قدیم ہندوستان کے بادشاہ اشوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے 40 سالہ دور حکومت میں انھوں نے تقریباً پورے برصغیر کو ایک حکومت کے تحت متحد کر دیا تھا۔
جنوبی ہند کی ریاستوں تمل ناڈو اور کیرالہ کو چھوڑ کر آج کا پورا انڈیا، پاکستان اور کم از کم افغانستان کا مشرقی حصہ اشوک کے دائرہ اختیار میں تھا۔
یہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسے مذہب سے دنیا بھر کو متعارف کرانے میں بھی کامیاب رہے جس کے پیروکار ان کے وقت میں بہت کم تھے۔ انھوں نے ایسے اخلاقی افکار و خیالات متعارف کروائے جن کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تاریخ دان چارلس ایلن اپنی کتاب ’اشوک دی سرچ فار انڈیاز لوسٹ امپیرر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اشوک کو بجا طور پر ہندوستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔‘
وہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے ہندوستان کو بحیثیت ایک ریاست متحد کیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نےگاندھی سے بہت پہلے ہی عدم تشدد کے تصور کو رائج کیا تھا۔ وہ شاید دنیا کے پہلے بادشاہ تھے جنھوں نے ایک فلاحی ریاست قائم کی تھی۔
اشوک مختلف لوگوں کے سامنے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کسی کے لیے وہ ایک فاتح ہیں جنھوں نے جنگ کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی فتوحات کا سلسلہ ترک کر دیا۔ کسی کے لیے وہ ایک درویش صفت ہیں جبکہ کسی کے لیے وہ درویش اور بادشاہ کا مجموعہ ہیں۔
کسی کے لیے وہ ایک سیاسی ذہن ہے جو انسانی اقدار کی گہری سمجھ رکھتا تھا۔ عصر حاضر کی معروف مورخ رومیلا تھاپر اپنی کتاب ’اشوک اینڈ دی ڈیکلائن آف دی موریا‘ میں لکھتی ہیں کہ اشوک نے اپنے وقت کی کئی طریقوں سے نمائندگی کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے وقت کو سمجھا اور ہندوستانی تناظر میں اس کی ضروریات پوری کیں۔
موریہ خاندان کے تیسرے حکمران
شہنشاہ اشوک کی کہانی ان کے دادا چندرگپت موریہ سے شروع ہوتی ہے جو پہلے پہل مگدھ ریاست کے تخت پر بٹھے تھے۔
اشوک چندرگپت موریہ کے پوتے تھے۔ 323 قبل مسیح میں سکندر کی موت کے ایک یا دو سال کے اندر اندر دریائے سندھ کے مشرق میں یونانی تسلط ختم ہونا شروع ہو گیا۔
چندرگپت موریہ نے پہلے تو دھنا نندا سے شکست کھائی لیکن پھر اسے شکست دے کر شمالی ہندوستان کے غیر متنازع حکمران بن گئے۔
چندرگپت موریہ کی فوج اپنے 24 سالہ دور حکومت میں ناقابل تسخیر رہی۔ 305 قبل مسیح میں جب بابل اور فارس کے نئے حکمران سلیوکس نے سکندر کے ہاتھوں کھوئی ہوئی زمینوں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو اسے چندرگپت موریہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
چندرگپت موریہ کے بعد بندوسار مگدھ کے بادشاہ بنے۔ چانکیہ باپ کے بعد بیٹے بندوسار کی بھی رہنمائی کرنے لگے۔ ان کے پوتے اور شاگرد رادھاگپت نے اشوک کے مگدھ کا بادشاہ بننے میں اہم کردار ادا کیا۔
اے ایل باشم اپنی کتاب ’دی ونڈر دیٹ واز انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بندوسار کا بیٹا سوسیما ان کے تخت کا وارث یا ولی عہد تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس کے بعد وہی مگدھ کا بادشاہ بنے گا۔‘
’بندوسار کے جانشینوں کی فہرست میں اشوک کا نام کافی نيچے تھا۔ وہ چھوٹے قد کا موٹا شخص تھا۔ اسے جلد کی بیماری تھی جس کی وجہ سے وہ بدصورت نظر آتا تھا۔‘
شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے والد اسے پسند نہیں کرتے تھے اور اسے ممکنہ وارثوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔
ودیشا میں تاجر کی بیٹی سے محبت
یہی وجہ تھی کہ جب راجدھانی پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) سے دور تکشلا میں بغاوت ہوئی تو راجہ بندوسار نے اپنے بیٹے اشوک کو اسے کچلنے کے لیے بھیجا۔
اس کے بعد اسے شہنشاہ کے نمائندے کے طور پر وسطی ہندوستان میں اجین بھیج دیا گیا۔ وہاں ودیشا میں انھیں ایک مقامی تاجر کی خوبصورت بیٹی مہادیوی ساکیا کماری سے محبت ہو گئی۔
رومیلا تھاپر اپنی کتاب ’اشوک اینڈ دی ڈیکلائن آف دی موریا‘ میں لکھتی ہیں کہ ’دیپ وامس میں اس شادی کا کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن اشوک کے ان سے دو بچے مہندا اور سنگھامترا تھے، جنھیں بعد میں بدھ مت کی تبلیغ کے لیے سری لنکا بھیجا گیا تھا۔‘
’جب اشوک راجہ بنے تو مہادیوی نے پاٹلی پتر جانے کے بجائے ودیشا میں رہنے کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ دیوی بدھ مذہب کو ماننے والی تھی اور ودیشا اس وقت بدھ مت کا مرکز تھا۔‘
دوسری بات یہ کہ وہ ایک تاجر کی بیٹی تھی اور اس کی سماجی حیثیت شاہی خاندان کے لوگوں کی سطح پر نہیں تھی۔
اپنے بھائیوں کو قتل کر کے تخت پر قبضہ کیا
بندوسار نے اشوک کے بڑے بھائی سوسیما کو اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ لیکن 274 قبل مسیح میں ایک اور بغاوت ہوئی اور اس بار شہزادہ سوسیما کو اس سے نمٹنے کے لیے بھیجا گیا۔
یہ بغاوت پچھلی بغاوت سے زیادہ سنگین تھی اس لیے شہزادہ سوسیما کو زیادہ دیر تک تکشیلا میں رہنا پڑا۔
اسی دوران بادشاہ بندوسارا شدید بیمار پڑ گیا۔ اس نے سوسیما کو واپس آنے کا حکم دیا اور اشوک کو اس کی جگہ تکشلا جانے کا حکم دیا۔
اسی دوران اشوک کا حامی وزیر رادھا گپتا نے مداخلت کی اور شاہی حکم کو روکنے کی کوشش کی۔ چارلس ایلن لکھتے ہیں کہ ’اشوک نے اپنی بیماری کا بہانہ کیا اور اپنے والد سے کہا کہ وہ اسے عارضی بادشاہ قرار دیں۔‘
یہ سنتے ہی بندوسار کو مرگی کا دورہ پڑا اور اس کی موت ہو گئی۔ جب سوسیما پاٹلی پترا واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے چھوٹے بھائی اشوک نے پاٹلی پترا پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کے مرکزی دروازے کی حفاظت یونان سے لائے گئے کرائے کے فوجی کر رہے ہیں۔
پاٹلی پترا کے مشرقی دروازے پر سوسیما کو قتل کر دیا گیا جو کہ اقتدار کے لیے چار سالہ جدوجہد کی بنیاد بنا۔ اس دوران اشوک نے اپنے دیگر 99 سوتیلے بھائیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے بعد ہی وہ اپنے آپ کو مگدھ کا مطلق العنان بادشاہ قرار دینے میں کامیاب ہوا۔
مورخ سنیل کھلنانی اپنی کتاب ’انکارنیشنز: انڈیا ان ففٹی لائیوز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قتل کیے جانے والے بھائیوں کی تعداد دراصل چھ تھی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تخت کے لیے خونریز جدوجہد کئی سال تک جاری رہی۔ اس وقت اشوک کی عمر 34 سال تھی۔‘
مغل بادشاہ اکبر جن کا انجام اُن کے ’دین الٰہی‘ کی طرح کچھ اچھا نہ ہواکیا مغل بادشاہ ہندوستان سے واپس وسطی ایشیا جانا چاہتے تھے؟شاہ عالم ثانی: منھ بولے بیٹے کے ہاتھوں اندھے ہونے والے ہندوستانی بادشاہ جن کے دور میں مغل حکمرانی دلی تک محدود ہو گئیہمایوں: جب ایک ’شکست خوردہ‘ مغل شہنشاہ کی موت سیڑھیوں پر پاؤں پھسلنے سے ہوئیاشوک کی چھ بیویاں
