’بس کی رفتار اچانک بہت تیز ہو گئی‘: ایران میں پاکستانی زائرین کی بس کو حادثہ کیسے پیش آیا؟

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2024

’میں بس کے تقریبا درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ سفر آرام سے گزر رہا تھا۔ میں سو چکا تھا کہ اچانک بس میں ہلچل پیدا ہونے سے آنکھ کھلی تو ہر کوئی پریشان اور فکر مند تھا۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ بس کی بریک فیل ہو چکی ہے اور ڈرائیور بس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

پاکستان کے صوبہ سندھ میں نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے عبدالرزاق مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران جانے والی اس بس میں سوار تھے جس کو منگل کی رات پیش آنے والے حادثے میں 28 لوگ ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ حادثہ ایرانی دارالحکومت تہران سے تقریباً 500 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع شہر تافت کے باہر پیش آیا ہے۔ حادثے کے وقت بس میں 51 افراد سوار تھے۔ یزد کے کرائسس مینجمنٹ کے شعبے کے ڈائریکٹر کے مطابق اس حادثے میں مرنے والوں میں 11 خواتین اور 17 مرد شامل ہیں۔

عبدالرزاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہی روز قبل زائرین کی دو بسیں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے کاروان شمس نامی ٹور آپریٹر کمپنی کی مدد سے روانہ ہوئی تھیں۔

اس کمپنی کے پاکستان میں موجود نمائندے تنویر شمسی کے مطابق حادثہ رات 10 اور 11بجے کے درمیاں پیش آیا جس کی وجہ بریک کا فیل ہو جانا ہی تھا۔ انھوں نے دعوی کیا کہ ’بس میں کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی تاہم بریفک فیل ہونے کی وجہ تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکتی ہے۔‘

خیال رہے کہ لاکھوں شیعہ زائرین ہر برس اربعین کے سالانہ جلوس میں شرکت کے لیے عراق کا رخ کرتے ہیں۔

اربعین شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم دن ہے۔ یہ اس واقعے کے 40 روز کی تکمیل کی یاد ہے جب امام حسین، ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کو کربلا کے مقام پر یزیدی افواج نے قتل کر دیا تھا۔

’بس کی رفتار اچانک بہت تیز ہو گئی‘

حادثہ ہونے سے قبل ہی زائرین کی بس میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ ’بس کی رفتار اچانک بہت تیز ہو گئی تھی۔‘

’بس ادھر ادھر ہچکولے لے رہی تھی۔ بس میں موجود ہیلپر بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا اور اس نے کہا کہ سب لوگ مضبوط رہیں، ڈرائیور کوشش کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح بس کو روکا جائے لیکن بظاہر ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی۔‘

بظاہر بریک فیل ہو جانے کے بعد ڈرائیور بس کو روکنے میں ناکام رہا۔

عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے بریک فیل ہونے کے بعد بس ڈرائیور نے کافی کوشش کی اور بس کو کافی دیر تک چلاتا بھی رہا مگر ایک جگہ اچانک بس کہیں ٹکرا گئی اور پھر الٹ گئی۔‘

عبد الرزاق اس وقت ہوش کھو بیٹھے اور وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد میری آنکھ ہسپتال میں کھلی۔‘

لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے نصیب حسن، جن کا تعلق لاڑکانہ سے ہے، بھی اسی بس میں سوار تھے اور حادثے میں زخمی ہوئے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں بس میں آگے بیٹھا ہوا تھا۔ رات ہو چکی تھی اور سڑک پر ٹریفک کم تھی۔ ہمارے ساتھ والی بس کبھی آگے چلی جاتی اور کبھی ہم آگے ہوتے تھے۔‘

انھیں یاد ہے کہ حادثے سے قبل ان کی بس ایک چیک پوائنٹ پر بھی رکی تھی جہاں کافی دیر تکایرانی سکیورٹی اہلکاروں نے تلاشی لی۔

’جب ہم لوگ چیک پوسٹ سے تھوڑا آگے چلے تو ڈرائیور ایک دم پریشان ہو گیا۔ پریشانی اس کے چہرے سے نظر آرہی تھی حالانکہ یہ بالکل سیدھی سڑک تھی۔ اس نے اپنے ہیلپر سے کچھ کہا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر مسافروں کو حوصلہ رکھنے کی تلقین کرنے لگا۔‘

