EPA
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی نے بار بار یہ عندیہ دیا کہ کشمیر کی سیاست سے ’پاکستان کا فیکٹر‘ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ اس دعوے کی تصدیق کشمیر کی طویل خاموشی سے ہو رہی تھی کیونکہ سینکڑوں علیٰحدگی پسند لیڈر جیلوں میں ہیں، اُن کی سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور اُن کا پارٹی سٹرکچر منہدم ہوگیا ہے۔
لیکن اب پانچ سال بعد جموں کشمیر میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی کی قیادت نے کشمیر کے سیاست دانوں پر الزام عائد کر دیا کہ وہ سابق عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کو اپنی پارٹیوں میں شامل کر کے کشمیر میں ’دہشت گردی کا احیا‘ کرنا چاہتے ہیں جس سے پاکستان کے مفادات کی تکمیل ہوگی۔
اگرچہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کی وکالت کی ہے۔ تاہم یہ رہنما انتخابی مہم کے دوران اس بارے میں خاموش ہی رہے ہیں۔
انڈیا کے حامی سیاسی گروپوں پر پاکستان نوازی کا الزام کیوں لگا؟
کشمیر 35 سال سے مسلح شورش کی لپیٹ میں ہے۔ اس عرصے میں چار مرتبہ صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن ہوئے تاہم ہر بار علیحدگی پسند اتحاد حریت کانفرنس ان انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم چلاتا تھا۔
بائیکاٹ کی مہم کا شدید اثر 1996 میں رہا جب پوری وادی میں صرف پانچ فیصد ووٹنگ ہوئی۔ لیکن نائین الیون کے بعد پاکستان کے فوجی حکمران جنرل مشرف نے پاکستان کی روایتی پالیسی میں لچک ظاہر کی تو 2002 کے انتخابات میں بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے اور ایک نئی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا۔
اس طرح 1947 سے کشمیر پر حکومت کرنے والی سب سے بڑی پارٹی نیشنل کانفرنس کو پہلی مرتبہ اپوزیشن نشتوں پر بیٹھنا پڑا۔
نیشنل کانفرنس نے الزام عائد کیا کہ پی ڈی پی انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہے جبکہ انڈیا میں اکثر حلقوں نے پی ڈی پی پر الزام عائد کیا کہ اُس نے عسکریت پسندوں اور پاکستان کی حامی جماعت اسلامی کی مدد سے اقتدار حاصل کیا۔
AFPتہاڑ جیل سے کشمیر میں الیکشن جیتنے والے انجینیئر رشید
واضح رہے جماعت اسلامی سمیت سبھی علیحدگی پسند گروپ انتخابات کو انڈیا کا ’سفارتی آپریشن‘ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ الیکشن کا مقصد عالمی اداروں کو باور کرانا ہے کہ یہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں فرسودہ ہوچکی ہیں۔
لیکن 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور نئی دلّی کی طرف سے کشمیر میں زمینی سطح پر سیاست بدلنے کی مسلسل کوششوں کے بعد کشمیر کی صورتحال غیرمعمولی حد تک بدل چکی ہے۔
اب سیاسی جماعتیں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں۔ اس سے قبل عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت اور مسئلہ کشمیر کے حل کی باتیں ہوتی تھیں۔
وادی کشمیر میں مسلح تشدد کا گراف بہت گِر گیا ہے اور علیحدگی پسندوں کی سیاسی ساخت ختم ہونے کے بعد بائیکاٹ سیاست اب غیرمتعلق ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کا مظاہرہ لوگوں نے چند ماہ قبل انڈین پارلیمنٹ کے لیے ہوئے انتخابات کے دوران کیا، جس میں اُمیدواروں کے جیتنے کا فرق 60ہزار سے دو لاکھ کے درمیان تھا۔
اُن انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ کے الزام میں قید انجینیئر رشید نامی سابق رکن اسمبلی نے جیل میں بیٹھے بیٹھے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو پونے دو لاکھ ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔
اس تبدیلی نے جیلوں میں قید اور جیلوں سے باہر طویل مدت سے خاموش بیٹھے علیحدگی پسندوں کو بھی انتخابی میدان میں کودنے پر آمادہ کیا۔
تہاڑ جیل میں قید سرکردہ علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کے قریبی ساتھی اور حریت لیڈر سید سلیم گیلانی نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
سکردو کا محاصرہ: وہ شہر جس پر قبضے کے لیے انڈیا اور پاکستان نے چھ ماہ تک جنگ لڑی’ایک شخص نے ہیلمٹ پہن کر گولی چلائی‘: راولا کوٹ کی مسجد میں قتل ہونے والے ابو قاسم کشمیری کون تھے؟بالاکوٹ میں انڈین طیارے پاکستانی طیاروں سے کیسے بچے؟پراسرار پستول، شاطر سرغنہ اور دس کروڑ انعام: راولاکوٹ جیل سے فرار ہونے والے قیدی کون ہیں؟
تہاڑ میں ہی قید ایک اور حریت رہنما نعیم خان کے بھائی منیر خان نے پارلیمنٹ الیکشن میں حصہ لیا تھا اور وہ صوبائی اسمبلی کے لئے بھی پر تول رہے ہیں۔
