کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشہ کی وائرل تصویر کی حقیقت کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 24, 2024

مصنوعی ذہانت کے ذریعے جھوٹی خبروں، ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرنے کا عمل دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر اب ایک معمول کی بات ہے تاہم اس حوالے سے گذشتہ چند روز سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویرموضوعِ بحث ہے۔

کراچی کے علاقے کارساز میں گذشتہ پیر کو ایک تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے 60 سالہ شخص عمران عارف اور ان کی 22 سالہ بیٹی آمنہ ہلاک ہوئی تھیں جبکہ پولیس نے موقع سے نتاشہ نامی ڈرائیور کو حراست میں لیا تھا۔

نتاشہ پر دفعہ 322 یعنی قتل بالسبب کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور عدالت نے 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔

ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمہ مبینہ طور پر تیز رفتار سے گاڑی چلا رہی تھیں، اس لیے یہ واقعہ پیش آیا۔

واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ جہاں لوگوں نے ملزمہ کو سزا دینے کا مطالبہ کیا، وہیں کچھ اکاؤنٹس کی جانب سے ایسی معلومات شیئر کی گئیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور واٹس ایپ پر یہ افواہیں بھی پھیلتی ہوئی نظر آئیں کہ ملزمہ کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ دبئی جا چکی ہیں۔

ابھی ان قیاس آرائیوں نے ہی دم نہیں توڑا تھا کہ سوشل میڈیا پر نتاشہ کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ملزمہ کو ایک عدالت کے باہر وکلا کے ہمراہ کھڑے دکھایا گیا اور انھوں نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے ’وِکٹری‘ کا نشان بھی بنایا ہوا ہے۔

نہ صرف عام صارفین بلکہ پاکستان کے بڑے بڑے صحافی بھی اس تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے نظر آئے۔

معروف پاکستانی صحافی و اینکرپرسن حامد میر بھی ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔

انھوں نے ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’نتاشا اقبال وِکٹری کے نشان کے ساتھ، شکست کس کی ہوئی؟‘

تاہم کچھ دیر بعد انھوں نے اپنی یہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ شیئر کی گئی تصویر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ بھی پڑھیےکارساز حادثے میں ہلاک ہونے والے باپ بیٹی: ’آمنہ خوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد اسے ترقی مل جاتی‘’فیک نیوز‘ سے برطانیہ میں پُرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں لاہور میں پاکستانی شہری گرفتار’یہ مندر نہیں، عوامی لیگ کا دفتر ہے‘: بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کی افواہیں کون پھیلا رہا ہے؟گاڑی سے دو افراد کو ہلاک کرنے والا ’نابالغ ملزم‘ جسے حادثے پر مضمون لکھنے کی شرط پر ضمانت مل گئی

یہی تصویر پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی شیئر کی اور لکھا کہ ’بے حسی اور کیا ہے؟ اس مقدمے میں خود انصاف کٹہرے میں ہے۔‘

انھیں بھی متعدد صارفین نے بتایا کہ تصویر جعلی ہے جس کے بعد انھوں نے ’معذرت‘ کرتے ہوئے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ تصویر آرٹیفشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کا سہارا لیتے ہوئے بنائی گئی تھی۔

اگر اس تصویر کو غور سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ نتاشا کہ بالکل عقب میں ایک عمارت کا دروازہ ہے جس پر بڑے بڑے انگریزی حروف میں ’کورٹ‘ لکھا ہوا ہے۔

یہ تصویر دیکھ کر یہ گماں ہوتا ہے جیسے نتاشہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر کھڑی ہیں۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کراچی کا مقدمہ اسلام آباد کی سپریم کورٹ میں کیوں سُنا جائے گا؟

دراصل یہ مقدمہ کراچی کی ایک مقامی عدالت میں زیرِ سماعت ہے، اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔

یہ پہلا واقعہ نہیں جب مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی کوئی تصویر ’فیک نیوز‘ پھیلنے کا سبب بنی ہو۔

