سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں۔‘

ان حالات میں فوج کی واپسی کا مطالبہ کیوں؟

سب انسپکٹر انیس الرحمان نے دعوی کیا کہ ’فوج اور پولیس افسران کے مطابق ہر ایک کو پتا ہے کہ اس وقت لکی مروت میں دہشت گردوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔‘

سب انسپکٹر انیس الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ فوج کو لکی مروت میں محدود کیا جائے یا ان کو لکی مروت سے نکالا جائے، پولیس خود دہشت گردوں کو ختم کر دے گی اور امن و امان بحال کر دے گی۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ پولیس فورس کی ٹارگٹ کلنگ ختم ہو، صرف ہمارے اختیارات بحال ہو جائیں تو پولیس فورس خود ہی دہشت گردوں کو قانون کے کہڑے میں کھڑا کر دے گی۔‘

تاہم انھوں نے سوال کے باوجود اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اختیارات کی بحالی سے ان کی کیا مراد ہے۔

چند پولیس اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’پولیس کنٹرول میں موجود خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی واپس بھیجا جائے۔‘ ان کا دعوی تھا کہ ’فوج کی علاقے سے واپسی کے بعد تین ماہ میں شدت پسندوں کو ختم کر سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب احتجاج میں شریک بنوں پولیس کے ایک سابق اہلکار جمشید خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے اور امید ہے کہ باقی قریبی اضلاع کی پولیس بھی اپنے حق اور امن کے قیام کے لیے کھڑے ہو گی اور اہلکاراس احتجاج میں شامل ہوں گے۔‘

واضح رہے کہ احتجاج کرنے والے پولیس اہلکاروں کی ایک نمائندہ کمیٹی نے پیر کو ڈپٹی کمشنر فہد وزیر اور ڈی پی او تیمور خان کے ساتھ ساتھ بنوں کے آر پی او عمران شاہد اور ڈی پی او ضیا الدین احمد سے مذاکرات کیے جو بے نتیجہ رہے جس کے بعد بدھ کو بھی اعلیٰ حکام سے مذاکرات کا ایک دور ہوا مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔

پولیس کے اعلی حکام کیا کہتے ہیں؟

ڈی پی او لکی مروت تیمور خان نے بی بی سی کو بتایا کہ لکی مروت میں پولیس اہلکاروں پر حملوں میں تیزی پولیس کی جانب سے ایک آپریشن میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے مقامی کمانڈر مولوی غلام کی ہلاکت کے بعد دیکھی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’مولوی غلام کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بم دھماکوں اور پولیس پر حملے کے مقدمات میں لکی مروت اور بنوں پولیس کو مطلوب تھا۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ ان حملوں کی روک تھام کے لیے پولیس حکام کیا کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کر رہی ہے اور اس کے لیے جہاں جہاں سے مشتبہ افراد کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے وہاں ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔‘

بی بی سی نے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے علاوہ آئی جی پولیس سے بھی رابطہ کیا تاکہ ان سے یہ جانا جا سکے کہ پولیس کی جانب سے فوج کے واپسی کے مطالبے پر اُن کا کیا موقف ہے، تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب فوج سے متعلق پولیس اہلکاروں کے دعووں پر پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم اب تک ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

افغانستان میں کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگرد تھے، دفتر خارجہ پاکستانطالبان کے دور میں افغانستان میں کیا بدلا جو پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کو پریشان کر رہا ہے؟بلوچستان میں صحافی اور اساتذہ فورتھ شیڈول میں شامل: ’کیوں بے گناہوں کو بی ایل اے کے حوالے کر رہے ہیں‘’شدت پسندی سے 19 فیصد زیادہ اموات‘ کیا پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More