Getty Images
رواں سال 11 جون کو جب پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تمام کمرشل سرگرمیوں کو ختم کرنے کا حکم دیا تو یہ اسلام آباد کے مشہور مونال ریستوران کے خاتمے کا آغاز ثابت ہوا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے دیاگیا تھا اور نینشل پارک میں تجارتی سرگرمیاں فوری بند کرنے کی ابتدائی ہدایات جاری کی تھیں تاہم کاروبار کرنے والے افراد کے وکلا کی درخواست پر عدالت نے انھیں تین ماہ کا وقت دیا تھا جو ستمبر کے اواخر میں ختم ہو گا۔
اس فیصلے کے بعد جب مونال کی انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اسے چند ماہ بعد بند کیا جا رہا ہے تو اس کے بعد ملک میں سوشل میڈیا پر مونال ٹرینڈ کرتا رہا اور ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں ریستوران کے ملازمین کو روتے ہوئے دیکھا گیا جن کا کہنا تھا کہ اس عدالتی حکم کے بعد ان کی نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔
ایسے میں سپریم کورٹ نے جمعرات کے دن مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے سے متعلق عدالتی حکمنامے اور سپریم کورٹ کے ججز کی کردار کشی مہم چلانے کے متعلق مونال کے مالک لقمان علی افضل کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا۔
بی بی سی نے مونال ہوٹل کے مالک لقمان افضل سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔
اسلام آباد میں موجود یہ ریستوران ایک عرصے سے شہر کا ایک اہم سیاحتی مرکز بھی بن گیا تھا اور یہاں کہ رہائشی اور دوسرے شہروں سے آنے والے افراد اکثر اوقات یہاں کھانا کھانے کے علاوہ یہاں سے اسلام آباد کے دلکش منظر سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔
تو پھر ایسا کیا ہوا کہ بات سپریم کورٹ تک پہنچی؟ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ مونال ریسٹورنٹ بنا کب تھا، اسے بناتے وقت متعلقہ قانونی قواعد و ضوابط پورے کیے گئے تھے؟
Getty Imagesمونال اور سی ڈی اے کے درمیان معاہدہ کب طے پایا تھا؟
وہ وقت زیادہ پرانا نہیں جب اسلام آباد سے مقامی لوگ اکثر مارگلہ کی پہاڑیوں کا سفر کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے کھوکھے یا ڈھابے تک جایا کرتے تھے۔
تاہم پھر سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اسلام آباد کے دامن کوہ میں ایک کھوکھا چلانے سے متعلق سی ڈی اے اور مونال کی انتظامیہ، جس کے مالک لقمان علی افضل ہیں، کے درمیان 2006 میں ایک 15 سالہ معاہدہ طے پایا جس کی میعاد 2021 میں ختم ہونا تھی۔
مونال انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ سی ڈی اے نے ماسٹر پلان کے تحت تفریحی سرگرمیوں کے لیے مختص مقام کی لیز کے لیے نیلامی میں بارہ کمپنیوں میں سے مونال کو چنا تھا جس کے بعد کم از کم چار سال تک ملک میں مخدوش حالات کی وجہ سے کاروبار زیادہ نہیں چلا تاہم دو ہزار دس میں ریسٹورنٹ کو کامیابی ملنا شروع ہوئی۔ انتظامیہ کے مطابق قریبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سات سو افراد مونال پر کام کرتے تھے۔
دو لاکھ 60 ہزار روپے ماہانہ کرائے سے شروع ہونے والا یہ معاہدہ آخری دنوں میں سالانہ 10 فیصد اضافے کے بعد آٹھ لاکھ روپے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیےمارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟نیوی سیلنگ کلب کو گرانے اور سابق نیول چیف سمیت ذمہ داران کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکمپاکستانی فوج کے لیے مختص زمین سِول افسران میں کیوں تقسیم کی گئی؟Getty Imagesفوج کا دعویٰ اور کرائے کا تنازع
مونال کے حالیہ تنازع کا آغاز 2015 میں اس وقت ہوا جب اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس نے دعویٰ کیا کہ یہ علاقہ سی ڈی اے کے بجائے اس کے زیر انتظام ہونا چاہیے۔
ایسے میں اس تنازع میں ایک سال بعد ایک اور فریق شامل ہوا۔ 2016 میں پاکستان فوج کے ری ماؤنٹ ویٹیرنری اینڈ فارمز کور کے ڈائریکٹوریٹ نے وزارت دفاع سے رابطہ کیا اور ایک پرانے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں تقریبا آٹھ ہزار ایکڑ سے زیادہ کا رقبہ اس کی ملکیت ہے جس میں وہ جگہ بھی شامل ہے جہاں مونال واقع ہے۔
وزارت دفاع کی توثیق کے بعد فوج کے آر وی ایف ڈیریکٹوریٹ نے براہ راست مونال کے مالک سے رابطہ کر کے کہا کہ چونکہ جس جگہ پر یہ ریسٹورنٹ تعمیر کیا گیا ہے وہ فوج کی ملکیت ہے، اس لیے کرایہ سی ڈی اے کو دینے کی بجائے انھیں دیا جائے۔
یوں مونال کی انتظامہ نے سی ڈی اے کے بجائے فوج کو کرایہ دینا شروع کر دیا جس پر اسلام آباد کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی سی ڈی اے کی انتظامیہ نے ایک مقامی عدالت سے رجوع کیا جس نے درخواست منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ مونال کی انتظامیہ سی ڈی اے کو ہی کرایہ ادا کرے۔
تاہم مونال کی انتظامیہ نے اس عدالتی فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
اس درخواست کی سماعت کی کوریج کرنے والے صحافی اسد ملک کا کہنا ہے کہ مونال انتظامیہ کی بدقسمتی کہہ لیجیے کہ یہ اپیل اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے پاس سماعت کے لیے مقرر ہوئی۔
