خواتین کی تنہا سیاحت میں ٹور کمپنیوں کا کردار: ’پہلے والدین اکیلے کیا، دوستوں کے ساتھ بھی شمالی علاقوں کو نہیں جانے دیتے تھے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 26, 2024

سوشل میڈیا پر ہمیں اکثر ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں کبھی کوئی خاتون اکیلے بائیک پر کسی خوبصورت شہر میں گھوم رہی ہے تو کبھی کوئی اپنا سب کچھ بیچ کر دنیا گھوم رہی ہوتی ہے۔ حالیہ عرصے میں سولو فی میل ٹریولرزیعنی خواتین کے اکیلے سیر و سیاحت کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ ایسی ٹور آپریٹر کمپنیاں ہیں جو اکیلے سفر کرنے والی خواتین کے لیے سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ تو کیا یہی کمپنیاں اس ٹرینڈ میں اضافے کی وجہ ہیں؟

ایمن عبداللہ ایک پرائیوٹ سکول کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں بطور ڈپٹی جنرل مینیجر کام کرتی ہیں۔ سنہ 2016 سے لے کر اب تک ایمن 13 ممالک کا سفر کر چکی ہیں۔ 2016 میں پہلی بار ایمن جہاز پر بیٹھی تھیں اور اُس کے بعد سے وہ اکیلے ہی دنیا گھوم رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اُس وقت میرے والدین بہتفکر مند تھے۔ اُن کو میری حفاظت کی سب سے زیادہ فکر تھی۔ وہ مجھے کہیں بھیجنے سے پہلے چھ بار سوچتے تھے اور دوستوں کے ساتھ جانے کی اجازت بھی نہیں ملتی تھی۔‘

ایمن کو بھی اُسی سوچ کا سامنا کرنا پڑا جو اُن جیسی کئی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔ ایمن بتاتی ہیں کہ ’اُن کے والدین انھیں اکیلے کیا دوستوں کے ساتھ بھی شمالی علاقوں کی سیر کے لیے نہیں جانے دیتے تھے۔‘

ایمن نے دنیا گھومنے کا ارادہ کیا، اُنھوں نے ایسی ٹور آپریٹر کمپنی کی تلاش شروع کی جس کے ساتھ وہ باآسانی گھوم پھر سکیں۔ ایسے میں ان کی نظر ایک ایسی کمپنی پر پڑی جو صرف خواتین کے لیے کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سیرو سیاحت کا ارادہ کیا تو ایک کمپنی مجھے ملی جو خواتین کی ہر طرح سے رہنمائی کر رہی تھی۔ اُنھوں نے ٹور شروع ہونے سے پہلے سب کچھ اچھے سے بتایا۔ سکیورٹی سے متعلق بھی تمام سوالات کے جوابات دیے تھے۔ مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ میں اب گھر والوں کو آسانی سے راضی کر لوں گی۔‘

ایمن کی زندگی میں تبدیلی اُس وقت آئی جب اُن کی والدہ نے اجازت دینے سے قبل شرط رکھی کہ وہ اس کمپنی کے لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں اور دیکھنا چاہتی ہیں کہ ان کے ساتھ کون کون جا رہا ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیںزہرہ 30 سے زیادہ ممالک میں ’حلال چھٹیاں‘ گزار چکی ہیں مگر یہ حلال چھٹیاں ہیں کیا؟روزی گیبریئل: قسمت مجھے پاکستان لے کر آئیبری شہرت، مہنگائی یا سستے متبادل: ترکی کے ہوٹل خالی کیوں پڑے ہیں؟

ایمن بتاتی ہیں کہ اُن کی والدہ اس کمپنی کے مالک سے ملیں جس کے بعد ایمن نے اپنا پہلا بین الاقوامی دورہ ترکی کا کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ایسی کمپنی کے ساتھ سفر کر کے پتا چلا کہ اس طرح کی کمپنیوں کا کردار کتنا اہم ہے کیونکہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سامان چیک ان کہاں اور کیسے کروانا ہے، دوسرے ملک میں جا کر ایئرپورٹ سے ٹیکسی یا بس کیسے لینی ہے، رقم کیسے تبدیل کروانی ہے۔‘

