کیا عمران خان کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 21, 2024

Getty Images

سلطانی گواہ کہہ لیں یا وعدہ معاف گواہ، یہ ہے بڑے کام کی شے۔ جس سے انتقام لینا، نشانِ عبرت بنانا یا سزا دینا مقصود ہو اگر اس کے خلاف اتنے ٹھوس ثبوت جمع نہ ہو سکیں جن کو جھٹلانا ناممکن ہو تو پھر کسی بھی ہم راز یا شریکِ جرم و سازش کو اس لالچ پر توڑ لیا جاتا ہے، کہ اگر تم مرکزی ملزم یا جسے ہم سزا دینا چاہتے ہیں اس کے خلاف گواہی دینے پر تیار ہو جاؤ تو تم پر سے فردِ جرم اٹھائی جا سکتی ہے یا سزا میں کمی ہو سکتی ہے یا پھر تم بری بھی ہو سکتے ہو۔ اس کے علاوہ دیگر رعایات و عنایات کی پیش کش بھی ممکن ہے۔

اب یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ سلطانی گواہ کا بیان سچ تصور کر کے من و عن قبول کر لے یا پھر اس بیان میں شامل افسانہ طرازی کا دیگر حقائق سے موازنہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچے یا پھر اس دباؤ کو نہ جھیل سکے کہ مرکزی ملزم یا ملزمان کو ہر صورت میں کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے۔

جیسے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی بی کے دت نے اپریل 1929 میں اسمبلی بم حملے کے بعد خود کو سرینڈر کر دیا اور انھیں دہشت گردی کے جرم میں 14 برس قید بامشقت کی سزا ہو گئی۔

مگر برطانوی حکومت کی تسکین نہیں ہوئی۔ اسمبلی بم دھماکے سے کچھ عرصہ پہلے لاہور میں پولیس چیف جان سینڈرز اور ہیڈ کانسٹیبل چنان سنگھ کے قتل کی واردات پر ایف آئی آر نامعلوم ملزموں کے خلاف کٹی۔ اس مقدمے کی سماعت عام عدالت میں کرنے کے بجائے ایک ہنگامی آرڈیننس کے ذریعے خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ ملزموں میں بھگت سنگھ اور راج گرو کے علاوہ جے گوپال، صبح سنگھ اور بھوپندر گھوش پر بھی فردِ جرم عائد ہوئی۔ مگر سرکار کا اصل ہدف بھگت سنگھ اور راج گرو تھے۔

Getty Images

چنانچہ باقی تین ملزموں کو پیش کش ہوئی کہ اگر وہ وعدہ معاف گواہ بن جائیں تو انھیں کڑی سزا سے بچا لیا جائے گا۔ تینوں رضامند ہو گئے اور ان کی گواہی پر بھگت سنگھ اور راج گرو کو سزاِ موت سنا دی گئی۔

مگر مقدمہ اتنے بے ہنگم طریقے سے چلایا گیا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود کوئی مجسٹریٹ ان کے بلیک وارنٹس پر دستخط کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ بالاخر 28 سالہ مجسٹریٹ نواب محمد احمد خان قصوری بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے پر رضامند ہو گئے۔

یوں دونوں ’دہشت گردوں‘ کے تختہِ دار پر جھولنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ اس کے فوراً بعد اس آرڈیننس کی معیاد بھی ختم ہو گئی جس کے تحت خصوصی ٹریبونل قائم ہوا تھا۔

یہ مقدمہ اتنا ناقص تھا کہ بعد ازاں کسی بھی عدالت میں اسے بطور قانونی نظیر پیش نہیں کیا جا سکا۔

اس واقعہ کے لگ بھگ 45 برس بعد نواب محمد احمد خان لاہور میں شادمان ٹاؤن کے چوراہے پر دو طرفہ فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ ان کے صاحبزادے احمد رضا قصوری نے اچھرہ تھانے کی ایف آئی آرمیں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا نام بھی ڈلوایا۔ ایف آئی آر ابتدائی چھان بین کے بعد سربمہر ہو گئی۔ احمد رضا قصوری نے سربمہر کرنے کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔

1977 میں مارشل لا کے نفاز کے بعد ابتدا میں فوجی قیادت کا خیال نہیں تھا کہ معزول وزیرِاعظمآگے چل کے اس کے لیے بقائی خطرہ بن سکتے ہیں۔

