Getty Images
پاکستان کے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے بدھ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے انھیں پارلیمنٹ کے موجودہ جاری اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جن اراکینِ پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے گئے ان میں عامر ڈوگر، زین حسین قریشی، وقاص اکرم، شیر افضل، محمد احمد چھٹہ، زبیر خان وزیر، اویس حیدر جکھڑ، سید شاہ احد علی شاہ، نسیم علی شاہ اور محمد یوسف خان شامل ہیں۔
سپیکر نے پروڈکشن آرڈر قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے طریقہ کار 2007 کے قاعدہ 108 کے تحت تفویض شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جاری کیے ہیں۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی اسلام آباد کو مراسلہ جاری کرتے ہوئے زیرِ حراست ممبران پارلیمنٹ کی اسمبلی کے رواں اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
اس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کے معاملے میں کوتاہی برتنے پر سارجنٹ ایٹ آرمز اور دیگر چار سکیورٹی اہلکاروں کو چار ماہ کے لیے معطل بھی کیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمان کی بے توقیری قبول نہیں، گرفتار ارکان پارلیمان کو فوری رہا کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں گرفتار ارکان کے پروڈکش آرڈر جاری کروں گا اور معاملے کی انکوائری ہو گی۔
قبل ازیں پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ قومی اسمبلی کی مبینہ طور پر پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزارتِ داخلہ کو واقعے کی تحقیقات کر کے سات روز کے اندر رپورٹ جمع کرونے کا حکم بھی دیا۔
وزارتِ داخلہ کو بھِیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ نو اور 10 ستمبر کی درمیانی شب مبینہ طور پر قومی اسمبلی کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی کے بعض ارکان کو پارلیمنٹ کے حدود کے اندر سے گرفتار کیا گیا ہے۔
خط میں ہدایت دی کہ وزارتِ داخلہ واقعے کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات کرے اور اس کی رپورٹ سات دن کے اندر سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کی جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس ضمن میں کوتاہی پائی گئی تو ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی شروع کی جا سکتی ہے۔
اس سے قبل منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران انھوں نے اس معاملے پر کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’قانون اور آئین کی پاسداری ہونی چاہیے، ہمیں اس واقعے کو سنجیدہ لینا ہو گا۔‘
سپیکر ایاز صادق نے کہا تھا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ایسا اقدام کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹواؤں گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کل جو کچھ ہوا اس پر پارلیمنٹ کے تمام داخلی دروازوں کی فوٹیجز منگوا لی ہیں تا کہ ہم ذمہ داروں کا تعین کر سکیں۔
واضح رہے کہ قانون اور ضابطے کے مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ کے احاطے سے کسی بھی رکن کو سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سوموار کی رات پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔ اتوار کے روز ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے کے دوران این او سی کی خلاف ورزی، پولیس پر پتھراؤ اور روٹ کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی رہنماؤں پر متعدد مقدمات درج ہیں۔
بعد ازاں منگل کے روز پی ٹی آئی کےزیرِ حراست رہنماؤں کو اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت پیش کیا گیا۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، وقاص اکرم، نسیم شاہ، احمد چٹھہ، زبیر خان وزیر، اویس حیدر جکھڑ، سید شاہ احد علی شاہ اور محمد یوسف خان کو آٹھ روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو اسلام آباد پولیس نے مقدمے سے ڈسچارج کرتے ہوئے رہا کردیا تھا۔
رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ 10 ستمبر کا دن پاکستان کی جمہوریت کا سیاہ دن مانا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سوموار کے روز نقاب پوش افراد ایوان میں داخل ہوئے اور ہمارے دس ایم این ایز کو گرفتار کر لیا۔
پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود تھے جب انھیں پتا چلا کہ باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ انھیں اور شیر افضل مروت کو اسمبلی کے دروازے کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ شعیب شاہین کو ان کے دفتر سے حراست میں لیا گیا۔
’اس کے بعد ہمارے دس ایم این ایز کو پارلیمان کی حدود سے نقاب پوشوں نے گرفتار کیا۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ایوان پر حملہ ہے۔‘
’کل رات جمہوریت کا نو مئی تھا، آرٹیکل چھ لگانا ہے تو حکم دینے والوں پر لگاؤ‘