کالعدم جماعت اسلامی کے کئی لیڈر بھی آزاد اُمیدواروں کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جو الیکشن نہیں لڑرہے ہیں انہوں نے مقامی امیدوار کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ان لیڈروں میں جماعت کے سابق جنرل سیکریٹری غلام قادر لون قابل ذکر ہیں۔
انھوں نے بائیکاٹ کی روایتی پالیسی کو ترک کرکے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ووٹنگ میں حصہ لیں۔ سرحدی ضلع کپوارہ سے تعلق رکھنے والے غلام قادر کے بیٹے ڈاکٹر کلیم اللہ لون ازاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں اور ان کے والد ان کے لیے مہم بھی چلا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ دہشت گردی سے متعلق قانون کے تحت قید کاٹ رہے سرجان برکاتی نے جیل سے ہی دو سیٹوں پر کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔ وہ دو سیٹوں پر الیکشن لڑرہے ہیں۔
سید علی گیلانی، جن کی کئی سال قبل وفات ہو چکی ہے، کے قریبی ساتھی پیر سیف اللہ کے بھائی الطاف بٹ نے بھی نامنیشن فارم داخل کروایا ہے۔
EPAانڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں کانگریس کی ریلی’اگر مسئلہ کشمیر حل ہو گیا تو پاکستان سے مذاکرات کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟‘
اس ساری صورتحال پر یہاں کے سیاسی گروہوں اور بی جے پی کا متضاد موقف ہے۔ بی جے پی فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور راہل گاندھی کی انڈین نیشنل کانگریس کے انتخابی اتحاد پر پاکستان نوازی کا الزام لگا رہی ہے۔
کشمیری امور پر بی جے پی کے خاص مذاکرات کار رام مادھو نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ’میرے پاس معلومات ہیں کہ سابق دہشت گرد نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لیے کھلے عام مہم چلارہے ہیں۔
’عوام کو ان جماعتوں کو شکست دینا ہوگی جو جموں کشمیر کو واپس پریشانی بھرے میں دنوں میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔‘
نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے انتخابی منشور میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کروانے کے وعدے کو مادھو نے قابل اعتراض قرار دیا اور کہا ’لوگوں نے نئی قیادت پر بھروسہ کرنا چاہیے جو امن اور ترقی کی ضامن ہے۔‘
رام مادھو سرینگر میں بی جے پی کے اُمیدوار اعجاز حسین کے حق میں منعقد ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
کشمیر میں یہ انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب انڈیا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے کسی بھی امکان کو خارج کر دیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیری سیاست دان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے پیچھے کیوں پڑے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں معروف صحافی اور کالم نویس ہاروُن ریشی کہتے ہیں کہ ’پی ڈی پی بانی مفتی محمد سید انڈیا کے ہوم منسٹر رہے ہیں۔ انھوں نے پارٹی بنائی تو اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر کا ایک داخلی فیکٹر ہے اور ایک خارجی فیکٹر ہے۔
’داخلی فیکٹر میں وہ جمہوری حقوق کی بحالی اور بہتر انتظامیہ کو اہمیت دیتے تھے اور خارجی فیکٹر میں وہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر مفاہمت کی بات کرتے تھے۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کئی بار یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا ہے۔‘
لیکن ہاروُن ریشی کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران نہ تشدد پر پوری طرح قابو پایا گیا نہ ہی یہاں کی سیاست تبدیل ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ٓپ خود دیکھیے، کوئی پاکستان کا نام نہیں لے رہا۔ لیکن بی جے پی کی قیادت بار بار انڈیا کی حامی جماعتوں کو پاکستان نواز کہتی ہے۔
’ایسا لگتا ہے پاکستانی بیانیہ کشمیری سیاست میں پچھلے دروازے سے داخل ہو رہا ہے۔ اگر مسئلہ حل ہوگیا ہے تو قیدیوں کی رہائی اور پاکستان سے مذاکرات باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’کشمیر میں سیاست اور جمہوری ماحول بحال ہو جانے کا یہ مطلب نہیں ہے جو کچھ یہاں ہوچکا ہے سیاست دان اُس سے بے نیاز ہوجائیں اور لوگ ان کو ووٹ بھی ڈالیں۔‘
بالاکوٹ میں انڈین طیارے پاکستانی طیاروں سے کیسے بچے؟پراسرار پستول، شاطر سرغنہ اور دس کروڑ انعام: راولاکوٹ جیل سے فرار ہونے والے قیدی کون ہیں؟’ایک شخص نے ہیلمٹ پہن کر گولی چلائی‘: راولا کوٹ کی مسجد میں قتل ہونے والے ابو قاسم کشمیری کون تھے؟سکردو کا محاصرہ: وہ شہر جس پر قبضے کے لیے انڈیا اور پاکستان نے چھ ماہ تک جنگ لڑیاننت ناگ میں انڈین فوجی کرنل اور میجر کی ہلاکت راولاکوٹ میں ابوقاسم کشمیری کے قتل سے کیسے جڑی ہے؟