مگر جب بھٹو نے مصلحت کوشی سے کام لینے کے بجائے ایک دو بیانات میں کھل کے کہا کہ آئین پامال ہوا ہے اور اس کی سزا بھی آئین میں موجود ہے، تب جرنیلوں کے کان کھڑے ہونے شروع ہوئے۔ ضیا الحق نے آتے ہی بھٹو دور میں قائم حیدرآباد ٹریبونل توڑنے کا اعلان کیا اور ولی خان سمیت صوبہ سرحد اور بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کو رہا کر دیا۔

کہا جاتا ہے کہ رہائی کے بعد جب ولی خان کی ضیا الحق سے ملاقات ہوئی تو تب یہ سوال بھی زیرِ بحث آیا کہ حسبِ وعدہ 90 روز کے اندر اکتوبر 1977 میں دوبارہ الیکشن ہونے چاہئیں یا پہلے کچھ ضروری اصلاحات کی جائیں۔

ولی خان نے مشورہ دیا کہ احتساب کے بعد الیکشن بہتر رہیں گے۔ ان سے یہ فقرہ بھی منسوب ہے کہ بھٹو منتقم مزاج آدمی ہے، قبر ایک ہے اور مردے دو ہیں۔

اگر واقعی ولی خان نے ایسا کہا تو سوچیے کہ آپ اگر اس وقت ضیا الحق کی جگہ ہوتے تو آپ کے ذہن میں پہلی سوچ کیا آتی؟

اکتوبر کے انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے۔ بھٹو حکومت کی ’سیاہ کاریوں‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے دس موٹے موٹے قرطاس ابیض سامنے لائے گئے۔ بھٹو دور کے سیاسی قیدیوں کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ پی ٹی وی پر شروع ہو گیا۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دلائی کیمپ میں سیاسی مخالفین پر مظالم کی کہانیاں شائع اور نشر ہونے لگیں۔ مگر کوئی ایسا مدعا ہاتھ نہیں آ رہا تھا کہ بھٹو کا عدالتی رسے سے کام تمام ہو سکے۔

اس موقع پر نواب محمد احمد خان کے قتل کی سربمہر ایف آئی آر کو زندہ کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سزاِ موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے ریویو فیصلے میں کہا گیا کہ اس کیس کے زیادہ تر ثبوت مارشل لا دور میں جمع کیے گئے مگر اس سے ثبوتوں کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔

’بھٹو نے کہا مجھے قصوری کی لاش یا اس کا تشدد زدہ جسم چاہیے‘: وہ وعدہ معاف گواہ جس نے بھٹو کی پھانسی میں اہم کردار ادا کیا49 برس قبل ہونے والے اُس قتل کی رُوداد جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ بناذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

ملزموں میں سے فیڈرل سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود اور ان کے ایک بہت جونئیر ماتحت غلام حسین وعدہ معاف بنا لیے گئے اور ان کے بیانات کی روشنی میں کیس کا بنیادی تانا بانا بنا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے ایک ڈائریکٹر میاں محمد عباس، صوفی غلام مصطفی، ارشد اقبال کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔ سات رکنی بنچ کے چار ججوں نے وعدہ معاف گواہوں کے بیانات کی صحت تسلیم کر لی۔ تین نے ان بیانات کو ناقص قرار دے کر مسترد کر دیا۔ بعد میں ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا کہ ججوں پر بھٹو کو سزا دینے کے معاملے میں اوپر سے بہت دباؤ تھا۔

Getty Images

44 برس بعد اسی سپریم کورٹ نے رولنگ دی کہ بھٹو کیس کے فیصلے میں ناقص انصاف ہوا ہے تاہم اسے دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

اپریل 2000 میں نواز شریف کے معتمدِ خاص اسحاق ڈار، جو کہ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل قید تھے، انھوں نے ایک اعترافی بیان میں تسلیم کیا کہ انھوں نے 90 کی دہائی میں شریف خاندان کے لیے بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے لگ بھگ 15 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی۔