ایمن کے اس دورے نے اُن کو اس قدر خود مختار بنایا کہ اس کے بعد اُنھوں نے کئی ممالک کا اکیلے سفر کیا اور آج وہ دوسری خواتین کو بھی اس بارے میں سوچنے کا کہتی ہیں۔ ایمن کا کہنا ہے کہ ’ایسی کمپنیوں کی موجودگی ہی شاید وہ وجہ بنی ہے جس کی وجہ سے اُن کے گھر میں ذہنیت تبدیل ہوئی ہے۔‘

BBCایمن عبداللہ

ایمن کی طرح ہدیہ کھوسہ کو بھی دنیا گھومنے کا بے حد شوق تھا۔ مگر معاشرے کے نظریات اُن کے شوق کے آگے آڑے آتے رہے۔ ایمن رحیم یار خان سے تعلق رکھتی ہیں اور اب تک وہ 15 سے زائد ممالک کا سفر کر چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا تعلق چھوٹے شہر سے ہے پر میرے خواب بہت بڑے ہیں۔ میں نے تحقیق کی کہ مجھے کوئی ایک کمپنی مل جائے جس کی مدد سے میں والدین کو منا سکوں۔‘

ہدیہ کا معاملہ تھوڑا مختلف اس طرح ہے کہ پہلے انھوں نے اپنی بہن کے ہمراہ دو ممالک کا سفر کیا پھر اُن کو اندازہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں سفر کرنے کے لیے اُنھیں بہت سی معلومات درکار ہیں کیونکہ اُن کو اپنی بہن کے ہمراہ سفر کرنے میں بہت مشکل پیش آئی تھی جس کی وجہ سے اُن کے والدین نے اُن کو اکیلے گھومنے سے منع کر دیا تھا۔

اس کے بعد ہدیہ نے ایسی ٹریول کمپنیکی تلاش شروع کی جو اُن کو نا صرف دنیا گھومنے کی سہولت فراہم کریں بلکہ اُن کو اس قابل بنائیں کہ وہ اکیلے بھی آسانی سے کسی بھی جگہ سفر کر سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے مختلف کمپنیوں میں ایک چیز مشترکہ دیکھی وہ یہ تھی کہ سب کارپوریٹ کلائنٹس کو بھی لے کر جا رہے تھے، جس میں لڑکے اور لڑکیاں تھے۔ جس سے میں اور میرے گھر والوں کو اطمینان نہیں آرہا تھا۔ اسی دوران مجھے انسٹاگرام پر ایک کمپنی ملی جو خواتین کے لیے تھی۔ میں نے ان سے اتنے سوال کیے مگر اُنھوں نے مجھے ہر سوال کا جواب دیا جس سے میں اور میرے گھر والوں کا اعتماد بڑھا۔‘

BBCہدیہ کھوسہکیا ٹور کمپنیاں اکیلے سیاحت کرنے والی خواتین کے رجحان میں اضافے کی وجہ ہیں؟

فواد ملک پاکستان میں ایک ایسی ہی ٹور کمپنی چلاتے ہیں، جو صرف خواتین کے لیے سہولیات فراہم کرتی ہے۔ اُن کی کمپنی پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کو سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اور تین خواتین کو سفر پر لے جانے سے شروع ہونے والی یہ کمپنی اب ہر ٹور پر 60 سے زیادہ خواتین کو لے کر جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے 2013 میں یہ کمپنی شروع کی اور اُس وقت یہ واحد کمپنی تھی جو خواتین کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کمپنی کو بنانے سے پہلے میں خود 30 ممالک گھوم چکا تھا۔‘

اس دوران فواد نے نوٹ کیا کہ ’پاکستان سے دنیا گھومنے والی خواتین کی تعداد انتہائی کم تھی‘ دنیا میں پاکستانی سیاحوں کی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے اُنھوں نے یہ کمپنی شروع کی۔ اور آج اُن کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کئی ممالک گھوم چکی ہیں۔

فواد آغاز میں کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرتے تھے، اس وجہ سے اُن کو پہلے سفر پر ہی بہترین ردِ عمل ملا۔

فواد نے یہ بھی بتایا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا اُنھوں نے جب یہ کام شروع کیا تو اُنھیں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے آغاز میں لاہور، اسلام آباد، پشاور جیسے کئی شہروں میں جانا پڑا تاکہ خواتین کے گھر والوں سے مل کر خود اُن کو پتا سکوں کہ اُن کی بیٹی محفوظ رہے گی۔‘

یہ کمپنیاں ایسی کیا سہولیات فراہم کر رہی ہیں جو باقی کمپنیاں نہیں دیتیں؟

سکیورٹی اور سیفٹی ہر خاتون کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ جس جگہ رہائش ہے وہاں تک پہنچنا کیسے ہے۔ ٹیکسی کیسے کروانی ہے۔ ٹوئر گائیڈ کون ہو گا۔ کرنسی کون سی لے کر جانی ہے۔ حلال کھانا کہاں سے ملے گا۔ شاپنگ کیسے ہو گی؟ اس جیسی بے شمار چیزیں ہوتی ہیں جو اکیلے سفر کرنے والی خواتین کے ذہن میں آتی ہیں۔

فواد کا کہنا ہے اُن کی کمپنی کوئی بھی ٹور پلان کرنے سے پہلے سب چیزیں مدنظر رکھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم کوئی ٹور پلان کر لیتے ہیں، تو15 دن پہلے ایک واٹس ایپ گروپ بنا لیتے ہیں جس میں تمام خواتین کو شامل کر دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے بات کر کے جان سکیں کہ کون کہاں سے ہے پھر اُن کے سکیورٹی سے متعلق پریشانی کم ہو جائے۔‘

کرنسی: ’ہم اُس واٹس ایپ گروپ میں بتا دیتے ہیں کہ اپنے ساتھ صرف ڈالر لے کر جائیں اور جس ملک میں جانا ہے وہاں جا کر کرنسی کو تبدیل کروائیں۔‘

رہائش: ’ہم رہائش کا انتظام کرتے وقت عمر، شعبے، دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہیں۔ جیسے کہ ایک عمر کی خواتین، ایک شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک کمرے میں رکھتے ہیں تاکہ وہ آپس میں دوست بن سکیں۔‘

حلال کھانا: ’سب سے بڑا مسئلہ حلال کھانے کا ہوتا ہے۔ ہم ہوٹل ایسی جگہ پر لیتے ہیں جہاں آس پاس حلال کھانا ہو، گھومنے کی جگہیں ہوں، شاپنگ مال ہوں تاکہ خواتین کو زیادہ دور نہ جانا پڑے۔‘

ہوٹل سے پک اپ: ’ہم پہلے سے واٹس ایپ گروپ میں بتا دیتے ہیں کہ جہاز سے اترنے کے فوراً بعد ایک جگہ پر سب نے اکھٹا ہو جانا ہے۔ اس طرح وہ ایئرپورٹ سے محفوظطرح سے ہوٹل منتقل ہو جاتے ہیں۔‘

فون نمبر: ’ایک فون نمبر کمپنی کا مستقل طور پر کام کر رہا ہوتا ہے جس کا نمبر تمام خواتین کے گھر والوں کے پاس ہوتا ہے کہ اگر کسی کا فون بند آ رہا ہے تو وہ کمپنی کو فون کرکے خیریت پوچھ سکتے ہیں۔‘

پاکستانی ثقافت کا فروغ: ’ہم سب خواتین کو بتا دیتے ہیں کہ جس ملک میں بھی وہ جا رہی ہیں وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں اس لیے اُنھیں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ وہ پاکستان کی منفی تصویر پیش نہ کریں اور دوسرے ممالک کے قانون پر عمل کریں۔‘

فواد کو یقین ہے کہ ایسی کمپنیاں مزید خواتین کو اس قبل بنائیں گی کہ وہ خود میں اعتماد پیدا کر کے اکیلے سفر کر سکیں۔

پاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیںزہرہ 30 سے زیادہ ممالک میں ’حلال چھٹیاں‘ گزار چکی ہیں مگر یہ حلال چھٹیاں ہیں کیا؟بری شہرت، مہنگائی یا سستے متبادل: ترکی کے ہوٹل خالی کیوں پڑے ہیں؟روزی گیبریئل: قسمت مجھے پاکستان لے کر آئیپاکستان سمیت دیگر ممالک کے افراد ترکی کا گولڈن پاسپورٹ کیسے حاصل کر رہے ہیں؟77 ہزار روپے میں ترکی کا پرتعیش سفر جس میں ’چھپے ہوئے ثقافتی ہیرے‘ دیکھے جا سکتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More