’میرے بھائی عمران عارف کم آمدن کی وجہ سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خود موٹر سائیکل پر سکول، کالج، یونیورسٹی لے کر جاتے اور واپس لاتے تھے۔ حادثے والے دن بھی وہ اپنی بیٹی آمنہ عارف کو شام کے وقت اس کے دفتر سے واپس گھر لارہے تھے۔‘
یہ کہنا تھا کراچی میں کار ساز کے علاقے میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والے عمران عارف کے بھائی پروفیسر امتیاز عالم کا جو اقرا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ یہ حادثہ اس وقت ہوا جب موٹر سائیکل سوار عمران عارف، جن کے ساتھ ان کی بیٹی آمنہ عارف بھی سوار تھیں، کو پیچھے سے آنے والی ایک گاڑی نے ٹکر ماری جس کے نیتجے میں دونوں باپ بیٹی ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے کے بعد منظر عام پر آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک سروس روڈ پر ایک گاڑی پیچھے سے موٹر سائیکل سواروں کو کچل رہی ہے۔ اس واقعے کا مقدمہ پروفیسر امتیاز عالم کی درخواست پر ہی درج کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ 19 اگست کو شام چھ بجکر45 منٹ پر انھیں حادثے کی اطلاع ملی تو وہ ہسپتال پہنچے جہاں علم ہوا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کی ڈرائیور ایک خاتون تھیں۔
اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں جن میں دیکھا گیا کہ مشتعل لوگ ایک خاتون کو گھیرے ہوئے ہیں جبکہ بعد میں انھیں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ کراچی پولیس کی ایس ایس پی شعبہ تفتیش علینہ راچر کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی تفیش میں بظاہر ایسے لگ رہا ہے کہ خاتون تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہی تھیں جس وجہ سے حادثہ ہوا۔‘
عدالت نے ملزمہ کو ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے جبکہ خاتون کے وکیل عامر منسوب ایڈووکیٹ نے عدالت میں دعوی کیا کہ ملزمہ نفیساتی مریضہ ہیں۔ اس موقع پر پولیس نے عدالت میں جناح ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا عارضی طبی سرٹیفیکٹ بھی پیش کیا۔
ایس ایس پی شعبہ تفتیش علینہ راچر نے بتایا ہے کہ خاتون کی میڈیکل ہسٹری طلب کی گئی ہے اور ان کے طبی معائںے اور خون کے نمونوں کے جائزے کے بعد حتمی رائے دی جا سکتی ہے۔
’آمنہ گھر کے معاشی حالات بہتر کرنا چاہتی تھی‘
جب آمنہ عارف نے امتیازی نمبروں سے معاشیات میں ڈگری حاصل کی تو اس کے بعد انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم کے مشورے پر ہی اقرا یونیورسٹی میں بزنس کے شعبے میں یہ سوچ کر داخلہ کیا کہ انھیں بہتر نوکری مل سکے گی۔
پروفسیر ڈاکٹر امتیاز عالم بتاتے ہیں کہ ’آمنہ عارف کو سسٹمز لمٹیڈ میں کنسلٹنٹ کی نوکری کی پیشکش ہوئی مگر وہ اپنے کیرئیر کے بارے میں بھی فکر مند تھیں۔‘
’میں نے مشورہ دیا کہ وہ ملازمت کرلے اور ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے۔ وہ دن بھر دفتر میں مصروف رہتی اور شام میں پڑھائی کرتی۔ اس کا ماسٹر مکمل ہونے کے قریب تھا، 17 ستمبر کو ایک انٹرویو تھا جس کے بعد ڈگری مل جاتی۔‘
’وہ بہت پرجوش تھی کہ ڈگری ملنے کے بعد ترقی مل جاتی اور تنخواہ ایک لاکھ روپیہ یا زیادہ ہو جاتی جس سے وہ گھر کے حالات بہتر کرنے کی امید رکھتی تھی۔‘
سسٹمز لمیٹیڈ میں آمنہ عارف کے ایک سینئر ساتھی نے بھی بتایا کہ ان کو اپنی ڈگری کا بہت انتظار تھا اور وہ خوش تھیں کہ ان کو ڈگری ملنے کے بعد ترقی مل جائے گی۔
’محنتی ساتھی‘
حادثے میں ہلاک ہونے عمران عارف کے والد شہزاد منظر روزنامہ مساوات کے اسٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اخبار کو پیپلز پارٹی سے قربت کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ قلمی نام تبسم سے جنگ اور اخبار جہاں میں بھی لکھتے رہے۔
پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے میں ہلاک ہونے والے ان کے بڑے بھائی عمران عارف موٹر سائیکل پر بچوں کے چپس اور پاپڑ سپلائی کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ آمنہ عارف تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
15 سال کوما میں گزارنے کے بعد وفات پانے والی فاخرہ احمد: ’ایسا لگتا تھا وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے‘سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کے خلاف ’ہٹ اینڈ رن‘ کیس: ملزمہ کی دو برس بعد عدالت میں پیشی اور ضمانت کیسے ممکن ہوئی؟
پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ آمنہ نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال قبل نوکری شروع کی تھی اور اقرا یونیورسٹی کی بزنس ڈگری بھی پوری ہونے کے قریب تھی۔
’وہ اپنی یونیورسٹی کے اخراجات خود پورا کرتی تھی۔ بیچلر کے بعد اس نے اپنے والد سے ذاتی اخراجات کے لیے پیسے نہیں لیے بلکہ اپنی تنخواہ گھر پر خرچ کرتی تھی۔ اس نے ہی گھر کا رنگ و روغن کروایا، پردے تبدیل کروائے۔‘
آمنہ عارف کے ساتھ کام کرنے والے ایک سنیئر ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’آمنہ عارف بہت محنتی اور لائق تھیں۔‘
’اس نے بہت کم عرصے میں کام پر عبور حاصل کر لیا تھا اور ہر پراجیکٹ میں بہت اچھے نتائج دیئے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں سیکھنے کی بہت صلاحیت تھی۔‘
آمنہ عارف کے سینیئر ساتھی کا کہنا تھا کہ انھوں نے حال ہی میں ایک پراجیکٹ مکمل کیا تھا اور وہ ایک دوسرے پراجیکٹ پر کام شروع کر چکی تھیں۔’حادثے والے دن بھی وہ اسی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھیں۔‘
آمنہ کے چچا کا کہنا ہے کہ ’اگر آمنہ کی مزید تصاویر لگیں گی تو خاندان کو اچھا نہیں لگے گا، جو لگ چکی ہیں وہ لگ چکی ہیں۔‘
گاڑی سے دو افراد کو ہلاک کرنے والا ’نابالغ ملزم‘ جسے حادثے پر مضمون لکھنے کی شرط پر ضمانت مل گئیکم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں چھ افراد کی ہلاکت: کیا ایسے بچوں اور ان کے والدین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ڈپٹی کمشنر پنجگور کی ہلاکت: ’بندوق اتنی طاقتور تھی کہ گولیاں گاڑی کا شیشہ اور سیٹ چیرتی ہوئی ذاکر بلوچ کو لگیں‘