نجکاری، غیر ضروری اداروں کا خاتمہ اور ’رائٹ سائزنگ‘: حکومت پاکستان کا اربوں روپے کی بچت کا منصوبہ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 28, 2024

Getty Images

51 برس کے محمد ارشد گذشتہ دو دہائیوں سے اسلام آباد میں ایک ’یوٹیلٹی سٹور‘ پر ملازمت کر رہے ہیں۔ سپروائزر کےعہدے پر فائز ارشدگذشتہ ہفتے معمول کے مطابق سٹور پر پہنچے ہی تھے جب میڈیا پر چلنے والی ایک خبر نے جیسے ان کے اوسان ہی خطا کر دیے۔ یہ خبر یوٹیلٹی سٹورز کی مستقل بندش سے متعلق تھی۔

محمد ارشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ٹی وی پر یہ خبر سننے کو ملی کہ ہمارے ادارے کو دو ہفتے کے اندر اندر بند کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ میرے ذہن میں فوراً بچوں کا خیال آیا کہ نوکری چلی گئی توان کی تعلیم کا کیا بنے گا، مہنگائی کے دور میں گھر کے خرچے کیسے پورے کروں گا۔‘

ان کے مطابق ’ہمیں تعجب ہوا کہ ہمیں اس متعلق کچھ بتایا گیا اور نہ کوئی رائے لی گئی اور ہمارے چھ ہزار کے قریب سٹورز بند اور 14 ہزار ملازمین کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔‘

محمد ارشد سمیت یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمین نوکریاں کھو جانے کے ڈر سے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں تاہم ایک جانب جہاں محمد ارشد سمیت کئی سرکاری ملازمین معاشی مستقبل کی وجہ سے پریشان ہیں، وہیں دوسری جانب وفاقی حکومت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ بڑھتے ہوئے مالی خسارے کو کیسے کم کیا جائے۔

اسی وجہ سے حکومت نے ’رائٹ سائزنگ‘ کے نام سے ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت مختلف اداروں کی نجکاری، غیر ضروریمحکموں کی بندش ہو سکتی ہے اور اس عمل کا بنیادی ہدف اربوں روپے کی بچت ہے۔

منگل کے دن وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق ’وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے، افرادی قوت کے صحیح استعمال، پالیسی سازی اور فیصلوں کے نفاذ میں غیر ضروری تعطل کو ختم کرنے اور صرف انتہائی ضروری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں پر وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورمنٹ کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ شروع کر دیا گیا ہے۔‘

اس سے قبل رواں برس جون میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدلعلیم خان کا کہنا تھا کہ حکومت 24 ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے جن میں قومی ایئر لائن پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، فرسٹ وومن بینک، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور دیگر شامل ہیں۔

تاہم یہ پہلی بار نہیں کہ کسی حکومت نے اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا ہو تو ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ یہ اصلاحات کیا ہیں اور کیا اس بار وفاقی حکومت اپنا حجم کم کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟

بی بی سی نے حکومتی وزرا، سیاسی رہنماؤں اور ماہرین سے بات کی تو علم ہوا کہ یہ منصوبہ دراصل کہیں بڑا ہے اور اگر حکومت اس بار اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر متعدد مزید وزارتیں اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے۔

چند روز قبل وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں قائم ’رائٹ سائزنگ کمیٹی‘ نے وزیر اعظم کو اس منصوبے پر بریفنگ دی تھی جس کے بعد وزیراعظم نے اس فیصلے کی منظوری کے لیے یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجنے کی ہدایت کی مگر پھر یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے فوری پیش نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنی۔

پیپلز پارٹی کے اختلافات پر نظر دوڑانے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ حکومت کا اصلاحات کا یہ پلان ہے کیا؟