پاکستان تحریک انصاف کے رکن پارلیمان علی محمد خان نے بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے گذشتہ روز کے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔‘
منگل کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ’کل رات جس نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا، جہاں سے اس کا آرڈر آیا، اگر آرٹیکل چھ لگانا ہے تو ان پر لگاؤ، ان پر لگنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ارکان پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ سے اُٹھا کر لے جایا گیا۔‘
علی محمد خان نے مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے ہونے والی گرفتاریوں کو ’پاکستان پر حملہ‘ قرار دیا اور کہا کہ ’اگر جناح ہاؤس پر حملہ پاکستان پر حملہ تھا تو کیا پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان پر حملہ نہیں؟ کیا پارلیمنٹ پر حملہ آئین پر حملہ نہیں؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کل رات ہمارے رہنماؤں کو پارلیمنٹ ہاؤس، مسجد اور حجرے سے اٹھایا گیا، کل رات جو ہوا، وہ پاکستان کی جمہوریت کا نو مئی تھا، جسے پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم میں عمران خان کا مقدمہ نہیں لڑ رہا ہوں، آج میرا مقدمہ جمہوریت کا ہے، کل رات جو ہوا، پارلیمان کے ساتھ ہوا ہے، سپیکر صاحب، ہم اسرائیل میں نہیں، پاکستان میں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کل رات آپ کے ساتھ اراکین پارلیمنٹ نے اس ایوان میں پناہ لی، وہ چھپتے پھرے کہ پناہ مل جائے، پھر مسجد میں پناہ لینے والے مولانا نسیم صاحب کو بھی اٹھا لیا گیا۔‘
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں: ’موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ہو گا‘فیض حمید اور تحریکِ انصاف: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد عمران خان کی جماعت کا نام بار بار کیوں لیا جا رہا ہے؟عدالتی ریلیف کے بعد فوج کی حراست میں دیے جانے کا خدشہ: ’یہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے فوجی عدالت بھیجنا چاہتے ہیں‘عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ قومی تاریخ جو قربانیوں سے بھری پڑی ہے، جس میں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کی لاش بھی ہے، جس میں عمران خان کے جسم پر لگنے والی چار گولیاں بھی ہیں، لیکن افسوس ہے کہ کل رات انڈیا، امریکہ اور اسرائیل سے نہیں، میرے اپنے وطن کے اداروں کے کچھ لوگ، کون تھے وہ نقاب پوش لوگ جو پاکستان کے عوام میں گھس گئے اور یہاں سے ہمارے لوگوں کو اٹھا کر لے گئے، یہ جمہوریت، پاکستان اور آئین پر حملہ ہے۔‘
علی محمد خان نے کہا کہ کل رات جس نے پاکستان کے پارلیمنٹ پر ہلہ بولا ہے، جہاں، جہاں سے یہ حکم آیا ہے، اگر آرٹیکل چھ لگانا ہے تو ان پر لگاؤ، ان پر لگنا چاہیے۔‘
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اسے اپنے بے عزتی سمجھے یا اپنے پر حملہ سمجھے تو یہ حملہ عمران خان، عامر ڈوگر، شیخ وقاص پر نہیں بلکہ یہ حملہ سپیکر صاحب آپ پر، وزیر اعظم شہباز شریف، شہید بینظیر کے بیٹے بلاول بھٹو پر ہے۔‘
’پارلیمنٹ میں گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھی اس معاملے پر حزب اختلاف کی حمایت کرتے دکھائی دیے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی پی کے سینیر رہنما نوید قمر نے کہا کہ کل جو ہوا اس حوالے سے جو الزامات سامنے آ رہے ہیں، یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔
انھوں نے سپیکر ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’میں آپ کو اس وقت بطور ہاؤس کے کسٹوڈین مخاطب کر رہا ہوں، اس وقت جو الزامات سامنے آ رہے ہیں جن پر یقین نہ کرنے کے لیے میرے پاس کوئی وجہ نہیں، یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یاد ہوگا کہ جب ماضی میں عمران خان یا ان کی جماعت پارلیمان کے مرکزی دروازے تک پہنچی تھی تو اس کو بھی ہم نے پارلیمنٹ پر حملہ اور قابل مذمت قرار دیا تھا، تو اگر پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا، یہاں ایوان میں آئیں گے اور آپ کو گرفتار کریں گے، اس پر آپ کو سنجیدہ انکوائری کرکے سنجیدہ ایکشن لینا پڑے گا۔‘
نوید قمر نے کہا کہ اگر ایکشن نہ لیا گیا تو پھر یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں، یہ تو شروعات ہے، جب پارلیمنٹ پر حملے کی بات ہو تو ہم سب ایک ساتھ کھڑے ہوں، یہاں تو عزت کیا، یہاں تو مجھے مستقبل ہی نظر نہیں آرہا۔‘
جمعیت علما اسلام کی رکن اسمبلی شاہدہ اختر نے کہا کہ ’یہ اقدام کسی طرح بھی جمہوری نہیں ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اگر ایکشن نہ لیا تو یہ پارلیمنٹ کمزور سے کمزورہو جائے گی۔‘
’پی ٹی آئی نے پاکستان کے وجود کو چیلنج کیا ، کل کا عمل پرسوں کا ری ایکشن تھا‘
