Getty Images
پینشن کا لفظ سنیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر ماہ ملنے والی ایک مخصوص رقم کا تصور ذہن میں آتا ہے اور اسی لیے پاکستان میں لوگ عموماً سرکاری نوکری کو ترجیحبھی دیتے ہیں۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ہر گزرتے سال کے ساتھ سرکاری خزانے پر پینشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں ایک نئی پینشن سکیم متعارف کروائی ہے جس سے پینشن کے اہل افراد کے ذہنوں میں کئی خدشات اور سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے متعارف کی گئی نئی سکیم کو ’کنٹریبیوٹری پینشن فنڈ سکیم‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا اطلاق رواں مالی سال کے آغاز یعنی یکم جولائی 2024 سے کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی نئی پینشن سکیم موجودہ مالی سال میں بھرتی ہونے والے وفاقی سویلین ملازمین اور آئندہ مالی سال میں افواج میں بھرتی ہونے والے ملازمین پر لاگو ہو گی۔
اس سکیم کی تفصیل میں جانے سے پہلے مختصراً جان لیتے ہیں کہ پینشن کے اہل افراد کون ہوتے ہیں؟
پاکستان میں سرکاری ملازمتکرنے والے افراد میں سول اورفوجی ملازمین شامل ہیں جنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی جانب سے پینشن کی ادائیگی کی جاتی ہے جو انھیں اُس وقت تک ملتی ہے جب تک وہ زندہ رہتے ہیں اور اُن کی موت کی صورت میں اس پینشن کی ادائیگی اُن کی بیوہ کو جاری رہتی ہے۔
موجودہ قوانین کے مطابق بیوہ کی وفات کے بعد بھی اگر کسی سرکاری ملازم کی کوئی غیرشادی شدہ بیٹی ہے تو اس کو اپنے والد کی پینشن اس وقت تک ملتی رہتی ہے جب تک اس کی شادی نہ ہو جائے۔ تاہم اب حکومت کی جانب سےجاری کی گئی نئی پینشن سکیم میں اصلاحات متعارف کروائی کی گئی ہیں جس کے خدو خال پرانی سکیم سے کافی مختلف ہیں۔
حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی اس نئی پینشن سکیم کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کا پینشن بجٹ ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
واضح رہے کہ پینشن کی مد میں ریٹائرڈ وفاقی ملازمین کو ہر ماہ دی جانے والی رقم کو ملکی وسائل پر ایک بہت بڑا بوجھ قرار دیا جاتاہے اور چند ماہرینِ معیشت اسے حکومت کے لیے ’پینشن بم‘ قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں سالانہ وفاقی بجٹ کا چوتھا بڑا خرچہ پینشن ہی ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق ملک پر قرضوں کے بےنظیر بوجھ، اُن پر سود کی ادائیگی اور بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کی وجہ سے حکومتوں کے لیے پینشن کی ادائیگی مشکل تر امر بنتی چلی جا رہی ہے۔
حکومتِ پاکستان کتنی پینشن ادا کرتی ہے اور اب اس بوجھ کو مزید اٹھانے سے قاصر کیوں ہے؟Getty Imagesرواں سال بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین نے تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کے لیے پارلیمینٹ کے باہر احتجاج کیا تھا
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں معیشت کے استاد عدیل ملک نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی ملک میں پینشن کا ایسا نظام ہی کامیاب ہو سکتا ہے جو مالی طور پر دیرپا اور مستحکم ہو۔
انھوں نے کہا اِس وقت پاکستان کا جو پینشن دینے کا قانون رائج ہے وہ کام نہیں کر رہا ہے کیونکہ ملک کی موجودہ مالی حالت اِس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے اور اسی لیے پینشن بِل کو معاشی حالات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں پینشن کی ادائیگی کے لیے مختص رقم ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے۔
پاکستان کے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں پینشن کی ادائیگی کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں قرضوں کی ادائیگی، دفاعی بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے بعد چوتھے نمبر پر آتی ہے۔
رواں سال کے حکومتی پینشن بل میں خاطرخواہ اضافہ دیکھا گیا کیونکہ گذشتہ مالی سال میں حکومت نے 832 ارب روپے ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی مد میں ادا کیے تھے۔ رواں مالی سال کی بجٹ دستاویز کے مطابق حکومت کو موجودہ مالی سال میں 122 ارب روپے کے اضافے پینشن بل کے اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ’سنگل ڈیجٹ تک کمی‘ کے حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟بجلی کے بل میں ’چھپے‘ وہ ٹیکس جو حکومت آپ سے وصول کر رہی ہےپاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کن بڑے شعبوں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟بزرگ شہریوں کے ساتھ ساتھ اب ’بزرگ درختوں‘ کو بھی پینشن ملے گی
واضح رہے کہ پاکستان کو اس سال 9700 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنی ہے اور دفاع پر 2200 ارب روپے خرچ کرنے ہیں جب کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص فنڈز 1400 روپے ہیں جبکہ پینشن کے لیے مختص بجٹ 1014 ارب روپے ہے۔ دوسری جانب پورے مالی سال میں سول حکومت چلانے کے اخراجات کے لیے 839 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نئی پینشن پالسی کے خدوخال کیا ہیں؟
پاکستان کی وزارت خزانہ کی جانب سے چند دنوں پہلے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے ذریعے نئی پینشن پالیسی یعنی ’کنٹریبیوٹری پنشن فنڈ سکیم‘ کا اجرا کیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے مطابق اس سکیم کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان میں وفاقی حکومت کے اداروں میں یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی ہونے والے افراد پر اس سکیم کا اطلاق ہو گا۔