اسد ملک کا کہنا ہے کہ شروع میں یہ معاملہ کرائے کی حد تک ہی محدود تھا اور عدالت نے مونال انتظامیہ سے کہا کہ وہ کرایہ سی ڈی اے کو ادا کریں اور اپنا کاروبار چلائیں۔
اسد ملک کے مطابق عدالت فیصلہ کرنے والی تھی لیکن جب سماعت کے دوران یہ بتایا گیا کہ فوج نے اس علاقے کو اپنی ملکیت ظاہر کرکے مونال انتظامیہ سے کرایہ خود لینا شروع کردیا ہے تو عدالت نے ناصرف اسلام آباد کا ماسٹر پلان طلب کر لیا بلکہ وزارت دفاع کو مارگلہ نیشنل ہلز پارک پر اپنی ملکیت ثابت کرنے کا بھی کہہ دیا۔
اسد ملک کا کہنا تھا کہ جب مونال کی انتظامیہ کو معلوم ہو گیا کہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو انھوں نے عدالت سے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی لیکن اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ان کی یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی درخواست کو پروفیسر زاہد بیگ مرزا کی درخواست کے ساتھ کلب کر دیا ہے جو کہ مارگلہ ہلز نینشل پارک میں تعمیر ہونے والے تجاوزات سے متعلق تھی۔
مارگلہ ہلز کی سینکڑوں ایکڑ زمین پر فوج کا ملکیتی دعویٰ خلاف آئین قرار: ’فوج کے پاس کاروبار کرنے کا اختیار نہیں،‘ اسلام آباد ہائی کورٹ’پاک فوج اوکاڑہ فارمز کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار‘اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 105 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں نیشنل پارک کی 8068 ایکڑ اراضی پر پاک فوج کے ڈائریکٹوریٹ کا ملکیتی دعویٰ مسترد کر دیا گیا اور فوج کے فارمز ڈائریکٹوریٹ کا مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ لیز معاہدہ بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی تباہی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے نیوی گالف کورس کی تعمیر بھی غیر قانونی قرار دی اور وزارت دفاع کو انکوائری کی ہدایت دی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سماعت کے دوران کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ جی ایچ کیو یا فوج کا ڈائریکٹوریٹ کس قانون کے تحت مارگلہ نیشنل پارک کی پراپرٹی کا مالک ہو سکتا ہے یا کمرشل لیز معاہدہ کر سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین واضح ہے کہ کسی بھی زمین کی خرید وفروخت یا لیز کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے اور آرمڈ فورسز پراپرٹی کو ڈیل نہیں کر سکتیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 1910 میں فوج کو دی گئی زمین کا کنٹرول 1960 میں سی ڈی اے آرڈیننس کے بعد وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلا گیا تھا اور آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے افسران نے قانون توڑا، اتھارٹی کا غلط استعمال کیا اور غیر قانونی کمرشل سرگرمی میں شامل ہو کر اور کرایہ وصول کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
Getty Imagesسپریم کورٹ میں کیا ہوا؟
سپریم کورٹ کی طرف سے مارگلہ ہلز نینشل پارک میں کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے سے متعلق ڈیڈلائن ابھی چند ہفتے باقی ہیں تاہم اس دوران مونال ہوٹل کے مالک لقمان علی افضل کے بھائی کامران علی افضل، جو کہ موجودہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن ہیں، نے ایک سمری وفاقی کابینہ میں پیش کی۔
کابینہ سے اس سمری کی منظوری بھی لے لی گئی جس کے تحت اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن رعنا سعید کو ناصرف برطرف کر دیا گیا بلکہ وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا۔
اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور عدالت نے 15 اگست کو چیئرمین سی ڈی اے، کابینہ ڈویژن اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹریز کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
Getty Images
عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ مونال کے مالک نے ریمائونٹ ویٹنری فارمز کے ڈی جی سمیریز سالک سے معاہدہ کیا جو کہ فوج کے حاضر سروس جنرل ہیں جبکہ وزارت دفاع کے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میجر جنرل سمریز سالک ایسا معاہدہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
عدالت نے اپنے حکممیں یہ بھی لکھا کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ لقمان علی افضل، مونال کے مالک، ان کے چھوٹے بھائی ہیں اور مذکورہ سیکریٹری نے رولز آف بزنس پر انحصار کرتے ہوئے کابینہ سے متفقہ منظوری نہیں لی اور سیکرٹری کابینہ نے اقربا پروری کا مظاہرہ کیا جو کہ عوامی مفاد کے خلاف تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ نہ تو چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ رعنا سعید کی برطرفی کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد ہوگا اور نہ ہی نیشنل پارک کو وزارت داخلہ کو منتقل کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟’پاک فوج اوکاڑہ فارمز کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار‘نیوی سیلنگ کلب کو گرانے اور سابق نیول چیف سمیت ذمہ داران کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم’فوج کے پاس کاروبار کرنے کا اختیار نہیں،‘ اسلام آباد ہائی کورٹ