اگرچہ حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے اس واقعے پر اب تک باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے مگر بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ روز کے واقعے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’کل کا عمل پرسوں کا ری ایکشن تھا، پاکستان کے وجود کو پرسوں چیلنج کیا گیا، پاکستان کے فیڈریشن کو چیلنج کیا گیا، اس کے بعد آپ کیا توقع رکھتے ہیں، یہ جب بھی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں فوج سے بات کرنی ہے، یہ سیاسی ڈی این اے کا مسئلہ ہے، جب فوج نے آپ کو لانچ کیا ہو تو اپ بار بار ان کے پاس جاتے ہیں، کوئی سیاسی مسئلہ ہو تو فوج سے بات کیوں کریں؟‘
سپیکر نے وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 2014 میں جب ایک جماعت اور اس کے کزن نے پارلمنٹ پر حملہ کیا تو بد قسمتی سے اس وقت بھی میں اس کرسی پر تھا۔ سنہ 2014 میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا اس کا مقدمہ درج ہوا تھا، جو ہوا اس پر ہم نے ایکشن لینا ہے، اس پر ہم نے خاموش نہیں رہنا۔‘
واضح رہے کہ سنہ 2014 میں تحریک انصاف نے طاہرالقادری کے ساتھ مل کر ڈی چوک میں ایک دھرنا دیا تھا جو 126 دن تک جاری رہا تھا۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بطور کسٹوڈین جو بات آپ نے کی، اس سے صائب رائے نہیں ہوسکتی، ہمیں اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے، زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، اگر آپ زہر بوئیں گے تو پھول نکلیں گے لیکن ہوں گے زہریلے، میٹھا بویا کریں، میٹھا بوئیں گے تو میٹھا اگے گا، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سپیکر نے بہت اچھی بات کی، یہ اس ایوان کے تقدس کا مسئلہ ہے، ہم سب ان کے چیمبر میں آجاتے ہیں، لیکن اس کے بنیادی اسباب کو بھی دیکھنا چاہیے، اس طرح کے نظریات رکھ کر، اس طرح کی گفتگو کرکے یہ توقع رکھنا کہ رد عمل نہیں آئے گا، یہ نہیں ہوگا، قانون و آئین کی پاسداری ہونی چاہیے۔
وزیر قانون نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ جہاں ہماری غلطی ہوئی، اس کو مانیں گے، اس کی درستگی بھی کریں گے۔
Getty Imagesگذشتہ روز کیا واقعہ پیش آیا؟
پیر کی شب اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت متعدد رہنماؤں کو مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو اتوار کو اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں کیے جانے والے جلسے کو وقت پر ختم نہ کرنے، پولیس پر پتھراؤکرنے اور طے شدہ روٹ کی خلاف ورزیکرنے پر منتظمین کے خلاف درج تین مقدمات کے تحت گرفتار کیا۔
اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق پی ٹی آئی کے جلسے کے منتظمین کے خلاف پہلا مقدمہ تھانہ سنگجانی میں جلسے کے معینہ وقت کی پاس داری نہ کرنے پر،دوسرا مقدمہ تھانہ سمبل میں معینہ روٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قافلے سادات کالونی اور سری نگرہائی وے سے لانے پر جبکہ تیسرا مقدمہ ایس ایس پی سیف سٹی سمیت دیگر پولیس اہل کاروں پر پتھراؤ کرنے پر تھانہ نون میں درج کیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو خط لکھ کر پارلیمانی اور جمہوری روایات کی ’پامالی‘ کی مذمت کی۔
عمر ایوب نے اپنے خط میں لکھا کہ پارلیمنٹ سے جس طریقے سے اراکین اسمبلی کو گرفتار کیا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس پر ’میں آپ سے نہ کوئی مطالبہ کرتا ہوں اور نہ کوئی امید وابستہ کرتا ہوں۔‘
کسی بھی رکن پارلیمان کو پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کرنے کا مجوزہ طریقہ کار کیا ہے؟
قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق پولیس یا قانون نافذ کرنے اداروں کے اہلکار پارلیمنٹ کے احاطے سے رکن پارلیمان تو درکنار قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ کے کسی ملازم کوسپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتے۔
پارلیمنٹ کے احاطےمیں قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہے تو وہ کسی کو گرفتار بھی کرواسکتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق اگر کسی بھی رکن قومی اسمبلی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے اور وہ پولیس کو مطلوب ہے تو پولیس سپیکر قومی اسمبلی کی پیشگی اجازت کے بعد ہی رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کر سکتی ہے۔
اڈیالہ سے آکسفرڈ تک۔۔۔سردار اختر مینگل: ’حکومت کو اب پہاڑوں پر موجود آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے بات کرنا ہو گی‘ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں: ’موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ہو گا‘فیض حمید اور تحریکِ انصاف: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد عمران خان کی جماعت کا نام بار بار کیوں لیا جا رہا ہے؟عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘عدالتی ریلیف کے بعد فوج کی حراست میں دیے جانے کا خدشہ: ’یہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے فوجی عدالت بھیجنا چاہتے ہیں‘