حکومت کا منصوبہ ہے کیا؟

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے، افرادی قوت کے صحیح استعمال، پالیسی سازی اور فیصلوں کے نفاذ میں غیر ضروری تعطل کو ختم کرنے، اور صرف انتہائی ضروری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں پر وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورمنٹ کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ شروع کر دیا گیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ان وزارتوں کے 82 سرکاری اداروں کو ضم اور تحلیل کرکے 40 ایسے اداروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے جن میں ڈیجیٹائزیشن، سمارٹ منیجمنٹ، موثر گورننس، منصوبوں پر شفاف اور تیز عملدرآمد اور عام آدمی کو سہولیات کی بہتر فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ نے کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے اداروں کو ضم و تحلیل کرنے سے متوقع طور پر متاثر ہونے والے ملازمین کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کمیٹیقائم کر دی۔

اس کے ساتھ وفاقی کابینہ نے گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں کابینہ کی جانب سے منظور شدہ کفایت شعاری مہم کے اقدامات کو جاری رکھنے کی منظوری بھی دی جن میں کابینہ ارکان کا رضاکارانہ طور پر تنخواہ نہ لینا، انتہائی ضروری گاڑیوں مثلاً ایمیولینسس کے علاوہ سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی، نئے آلات و مشینری کی خریداری پر پابندی، نئی سرکاری آسامیوں کی تخلیق، سرکاری خرچ پر غیر ضروری بیرونِ ملک سفر اور بیرونِ ملک علاج پر پابندی شامل ہیں۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ افسر شاہی اور اشرافیہ غریب عوام کے ٹیکس پر عیش کریں۔

اس سے قبل رواں ماہ کی 16 تاریخ کو وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں اصلاحاتی کمیٹی کی جانب سے وزیر اعظم کو بریفنگ دی گئی اور پانچ وفاقی وزارتوں میں اصلاحات سے متعلق بتایا گیا جن میں کشمیر افیئرز اور گلگت بلتستان، سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن، انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن اینڈ نیشنل ہیلتھ سروسز شامل ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس سے اس وقت جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں وزارت کشمیر افئیرز اور گلگت بلتستان کو سٹیٹ اینڈ فرنٹیئر ریجن میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ ان پانچ وزارتوں میں موجود 28 مختلف محکموں کو بھی بند کرنے، نجکاری کرنے یا پھر ان محکموں کو فیڈرل یونٹس کو دینے کی تجویز دی گئی۔ ان وزارتوں کے اندر 12 اداروں کو مضبوط کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

اصلاحاتی کمیٹی کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کرنے اور صفائی، چوکیداری جیسے کام آؤٹ سورس کرنے کی تجویز کے ساتھ ساتھ اس پلان کے تحت گریڈ ایک سے 16 تک کی مختلف ملازمتوں کو مرحلہ وار ختم کرنا شامل ہے۔

حکومتی کمیٹی نے دوسرے مرحلے میں بھی پانچ وزارتوں کی نشاندہی کی ہے جن سے حکومت مکمل یا جزوی طور پر جان چھڑائے گی۔ ان وزارتوں میں تجارت، قومی تحفظ خوراک، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور سرمایہ کاری بورڈ شامل ہیں۔

Getty Imagesاس منصوبے سے کتنی بچت ممکن ہو سکے گی؟

وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ کابینہ کی اس کمیٹی کا حصہ ہیں جو اس وقت وفاقی سطح پر تمام وزارتوں، اداروں اور محکموں کا جائزہ لے رہی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو۔ بی بی سی نے ان سے حکومت کے اس پلان سے متعلق تفصیل سے بات کی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان کے ایسے ادارے جو سٹریٹجک یعنی ناگزیر نہیں، ان کی ہم نجکاری کریں گے یا پھر پبلک پرائیویٹ پارٹنرسپ میں دیں گے۔‘

’زیادہ تر اداروں میں بہت خسارہ ہے اور عوام بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔‘

ان کے مطابق ’تمام ان اداروں کو جو اہم نہیں، ان سے حکومت جان چھڑا لے گی۔ بہت کم ہی ادارے ایسے ہیں جو سٹریٹجک نوعیت یعنی ملک کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں۔‘

قیصر احمد شیخ کے مطابق ’ہم چاہتے ہیں حکومت ’گڈ گورننس‘ پر توجہ مرکوز کرے اور پرفارمنس دے۔ ہم ابھی غور کر رہے ہیں کہ کن وزارتوں اور محکموں کو ختم کرنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم وزارتوں کو کم کریں گے تاکہ اخراجات میں کمی ہو۔‘