ایسی ہی ایک تصویر کچھ عرصہ پہلے بھی پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خاتون کو کھڑا دکھایا گیا تھا اور متعدد سکیورٹی اہلکار ان کی جانب اپنی بندوقوں کا رُخ کر کے کھڑے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ تصویر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے دوران بنائی گئی تاہم یہ تصویر بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنوائی گئی تھی۔

یہاں دو سوال اہم ہیں کہ لوگ ایسی تصاویر کو سوشل میڈیا پر کیوں شیئر کرتے ہیں اور ایسی تصاویر کو کیسے پہچانا جائے؟

’ڈِس انفارمیشن انٹرنیٹ یا ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں‘

پاکستان کی میڈیا انڈسٹری اور سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھنے والے ادارے ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے بانی اسد بیگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ انٹرنیٹ کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی ٹیکنالوجی کا مسئلہ ہے۔ یہ دراصل انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے کہ ’لوگوں کے دماغ میں یہ بات ہوتی ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف خراب ہے۔‘

اسد بیگ مزید کہتے ہیں کہ جس چیز کو لوگ درست سمجھتے ہیں وہ اس سے ملتی جُلتی چیزوں کو ہمیشہ ہی درست سمجھتے ہیں۔

نہ صرف عام انٹرنیٹ صارفین بلکہ صحافی بھی مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی تصاویر سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے اسد بیگ کا کہنا ہے کہ ’سب سے پہلے ہمیں بطور صحافی ان چیزوں کی شناخت کرنی ہو گی جس میں ہم جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر انھیں ٹھیک کرنا ہو گا۔‘

’جب آپ اپنی نفسیات کو کنٹرول کرلیں گے تو پھر مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی چیزوں کو بھی پہچاننا شروع کر دیں گے۔‘

مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی تصاویر کو کیسے پہچانا جائے؟

آرٹیفشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سافٹ ویئرز کو کسی بھی تصویر کو بنانے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ یہ تربیت پہلے سے موجود ڈیٹا کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق کچھ انسانی اعضا ایسے ہوتے ہیں جنھیں ہو بہ ہو کاپی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سافٹ ویئرز کانوں اور ہاتھوں کو درست طریقے سے بنانے میں مہارت نہیں رکھتے۔

اسد بیگ بھی اس تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت نے ابھی بہت ترقی نہیں کی۔ اگر آپ مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی تصاویر کی تفصیلات پر توجہ دیں تو انھیں پہچاننا آپ کے لیے مشکل نہیں ہو گا۔‘

’مثال کے طور پر ان تصاویر کا بیگ گراؤنڈ مختلف ہو گا۔ تصویر کا جو پیچھے کا منظر ہو گا اس میں دھندلاہٹ ہو گی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے جو تصاویر بنائی جاتی ہیں وہ بہت ’سموتھ‘ ہوتی ہیں یعنی کہ اگر آپ کے چہرے پر کوئی نشانات وغیرہ ہیں تو وہ آرٹیفشل انٹیلیجنس سے بنائی گئی تصاویر میں نظر نہیں آئیں گی۔

’ایسا لگے جیسے آپ نے کسی تصویر پر کوئی فلٹر لگا دیا ہو۔‘

انھوں نے مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی نتاشہ اور وکلا کی تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اس تصویر میں پیچھے کھڑے وکیلوں کو دیکھیں تو آپ کو ان کے چہروں میں مماثلت نظر آئے گی۔‘

بحریہ ٹاؤن: حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکت، ’میری زندگی کے 45 منٹ جنھیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی‘گاڑی سے دو افراد کو ہلاک کرنے والا ’نابالغ ملزم‘ جسے حادثے پر مضمون لکھنے کی شرط پر ضمانت مل گئیپاکستانی پستول سے کلاشنکوف تک: یمن میں ’ایکس‘ پر اسلحے کی کھلے عام خریدوفروخت
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More