اشوک نے ایک دوسری شہزادی سے شادی کر کے اپنی تاجپوشی کا جشن منایا۔
اشوک کے حرم میں بہت سی عورتیں تھیں لیکن ان میں سے بہت سی انھیں پسند نہیں کرتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اشوک نے انھیں زندہ جلوا دیا تھا۔ شاید اسی لیے اسے ’کنڈ اشوک‘ بھی کہا جاتا تھا۔
پاٹلی پتر کے تخت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد اشوک نے اپنی بیوی اور دو بچوں کو ودیشا سے بلا لیا۔
اشوک کی کم از کم چھ بیویاں تھیں۔ الہ آباد میں نصب نوشتہ میں کروواکی کو اشوک کی دوسری بیوی بتایا گیا ہے۔
اشوک کی سب سے پیاری اور اہم بیوی آسندھی مترا تھی جو اشوک کی حکمرانی کے 13 ویں سال میں فوت ہو گئی۔
اشوک 265 قبل مسیح میں بدھ مت کا پیرو بن گیا، حالانکہ اس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے پہلے ڈیڑھ سال تک اس مذہب کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔
بدھ مت کا پیرو بننے کے دو سال کے اندر ان کے بچے مہندا اور سنگھامترا بھی بدھ بھکشو اور راہبہ بن گئے۔
Getty Imagesکلنگ کی خونی جنگ
اشوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے انگریزوں سے پہلے ہندوستان کے سب سے بڑے علاقے پر حکومت کی۔
جس وقت اشوک تخت پر بیٹھا، روم اور کارتھیج کے درمیان پہلی پنک جنگ ہو رہی تھی۔ فارس میں ایک خونریز تصادم جاری تھا اور چینی شہنشاہ اپنی عظیم دیوار تعمیر کرا رہا تھا۔
اشوک نے 262 قبل مسیح میں کلنگ کے خلاف جنگ کی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے اور جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے اتنی ہی تعداد میں مزید لوگ مارے گئے۔
ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو یا تو قید کیا گیا یا جلاوطن کر دیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
پیٹرک اولیویل اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اشوک پورٹریٹ آف فلاسفر کنگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سمیت گوہا نے اس وقت کلنگ کی آبادی کا تخمینہ نو لاکھ 75 ہزار بتایا ہے۔ اگر آبادی کو 10 لاکھ بھی مان لیا جائے تو ہلاکتیں کل آبادی کا 20 فیصد ہوں گی اور اگر ہم قیدیوں کی تعداد کو بھی شامل کریں تو اس جنگ سے کل آبادی کا 35 فیصد متاثر ہوا ہے، اس نقطہ نظر سے اسے جنگ کے بجائے قتل عام یا نسل کشی کہنا ناانصافی نہیں ہوگی۔
گوتم بدھ کے پیروکار بنے
اس فتح نے اشوک کی سلطنت کو خلیج بنگال تک بڑھا دیا اور وہ اگلے 37 سال تک اس پر تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ لیکن یہ فتح اس قدر خونی تھی کہ اس نے اشوک کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔
انھوں نے کھلے عام اس پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی آ گئی۔ اشوک نے گوتم بدھ کے نظریات کو اپنایا جو ہندوستان میں ابھی نئے نئے تھے۔
تنوع جو اشوک کے دور میں ہندوستانی معاشرے میں موجود تھا، پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس طرح کے متنوع معاشرے کو ایک ساتھ رکھنے کے لیے ایک عالمی نقطہ نظر کی ضرورت تھی جو کافی لچیلی ہو۔
چارلس ایلن لکھتے ہیں کہ ’کلنگ کی جنگ نے اشوک کو ایک برائے نام بودھ سے ایک مذہبی بودھ میں تبدیل کر دیا۔ اس وقت سے شہنشاہ اشوک نے اپنی حکمرانی کو مہاتما بدھ کی تعلیمات میں موجود اخلاقی اقدار کے گرد ڈھالا۔
’ایک اچھے حکمران کے طور پر اشوک نے اپنے آپ کو اپنے لوگوں کے لیے دستیاب کرایا۔ لیکن صرف چند ایک ہی ان کے بولے ہوئے الفاظ سن سکتے تھے۔