قیصر احمد شیخ کے مطابق ’کابینہ غور کر رہی ہے کہ نئی سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی جائے، نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہو گی اور سب اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔‘

وزارت خزانہ کے سابق ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق یہ بچت ترقیاتی بجٹ کی صورت میں ہو گی یعنی ان وزارتوں اور محکموں کو ختم کر دیا گیا تو پھر ان کے لیے ترقیاتی بجٹ نہیں مختص کرنا پڑے گا۔

وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ کے مطابق اس وقت ’حکومت کے کل تقریباً 35 ہزار ارب روپے ان وزارتوں اور اداروں میں انوسٹمنٹ کی صورت میں موجود ہیں اور اس سرمایہ کاری کے بدلے میں حکومت کو ہر سال اوسطاً تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔‘

قیصر احمد شیخ کے مطابق ’پاکستان کے کل قرضوں کا حجم کوئی 80 ہزار ارب روپے کے قریب بنتا ہے تو پھر ایسے میں پاکستان کیوں اپنا 35 ہزار ارب ایسی جگہ بہا دے جہاں سے سرمایہ کاری کرنے سے منافع کے بجائے خسارے کا حساب لگانا پڑے۔‘

وفاقی وزیر کے مطابق بات یہیں نہیں رکتی اس کے بعد پھر آئی ایم ایف اور دیگر اداروں اور ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان ایک طرف آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پارٹنرز ممالک سے قرضوں میں نرمی اور مزید قرضوں کی درخواست کر رہا ہے تو ایسے میں کہیں زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آگے ملک کو معاشی استحکام کے رستے پر ڈالا جا سکے۔

واضح رہے کہ پاکستان چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اپنے قرضوں میں مزید مہلت کی درخواست کر رہا ہے تاکہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے سات ارب ڈالر حاصل کر سکے۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے اور ہم ان کے ساتھ مشاورت سے اس عمل کو آگے بڑھائیں گے۔

قیصر احمد شیخ نے کہا کہ سیاسی اتفاق رائے کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہی یہ سب ممکن ہو سکے گا۔ ان کے مطابق ’سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے متعدد بار اصلاحات کا یہ ایجنڈا آگے نہیں بڑھ سکا۔‘

Getty Imagesپیپلز پارٹی کو اصلاحات پر کیا اعتراضات ہیں؟

حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما چوہدری منظور نے بی بی سی کو بتایا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت سے یہ کہا ہے کہ مزید وزارتوں اور محکموں میں چھیڑ چھاڑ سے قبل ان 17 وزارتوں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے جنھیں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کیا جانا تھا۔

ان کے مطابق حکومت نے اب جو پلان دیا ہے اس کے تحت تو تمام وزارتوں اور ان کے متعدد محکموں کو مرحلہ وار ختم کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ صوبوں کو خود مختاری دینے کے لیے وفاق نے جن محکموں کو صوبوں کے حوالے کیا ان میں تعلیم، صحت، زراعت، آبپاشی، ماحولیات، ثقافت، توانائی، سیاحت، آبپاشی، کھیل، لوکل گورنمنٹ، انسانی حقوق، خوراک، ایکسائیز، ریونیو، ٹرانسپورٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات اور غیر قانونی تارکین وطن کی وزارتیں اور محکمے شامل ہیں۔

چوہدری منظور احمد نے ’ہائی پاور کمیٹی فار رائٹ سائزنگ‘ سے متعلق کہا کہ اس میں ’پیپلز پارٹی سے ایک رکن اور نجی شعبے سے ایک رکن ہیں جبکہ باقی سب ن لیگ کے نمائندے ہیں۔‘

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ جو کرنا چاہتے ہیں کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں اور اس حوالے سے انھوں نے تفصیلی رپورٹ مرتب کر کے اپنی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھیج دی ہے۔‘

چوہدری منظور کے مطابق وزیر خزانہ سول سروس ایکٹ میں تبدیلی بھی چاہتے ہیں اور متعدد ملازمین کو گھر بھیجنے کے خواہاں ہیں۔