اس بنیاد پر نیب نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دائر کیا۔ مگر نیب ٹھوس ثبوت اکھٹے کرنے میں ناکام رہا چنانچہ مسلسل التوا کے سبب لاہور ہائی کورٹ نے 2011 میں یہ ریفرنس خارج کر دیا۔ 2018 میں نیب نے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جو مسترد ہو گئی۔

جب عمران خان کے لیے ڈھائی برس پہلے بادشاہ گروں کی چاہت ختم ہو گئی اور شریف خاندان سے دوبارہ مفاہمت ہو گئی تو جن ریفرنسز میں نواز شریف اور دیگر اہلِ خانہ کو احتساب عدالتوں نے سزائیں سنائی تھیں وہ بھی یکے بعد دیگرے کالعدم ہوتی چلی گئیں۔ اسے کہتے ہیں کھل جا سم سم۔۔۔

Getty Images

اس وقت عمران خان پر کڑا وقت ہے۔ ان پر بھانت بھانت کے لگ بھگ 150 پرچے اور ریفرنسز ہیں۔ مگر جن چھ سات بڑے مقدمات میں انھیں سزا ہوئی اسے اعلیٰ عدالتوں نے یا تو ختم کر دیا یا معطل کر دیا۔

اب رہ گیا نو مئی کا قصہ جس میں عمران خان کو مرکزی سازشی ثابت کرنا مقصود ہے اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو پھر ان پر آرمی ایکٹ کے تحت خصوصی فوجی عدالت میں بھی مقدمہ چلا کے تیز رفتار انصاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کی حراست اور ان کا کورٹ مارشل شروع ہونے کے بعد عمران خان ان خدشات کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔

ویسے بھی فوجی ترجمان ایک سے زائد مرتبہ اس امر پر ناخوشی کا اظہار کر چکے ہیں کہ نو مئی کے تعلق سے سول عدالتوں کا نظام نہایت سست رفتار اور مایوس کن ہے۔

سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش ہوئی مگر اعلی عدالتوں نے اس کیس میں خان کو چھوٹ دے دی۔ توشہ خانہ کیس نمبرون میں بھی یہی ہوا اور اب توشہ خانہ نمبر دو ریفرنس عدالت میں پڑا ہے۔

Getty Images

عدت کیس بھی ہوا میں اڑ گیا۔ القادر ٹرسٹ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ کا لانڈرنگ کیس جس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا نام بھی ہے، وہ بھی ایک عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

بادشاہ گروں کو امید تھی کہ عمران خان کے ساتھیوں میں سے اگر از قسمِ پرویز الہی یا شاہ محمود قریشی ٹوٹ جائیں تو شکنجہ اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ مگر دونوں شائد اپنی سیاسی اننگ کھیل چکے ہیں اور اب ان کی نظر میں انکے خاندان کی نئی نسل کا مستقبل ہے۔ جبکہ ملک ریاض نے سلطانی گواہ بننے کے مبینہ دباؤ سے جان چھڑانے کے بجائے دوبئی کی راہ اختیار کی۔

اب سارا دارومدار فیض حمید پر ہے جنھیں بظاہر ایک نجی جائدادی معاملے میں ڈسپلن توڑنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کی پاداش میں کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ مگر وفاقی وزیرِ اطلاعات نے اشارہ دیا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ اور بھی بڑھ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ نو مئی تک پہنچ جائے۔

اگر فیض حمید نو مئی کے تعلق سے وعدہ معاف گواہ بننے پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر عمران خان کا زد میں آنا ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کو نکیل ڈالنے کی بھی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔

رائج الوقت نظریہ شائد یہ ہے کہ سیاسی و معاشی استحکام تو آتا رہے گا، پہلے ملکی سلامتی کے دشمنوں سے تو نمٹ لیا جائے۔ مگر یہ دشمن شائد اس قدر زیادہ ہیں کہ 77 برس ان سے نمٹنے میں خرچ ہو گئے۔ کیا اگلے 77 برس بھی یہی ہوتا رہے گا؟

پاکستان کے 77 برس اور ’بمپی سڑک‘: ’جنرل صاحب سدا سلامت رہیں‘’عدالت حق تو دلوا سکتی ہے مگر اقتدار نہیں‘: وسعت اللہ خان کی تحریرپاکستان کے غدار محبِ وطن’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘’ایک گھبرائی ریاست اور منحوس چکر کے قیدی عوام‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More