'اشوک کی خواہش تھی کہ ساری دنیا ان کی بات سنے۔ اس لیے انھوں نے یہ پہل کی کہ انھیں تحریری زبان میں پیش کیا تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔‘
لوگوں کی زبان میں پیغام
اشوک نے اپنے پیغامات پراکرت زبان میں لکھے تھے جو اس وقت ان کی پوری سلطنت میں بولی جاتی تھی۔ سنیل کھلنانی لکھتے ہیں کہ ’موریہ شہنشاہوں میں اشوک کا ابلاغ کا انداز منفرد تھا۔‘
ساتویں حکم نامے میں اشوک نے لکھا تھا کہ جہاں کہیں بھی پتھر کے ستون یا پتھر کے ٹکڑے ہوں وہاں ان کے الفاظ کندہ کیے جائیں تاکہ وہ طویل عرصے تک موجود رہیں۔
’جب تک میرے بیٹے پوتے حکمرانی کرتے رہیں یا جب تک سورج اور چاند چمکتے رہیں گے لوگ یہ احکامات پڑھ سکتے ہیں۔ زیادہ تر پتھر پر کندہ تحریروں میں اشوک کا ذکر ’وہ‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔
لیکن بعض چٹانوں پر کندہ نوشتہ جات میں ’میں‘ کا بھی استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں ان پتھروں کے نوشتہ جات میں ان کی حساسیت کی جھلک ملتی ہے۔
اشوک کے زیادہ تر چٹانوں پر کندہ نوشتہ جات پراکرت زبان کے برہمی رسم الخط میں ہیں۔ یونانی اور آرامی رسم الخط میں پتھر کے کچھ نوشتہ جات بھی ملے ہیں۔
Getty Imagesرواداری اور عدم تشدد پر زور
اشوک نے ’دھم‘ کے تصور کو اپنایا۔ ’دھم‘ کی بنیاد روحانی پاکیزگی یا مقدس رسومات پر نہیں تھی بلکہ دنیاوی طرز عمل پر تھی۔
یہ خیال رواداری کے حق میں تھا اور تشدد کے خلاف تھا۔ رومیلا تھاپر کہتی ہیں کہ ’پہلا اصول جس کو اشوک نے سب سے زیادہ اہمیت دی وہ مختلف عقائد کا بقائے باہمی تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سب کو بقائے باہمی کے جذبے کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھنا ہو گا۔‘
’آپ کو دوسرے لوگوں کے فرقوں کا احترام کرنا ہوگا، کیونکہ دوسروں کے فرقوں کا احترام کرنے سے ہی آپ اپنے فرقے کا احترام کر سکتے ہو۔‘
’یہ دھم کا ایک بنیادی اصول ہے۔ مجھے یہ دلچسپ لگتا ہے کہ اس پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ اس وقت فرقوں کے درمیان بہت زیادہ دشمنی رہی ہو گی۔‘
دھم کے مطابق حکمران کا فرض ہے کہ وہ رعایا کی فلاح و بہبود، ان کی صحت اور خوشی کے بارے میں سوچے اور اس سمت میں کام کرے۔
سڑک کے کنارے برگد یا آم کے درخت لگانا اور مسافروں کے کھانے اور آرام کا انتظام کرنا بھی بادشاہ کا فرض ہے۔
اشوک کے سب سے زیادہ اثر انگیز خیالات 12ویں چٹان کے فرمان میں ہیں۔ جس میں مذہبی رواداری پر زور دیا گیا ہے۔ اشوک اسے زبان پر قابو رکھنا کہتے ہیں۔
چٹان کے نوشتہ میں لکھا ہے کہ ’جو شخص انتہائی عقیدت کے ساتھ اپنے مذہب کی تعریف کرتا ہے اور دوسرے مذاہب پر تنقید کرتا ہے وہ اپنے ہی مذہب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے، ہر کسی کو دوسرے کے خیالات سننا چاہیے اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔‘
Getty Imagesاشوک کی موت
اشوک کی موت کے بعد موریہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ یہ اس وقت شروع ہوا جب ان کا مذہبی عقیدہ اپنے عروج پر تھا۔
اشوک کی مذہبی عقیدت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انھوں نے اپنا سارا خزانہ خالی کر دیا۔ بدھ مت کی کہانیوں کے مطابق انھوں نے اپنا سب کچھ عطیہ کر دیا۔