تاہم اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس سکیم کا یکم جولائی 2024 سے ایسے ملازمین پر اطلاق ہو گا جو وفاقی سول اداروں میں بھرتی ہوں گے جب کہ ملک کی افواج میں بھرتی ہونے والے ملازمین پر اس سکیم کا اطلاق آئندہ مالی سال یعنی یکم جولائی 2025 کے بعد سے ہو گا۔
اس سکیم کے تحت ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ (بیسک پے) میں سے 10 فیصد اس نئے پینشن فنڈ میں ڈالیں گے جب کہ وفاقی حکومت کا حصہ یا شیئر 20 فیصد ہو گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اس پینشن فنڈ کے لیے موجودہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
حکومت کو نئی سکیم سے کیا فائدہ ہو گا؟Getty Imagesپاکستان میں سول اور فوجی اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو ملازمت کے اختتام پر پنشن ملتی ہے
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں کام کرنے والے ماہر معیشت شاہد محمود نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نئی پینشن سکیم ’کنٹریبیوٹری پینشن سکیم‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ملازمین بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ نظام کے تحت پینشن کا سارا مالی بوجھ حکومت پر ہوتا ہے تاہم نئی سکیم کے تحت ملازمین کو بھی دوران ملازمت اس میں حصہ ڈالنا پڑے گا اور ان کا حصہ اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی رقم ایک پینشن فنڈ میں جمع ہو گی۔‘
اس پینشن فنڈ میں جمع ہونے والی رقم کی مدد سے سرمایہ کاری بھی کی جائے گی تاکہ اس سے منافع مل سکے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری سٹاک مارکیٹ، انشورنس، حکومتی سکیورٹیز اور دوسرے سرمایہ کاری کے شعبوں میں انویسٹ کی جا سکے گی تاکہ حکومت پر پینشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
معاشی امور کے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ نئی سکیم کا اطلاق رواں برس کے دوران بھرتی ہونے والے ملازمین پر ہو گا جب کہ سابقہ اور موجودہ ملازمین اس میں مستثنیٰ ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’قلیل مدت میں حکومت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی بجٹ پر اس کا مثبت اثر پڑے گا تاہم طویل مدت میں نئی سکیم سے فرق پڑے گا اور پینشن پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوں گے۔‘
افواج کا پینشن بجٹ کیا ہے؟
پاکستان کے رواں سال کے وفاقی بجٹ میں پینشن کے اخراجات 1014 ارب روپے ہیں۔ اس پنشن میں سول حکومت اور افواج کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو دی جانے والی پنشن شامل ہے۔
موجودہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کے 2200 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے تو اس کے ساتھ مجموعی پینشن اخراجات میں افواج سے ریٹائرڈ ملازمین کو دی جانے والی پینشن کے لیے 662 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب سول حکومت کے ریٹائرڈ ملازمین کے 220 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
موجودہ مالی سال میں پینشن بل میں ہونے والے بڑے اضافے کی وجہ افواج سے ریٹائرڈ ملازمین کو دی جانے والی پینشن میں اضافہ ہے کیونکہ گذشتہ مالی کے نظر ثانی اخراجات کے مطابق افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو 583 ارب روپے پینشن کی مد میں دیے گئے۔
تاہم موجودہ مالی سال میں اس مد میں 662 ارب روپے کی رقم متخص کی گئی ہے یعنی اس میں 79 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب سول اداروں کے ملازمین کو 220 ارب روپے کی پینشن گذشتہ مالی سال میں ادا کی گئی تھی اور اس مالی سال میں اس میں آٹھ ارب روپے اضافے کے بعد یہ بجٹ 228 ارب روپے ہو گا۔
شہباز رانا نے مزید بتایا کہ اس سکیم کا قلیل مدت میں تو کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہو گا اور افواج میں نئے ملازمین کی بھرتی کے لیے ملٹری نے نئے مالی سال میں اس کے اطلاق پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
’جب ملٹری پر بھی اس کا اطلاق ہو گا تو لانگ ٹرم میں اس کا فائدہ ہو گا کیونکہ اس وقت 70 فیصد پینشن بجٹ افواج سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین پر خرچ ہوتا ہے جب کہ 30 فیصد سول اداروں کے ملازمین کی پینشن میں جاتا ہے۔‘
پینشن کا حقدار کون ہے کون نہیں؟Getty Images
پاکستان میں سول اور فوجی اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو ملازمت کے اختتام پر پینشن ملتی ہے تاہم حکومت کے تحت چلنے والے ایسے ادارے بھی موجود ہیں جنھیں Autonomousbodies (خودمختار حکومتی ادارے) کہا جاتا ہے۔
شاہد محمود نے کہا کہ ایسے اداروں کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی حکومت کے بجٹ سے پنشن ادا نہیں کی جاتی۔
پاکستان کے کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر ایسے اداروں کی فہرست فراہم کی گئی ہے ۔
ان اداروں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی، زرعی ترقیاتی بینک، نادرا، کراچی پورٹ ٹرسٹ، ریلوے کے مختلف ادارے ، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ، اوگرا اور کئی دوسرے ادارے شامل ہیں جن کے ملازمین کی پنشن وفاقی حکومت کے بجٹ سے ادا نہیں کی جاتی۔
پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کن بڑے شعبوں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ’سنگل ڈیجٹ تک کمی‘ کے حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟حکومتِ پنجاب کی ’اپنی چھت اپنا گھر‘ سکیم: کیا 15 لاکھ روپے میں مکان بنایا جا سکتا ہے؟بجلی کے بل میں ’چھپے‘ وہ ٹیکس جو حکومت آپ سے وصول کر رہی ہےشرح سود میں کمی: پاکستان میں مہنگائی کم ہوئی یا اس کی مزید بڑھنے کی رفتار رُک گئی؟پاکستان میں مہنگائی کے دور میں گوشت نہیں خرید سکتے تو پروٹین کیسے حاصل کریں؟