ان کے مطابق ’اس وقت یوٹیلٹی سٹورز کا محکمہ حکومت سے ایک روپیہ بھی نہیں مانگ رہا بلکہ اسے اربوں روپے کے ٹیکس دے رہا ہے مگر پھر بھی اسے بند کیا جا رہا ہے۔ حکومت سرکاری عمارتوں اور جائیدادوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔‘

Getty Images’یہ باتیں کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں‘

حکومت کے اس منصوبے پر بی بی سی نے جن سیاسی، آئینی اور قانونی ماہرین سے بات کی ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ اصلاحات 14 برس قبل اس وقت ہو جانی چاہیے تھیں جب ملک کی پارلیمنٹ نے آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری دی تھی۔

تاہم ان کے مطابق ابھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور خزانے میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے یہ اقدام اٹھایا مگر ضروری ہے کہ پھر اسے ماضی کی طرح سیاسی سمجھوتے کی نظر نہ کر دیا جائے۔

منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ باتیں کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ابھی بھی ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت یہ اصلاحات نہیں کر سکے گی۔

یہ بھی پڑھیےمسلم لیگ نے وزارت خزانہ کے لیے اپنے ’آزمودہ‘ اسحاق ڈار کی بجائے محمد اورنگزیب کا انتخاب کیوں کیا؟عمران خان کا آئی ایم ایف کو خط ’سیاسی غلطی‘ ہے یا نئی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا مؤثر طریقہ؟معاشی بحران: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف امداد کتنی اہم ہے؟آئی ایم ایف پاکستان میں پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں چاہتا ہے؟

ندیم الحق کے مطابق پارلیمنٹ تک پہنچنے والے سب وزارتیں چاہتے ہیں اور پھر سیاسی بنیادوں پر نوکریاں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق جب تک غیر ضروری طور پر بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو گھر نہیں بھیجا جاتا تو ان اصلاحات کا زیادہ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔

ان کی رائے میں جہاں ایک طرف وزارتیں ختم کرنا انتہائی ضروری ہے وہیں اس وقت نوکریاں دی جا رہی ہیں۔

ندیم الحق کے مطابق ان کے ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق ’حکومت کے ایک چپڑاسی پر ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اور اس کے اوپر والے ملازمین کا خرچہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس وقت ’اسلام آباد میں 150 ٹریننگ اکیڈمیاں ہیں، جن کی اپنی عمارتیں اور ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں۔‘

ان کی رائے میں ’جو کام آسانی سے یونیورسٹیوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اس کے لیے اس قدر اخراجات بڑھا دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے اداروں کا قیام نوکریاں بانٹنے کا بہانہ ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق ’حکومت بہت زیادہ رقم الاؤنسز کی شکل میں دیتی ہے۔ بجلی، گھر اور پیٹرول دیا جاتا ہے مگر ملک کی معیشیت اس سب کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘

سول سروس سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بیوروکریٹس کو بہت زیادہ عملہ دیا جاتا ہے جس کی دنیا میں شاید کہیں مثال نہیں ملتی۔‘

’حکومت کی جیب خالی ہوئی تو اصلاحات یاد آئیں‘

تجزیہ کار ظفراللہ خان اٹھارویں آئینی ترمیم کے عمل میں خاصے متحرک رہے۔ انھوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں جو باتیں تھیں ان پر اگر 14 برس قبل عمل کر دیا جاتا تو یہ وقت ضائع نہ ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اب صرف اسلام آباد میں واقع یونیورسٹیوں کے معاملات دیکھے گی جبکہ صوبوں میں اپنے کمیشن ہوں گے ’مگر پھر ایسا ہوا نہیں اور اس عرصے کتنی ہی نئی بھرتیاں ہوئیں اور وسائل ضائع ہوئے۔‘

ان کے مطابق ’جہاں کچھ وزارتوں کو صوبوں کو منتقل کیا گیا تو وہیں مختلف ناموں سے بالکل اسی طرح کی وزارتیں اور قائم کر دی گئیں جیسے لیبر کی وزارت ختم ہوئی تو پھر ہیومن ریسورس سامنے آ گئی اور انوائرنمنٹ کی وزارت ختم کی گئی تو پھر کلائمنٹ چینج کی وزارت بنا دی گئی۔ صحت کی وزارت ختم کی گئی تو پھر نیشنل ہیلتھ کے نام سے وہی کام شروع کر دیا گیا۔‘