لی رونگزی اپنی کتاب ’دی گریٹ ڈائنیسٹی ریکارڈ آف ویسٹرن ریجن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب اشوک بیمار تھا اور بستر مرگ پر تھا اور جان گیا تھا کہ اب وہ زندہ نہیں رہے گا تو اس وقت وہ اپنے تمام جواہرات اچھے مقاصد کے لیے عطیہ کرنا چاہتا تھا لیکن تب تک ان کے وزیر کا زور چلنے لگا تھا اور انھوں نے اشوک کو ایسا کچھ نہیں کرنے دیا جو وہ چاہتے تھے۔‘
اشوک کا انتقال 232 قبل مسیح میں ہوا۔
موریہ خاندان کا خاتمہ
برہدرتھ موریہ خاندان کا آخری بادشاہ ہوا جسے 81-180 قبل مسیح میں اس کے کمانڈر پشیامتر نے قتل کر دیا۔
اور پھر اس نے بعد میں شونگ خاندان کی بنیاد رکھی۔ موریہ خاندان کی سلطنت کل 137 سال تک قائم رہی۔
رومیلا تھاپر لکھتی ہیں کہ ’ہان اور رومن جیسی دیگر سلطنتوں کے مقابلے میں موریہ خاندان بہت ہی مختصر مدت کا تھا۔ اس کا عروج چندرگپت موریہ کی فتوحات کے ساتھ ہی ہوا۔ یہ اپنے پوتے اشوک کے دور میں اپنے عروج پر پہنچا، لیکن اس کے بعد اشوک کی سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ بیٹے اور پوتے اپنے دادا کے قد کے نہیں تھے ان کی حکمرانی بھی بہت سے دعویداروں میں تقسیم تھی۔
وہ اپنے والد اور دادا کی طرح لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اشوک کی طرح پتھر کا کوئی نوشتہ نہیں چھوڑا۔
Getty Imagesقومی پرچم کے درمیان میں اشوک چکرآزاد ہندوستان نے اشوک کی میراث کو اپنایا
اشوک کی موت کے بعد موریہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ اشوک کو ہندوستانیوں نے بھلا دیا۔ آہستہ آہستہ پراکرت زبان اور برہمی رسم الخط کا استعمال بھی ختم ہو گیا اور لوگ نوشتہ جات پر لکھے پیغامات کو پڑھنا بھول گئے۔
قسمت کا کھیل دیکھیں کہ اشوک کو 19ویں صدی میں برطانوی مورخین ولیم جونز اور جیمز پرنسپ نے دوبارہ دریافت کیا۔
انھوں نے لوگوں کو برہمی رسم الخط کا مطلب سمجھا دیا۔
ہندوستان کی آزادی سے صرف ایک ماہ قبل جولائی 1947 میں دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے ہندوستانی ترنگے کے بیچ میں اشوک کے چکر کو رکھ کر قومی پرچم کے ڈیزائن پر فیصلہ کرنے کی تجویز پیش کی۔
انھوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم نے نہ صرف اشوک کی اس علامت کو اس جھنڈے کے ساتھ جوڑا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی جو نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی تاریخ کی اہم شخصیات تھیں۔
اشوک ہندوستانی عوام کے لیے ایسی متاثر کن شخصیت تھے کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کم و بیش اشوک کو نئی قوم کے سرپرست کا درجہ دیا۔
اشوک کے چار شیروں کو نہ صرف ہندوستانی ڈاک ٹکٹوں پر دکھایا گیا ہے بلکہ ہندوستان کا یہ ریاستی نشان پوری ہندوستانی زندگی کا ایک اٹوٹ نشان بن گیا ہے۔
یہ پرامن بقائے باہمی کی علامت بھی ہے۔ شہنشاہ اشوک کا عوامی زندگی میں بھی تحمل اور ضبط نفس کا پیغام آج ہندوستانیوں کے لیے کسی ترغیب یا تحریک سے کم نہیں۔
’چاند سے بھی خوبصورت‘ قبیلے ایبک کا ’سخی غلام‘ جو ہندوستان کا بادشاہ بناکیا 111 سالہ بڑھیا کی کہانی نے بابر کو ہندوستان کی فتح کا خواب دکھایا؟بادشاہ بابر کی لاڈلی بیٹی گلبدن بیگم جنھوں نے حرمین کے قیام کے دوران سلطنت عثمانیہ کے فرمان کو بھی ٹھکرا دیاجہاں آرا: شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنیرابرٹ کلائیو: جنھیں احساس جرم نے اپنا ہی گلا کاٹنے پر مجبور کر دیااکبر کی وہ پالیسیاں جن کے جاری رہنے سے ہندوستان کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھی