سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں: ’موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ہو گا‘

بی بی سی اردو  |  Sep 06, 2024

Getty Imagesچیف جسٹس نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’یہ ترامیم نہ تو آئین اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں‘

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے انٹراکورٹ اپیلوں پر متفقہ فیصلہ دیا ہے۔ اپیلوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد نیب آرڈیننس میں سنہ 2022 میں ہونے والی ترامیم اپنی پُرانی حالت میں بحال ہو گئی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان اپیلوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں کہ وہ ملک کے آئینی اداروں میں مداخلت کرے اور پارلیمنٹ کے گیٹ کیپر کا کردار ادا کرے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’یہ ترامیم نہ تو آئین اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔‘

سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پارلیمنٹ کو آئین سازی کا اختیار ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان یہ ثابت نہیں کر سکے کہ یہ ترامیم غیر آئینی ہیں۔‘

انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کرنے والے ججز میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں اگرچہ ان ترامیم کو آئینی قرار دیا تاہم انھوں نے وفاق کی اپیل کو مسترد کیا جبکہ باقی اپیلوں کو منظور کیا۔

انھوں نے کہا کہ وفاق کی اپیلیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی روشنی میں خارج کی جاتی ہیں اور اس کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کی جائیں گی۔

یاد رہے کہ ستمبر 2023 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔

اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری دن سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

نیب قانون میں کیا ترامیم کی گئی تھیں؟

نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا، تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔

اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔

نیب قانون میں جو اہم ترمیم کی گئی اس میں کہا گیا تھا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ نیب دھوکہ دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تب ہی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو۔

نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ ادارہ کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 40 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیےنیب ترامیم کالعدم: سپریم کورٹ نے احتساب کے قوانین میں کن اصلاحات کو رد کیا؟ایل این جی ریفرنس: نیب کی ایک بند فائل دوبارہ کیسے کھلی؟نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست: ’ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے‘سیاسی جماعتوں اور اداروں کے پاس موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔

ان ترامیم کے بعد چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے تین سال کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بنے گا۔

قانونی ماہرین اس عدالتی فیصلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کا فیصلہ موجودہ اور سابق حکمرانوں کے علاوہ پراپرٹی مافیا اور کریمنلز کے لیے عام معافی کے اعلان کے مترادف ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں موجودہ وزیر اعظم اور صدر کے خلاف نیب کیسزختمہو جائیں گے، وہیں اس کا فائدہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی ہوگا جن کے خلاف نیب نے توشہ حانہ کے دو کیسز دائر کر رکھے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد جہاں سینکڑوں مقدمات ختم ہو جائیں گے، وہیں نیب آرڈیننس میں ترامیم سے پہلے نیب کے اقدامات سے متاثرہ فریق نیب حکام کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کر کے دار رسی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس میں جو ترامیم کی گئی ہیں اس میں کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق اس وقت سے تصور ہو گا جب نیب آرڈیننس لاگو کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ان ترامیم کا سب سے زیادہ فائدہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان کو ہو گا کیونکہ کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف ایک سو متاثرہ افراد کو اکھٹا کرنا مشکل کام ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے میں پراپرٹی مافیا کو کلین چٹ دے دی گئی ہے اور اس عدالتی فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالکان اٹھائیں گے۔

دیگر قانونی ماہرین بھی اس معاملے پر ذوالفقار بھٹہ سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جاوید میر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’نیب آرڈیننس میں ان ترامیم کا فائدہ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ملے گا۔‘

Getty Images

انھوں نے کہا کہ عمران خان اور بشری بی بیٰ کے خلاف توشہ خانہ ٹو ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری خزانے کو 13 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد صرف 50 کروڑ روپے مالیت کی بدعنوانی کے مقدمات ہی نیب کے سپرد کیے جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانت منظور کی تھی، اس میں نیب کے گواہ اور چیف فنانشل آفیسر محمد زاہد نےکہا تھا کہ اس مقدمے میں عمران خان اور نہ ہی بشریٰ بی بی نے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا بلکہ اس کے اصل بینیفشری وہ طالب علم ہیں جو القادر ٹرسٹ سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

جاوید میر کا کہنا تھا کہ اسلام اباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں بھی لکھا تھا کہ محمد زاہد کے اس بیان کے بعد یہ معاملہ مزید تفتیش طلب ہے۔

قانونی ماہر مزید کہتے ہیں کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کو آگے بڑھانے کی منظوری وفاقی کابینہ سے بھی لی گئی تھی۔

اس حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ عدلتی فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں منظور نہ کرتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے الزام عائد کیا کہ نیب ترامیم کے ذریعے موجودہ حکمرانوں نے اپنے 11 سو ارب روپے کے کیسز معاف کروائے ہیں۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ عدالتی فیصلے کے ثمرات سابق وزیر اعظم عمران خان کے کیسز میں بھی ملیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم بیٹھ کر اس عدالتی فیصلے کا جائزہ لے گی، جو بھی انھیں اس میں ریلیف نظر آیا، اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے اس عدالتی فیصلے کو ایک درست عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے نیب آرڈیننس میں جو سقم موجود تھے وہ ختم ہو گئے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نیب کا قانون سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے سیاست دانوں کے خلاف پولیٹیکل انجینرنگ کے طور پر استعمال کیا، جس کے بارے میں عدالتیں بھی متعدد بار یہ آبزرویشن دے چکی ہیں کہ یہ قانون سیاسی وابستگیوں کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں جن قوانین میں تبدیلی کی گئی، ان میں ملزم کے حقوق کو سامنے رکھا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں نیب ملزم کو 90 دن کے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے سے پہلے انکوائری کے دوران ہی گرفتار کر لیتا تھا اور اس عرصے کے دوران ملزم کو ضمانت حاصل کرنے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔

نیب ترامیم کالعدم: سپریم کورٹ نے احتساب کے قوانین میں کن اصلاحات کو رد کیا؟ایل این جی ریفرنس: نیب کی ایک بند فائل دوبارہ کیسے کھلی؟نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست: ’ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More