ان کے مطابق جہاں درجہ چہارم کی ملازمتوں پر سیاست چلتی رہی تو وہیں دوہرا ظلم یہ کیا گیا کہ صوبوں کو نیا نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ نہیں دیا جا رہا۔ ان کے مطابق ’ابھی جب حکومت کی جیب خالی ہوئی تو پھر اصلاحات کا خیال آیا۔‘

Getty Images

ظفرااللہ خان کے مطابق اس وقت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت یہ سب کسی وژن کی بنیاد پر نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے کر رہی ہے۔

ظفراللہ خان کے مطابق ’وفاقی حکومت کا زیادہ خرچہ پینشن کی مد میں کرنا ہوتا ہے۔ اس شعبے میں اصلاحات بہت ضروری ہیں کیونکہ تیسری نسل تک سرکاری خزانے سے پینشن لے رہی ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق حکومت نے جب ایف بی آر میں اصلاحات کی کوشش کی تو وہاں سے بڑا سخت ردعمل سامنے آیا۔ ان کی رائے میں ’ہماری پوری معیشیت غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مہلت پر چل رہی ہے اور حکومت صرف وقت گزار رہی ہے۔‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے احمد بلال محبوب اس بات سے متفق ہیں کہ اصلاحات کا فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا کیونکہ ’ایک ہی طرح کے ادارے اور وزارتوں کا مطلب قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔‘

ان کے مطابق وزیر خزانہ جس طرح ان اصلاحات کو آگے لے کر جا رہے ہیں تو انھیں وہ دباؤ معلوم ہے جو اب پاکستان پر ہے۔ آئی ایم ایف کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ اصلاحات کان پکڑ کر کروائی جا رہی ہیں۔‘

اصلاحات سے متعلق سیاسی اختلافات پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نجکاری کی بھی مخالف ہے مگر اب یہ چیزیں ’آؤٹ آف فیشن‘ یعنی غیرمتعلقہ ہو چکی ہیں۔

ان کے مطابق اس وقت پاکستان کی معیشیت جہاں پر پہنچ چکی ہے اب سیاسی جماعتوں کو اپنے نکتہ نظر کو بدلنا ہوگا۔ ان کے مطابق حکومتی وزارتوں اور محکموں میں ضرورت سے زیادہ بھرتی کیے جانے والے عملے کی بھی خبر لینا ہوگی۔

کیا حکومت کے اس منصوبے کے نتیجے میں کوئی سرکاری ملازم نوکری سے جائے گا؟

اس وقت وفاقی سطح پر 33 وزارتیں ہیں اور ہر وزارت میں مختلف ڈویژن اور محکمے کام کر رہے ہیں، جن میں لاکھوں ملازمین بھی ہیں۔

وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ کے مطابق ان ملازمین کو ’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انھیں یا تو گولڈن ہینڈ شیک کی آفر دی جائے گی یا پھر انھیں کہیں اور ایڈجسٹ کر لیا جائے گا۔‘

ان کے مطابق صرف اس وقت جو ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیاں ہیں ان کو ختم کیا جا رہا ہے اور نئی نوکریوں کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر نجیب نے کہا کہ اس وقت حکومت کا ملازمین کو گھر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ جو وزارتیں اور محکمے ختم بھی ہوئے تو ان کے ملازمین کو سرپلس پول میں ڈال دیا جائے گا۔

’یہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی مرضی ہوتی ہے کہ انھیں کہیں کسی اور جگہ تعینات کر دے یا پھر ریٹائرمنٹ تک انھیں صرف تنخواہیں دیتی رہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر سرکاری ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک نہیں دیا جاتا۔‘

کیا نئی حکومت ملک کو تاریخی قرضوں کے چنگل سے نکال پائے گی؟آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟کیا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کی فوری مدد نہیں کر پا رہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More