نصیب حسن کہتے ہیں کہ ’میں نے اس موقع پر ڈرائیور سے پوچھا کہ بس کو کسی جگہ پر روکا جا سکتا ہے تو اس نے کہا میں کوشش کروں گا۔‘

کارساز حادثے میں ہلاک ہونے والے باپ بیٹی: ’آمنہ خوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد اسے ترقی مل جاتی‘سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کے خلاف ’ہٹ اینڈ رن‘ کیس: ملزمہ کی دو برس بعد عدالت میں پیشی اور ضمانت کیسے ممکن ہوئی؟شاہ نورانی کی درگاہ جہاں پہنچنے کی خواہش 17 زائرین کی جان لے گئی: ’ایک ہی خاندان کے 12 افراد کو دفن کرنا بہت مشکل تھا‘’بس دکانوں سے جا ٹکرائی‘

تنویر شمسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہماری اطلاعات کے مطابق بس دکانوں سے ٹکرا کر الٹ گئی تھی جس کے بعد موقع پر موجود مقامی لوگوں اور انتظامیہ نے زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا تھا۔‘

تنویر نے بتایا کہ ’ہمارا یہ قافلہ دو بسوں پرمشتمل تھا اور دوسری بس اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے۔ ہمارے پاس زائرین کی سیاحت کے دونوں حکومتوں سے اجازت نامے موجود ہیں جبکہ تمام زائرین کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے۔‘

اس بس میں لاڑکانہ کے فیاض علی بھی سوار تھے جو اپنے ایک اور دوست کے ہمراہ یہ سفر کر رہے تھے۔ تاہم حادثے کے بعد سے ان دونوں سے ہی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔

فیاض علی کے رشتہ دار حماد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں یہ اطلاع تو مل رہی ہے کہ فیاض اور اس کا دوست خیریت سے نہیں ہیں۔ ہمارا رابطہ وہاں پر ایک اور زخمی شخص سے ہوا جس نے ہمیں بتایا کہ جس ہسپتال میں وہ موجود ہے وہاں فیاض اور خورشید موجود نہیں ہیں۔‘

حماد علی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ٹور آپریٹر سے بھی رابطہ کیا لیکن صورتحال واضح نہیں ہے کیوں کہ زخمیوں اور لاشوں کو مختلف ہسپتالوں میں لے جایا گیا۔‘

تنویر شمسی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ بیہوش ہوگئے تھے جن کو مردہ سمجھ لیا گیا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بدھ کے دن زائرین کے اہلخانہ ان کے دفتر آئے تھے جن میں سے کچھ لوگوں کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ ہوا لیکن چند کا رابطہ نہیں ہو سکا۔

تنویر کا کہنا ہے کہ ’وہاں موبائل سگنل کے بھی مسائل ہیں مگر ہماری اطلاع ہے کہ تمام زخمیوں کو بہتر علاج مل رہا ہے جبکہ لاشوں کو قریب کے دو، تین ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔‘

تنویر شمسی کا کہنا تھا کہ ان کے بڑے بھائی اس وقت ایران میں ہی جائے حادثہ پر موجود ہیں جہاں پر وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو زخمیوں سے ملاقات کی اجازت مل جائے اور وہ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں واپس پاکستان لانے کے انتظامات کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر جمعرات کے روز حتمی شناخت کے بعد لاشوں کو پاکستان واپس لانے کے انتظامات شروع ہو جائیں گے۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایران میں پاکستانی زائرین کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت خارجہ کو میتوں کو وطن واپس لانے اور زخمیوں کو بروقت امداد پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔

گاڑی سے دو افراد کو ہلاک کرنے والا ’نابالغ ملزم‘ جسے حادثے پر مضمون لکھنے کی شرط پر ضمانت مل گئیبحریہ ٹاؤن: حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکت، ’میری زندگی کے 45 منٹ جنھیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی‘’ٹیم سلیکشن کی بجائے لاشوں کی شناخت کرنا پڑی‘: وہ فضائی حادثہ جس نے زیمبیا میں فٹبال کو بدل کر رکھ دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More