عمر فاروق ہلال امتیاز کے لیے نامزد: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کے مرکزی کردار کا نام سرکاری فہرست میں کیسے پہنچا؟

بی بی سی اردو  |  Aug 16, 2024

14 اگست کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے اور گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے افراد کے لیے سرکاری اعزازات کا اعلان معمول کی بات ہے لیکن گذشتہ برس کی طرح اس برس بھی یہ سرکاری فہرست اس وقت موضوع بحث بن گئی جب اس میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی عمر فاروق کا نام دکھائی دیا۔

ایوان صدر کی جانب سے اس ضمن میں ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی حتمی فہرست جاری کر دی گئی ہے جنھیں آئندہ برس 23 مارچ کو ہونے والی تقریب میں یہ اعزازات دیے جائیں گے۔

عمر فاورق کو سماجی شعبے میں خدمات سرانجام دینے پر ہلال امتیاز دینے کی سفارش کی گئی۔

کیبنٹ ڈویژن کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ وہی شخصیت ہیں جن کا نام عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں سعودی ولی عہد کی جانب سے سابق وزیراعظم کو تحفے میں ملنے والی بیش قیمت گھڑی کے خریدار کے طور پر سامنے آیا تھا۔

عمر فاروق نامی اس کاروباری شخصیت نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے محمد بن سلمان کی جانب سے عمران خان کو دیا جانے والا خصوصی گفٹ سیٹ، جس میں ایک گھڑی بھی شامل تھی، سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کے ذریعے سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کی قریبی دوست فرح خان سے دبئی میں دو ملین ڈالر کے عوض خریدا۔

تاہم تحریک انصاف کی جانب سے اس دعوے کر رد کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا تھا کہ تحفے میں دی گئی گھڑی عمر فاروق نامی شخص کو نہیں بلکہ پاکستانی مارکیٹ کے ایک ڈیلر کو پانچ کروڑ ستر لاکھ روپے میں فروخت کی گئی تھی۔

عمر فاروق کون ہیں؟

عمر فاروق کی ’سماجی خدمات‘ کے بارے میں تو تفصیلات عوامی ریکارڈ میں موجود نہیں تاہم ان کا نام پہلی بار سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں ایک ’انتہائی مطلوب‘ شخصیت کے طور پر سامنے آیا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب عمر فاروق کے خلاف اپنی بیوی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے اور بچوں کو زبردستی چھیننے کے الزام میں اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انھیں اشتہاری بھی قرار دیا گیا تھا۔

اسی سلسلے میں ان کا نام بیرون ملک میں ہونے کی وجہ سے انٹرپول کی فہرست میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے بعد عمر فاورق نے اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی تھی جو منظور کر لی گئی اور اس تحقیقاتی ٹیم میں ایف آئی اے کے سینیئر ڈائریکٹرز بھی شامل تھے۔

اس جے آئی ٹی نے متعلقہ عدالت میں جو رپورٹ جمع کروائی اس کے مطابق عمر فاروق کے کسی جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔

یہ بھی پڑھیےتوشہ خانہ 2.0: عمران خان کو سرکاری تحائف کے معاملے میں دوبارہ کیوں سزا سنائی گئی؟توشہ خانہ کیا ہے اور کون سے سابق حکمران تحائف کے معاملے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں؟

اسی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کو عمر فاروق کی سابقہ اہلیہ صوفیہ جمال کی مدد کا کہا تھا اور متعلقہ اداروں نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عمر فاروق کے غیر ضمانتی وارنٹ حاصل کیے اور ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلیک لسٹ کر دیا تھا۔

واضح رہے انٹرپول نے عمر فاروق کا نام اپنی لسٹ سے نکال دیا تھا جبکہ لاہور کی مقامی عدالت نے انھیں جعلی شناختی کارڈ بنوانے اور اپنی ہی بیٹیوں کو اغوا کے الزام سے بھی بری کر دیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں داخلہ امور سے متعلقوزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ عمر فاروق کے خلاف درج ہونے والے مقدمے اور اس ضمن میں ہونے والی کارروائی قانون کے مطابق ہوئی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مذکورہ شخص نے ایف آئی اے کے ساتھ ملی بھگت کرکے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے کو نہ صرف ختم کروایا بلکہ ان (شہزاد اکبر) کے خلاف مقدمہ درج کروایا جس کے بارے میں انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ان (شہزاد اکبر) کے خلاف درج مقدمے کو خارج کردیا۔

عمر فاروق کا نام اعزازات کی فہرست میں کیسے پہنچا؟

سرکاری اعزازات کے حوالے سے ناموں کی منظوری کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انھیں یاد نہیں کہ انھوں نے عمر فاورق کا نام ایوارڈ لینے والوں کو فہرست میں شامل کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہر صوبے کی اس ضمن میں ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اپنی سفارشات ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی کو بھیجتی ہے‘ اور ان کی کمیٹی میں صوبائی سطح پر قائم کی گئی سب کمیٹیوں کی سفارشات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ایوارڈ حاصل کرنے والے ناموں کی فہرست تیار کرنے والی کمیٹی ناموں کو اپنے طور پر منتخب کر کے اس فہرست کو وزیر اعظم سیکریٹریٹ بجھوا دیتی ہے جہاں پر اسے حتمی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں بھی اس فہرست میں مختلف لوگوں کے نام شامل کیے یا نکالے جاتے ہیں۔

کمیٹی کے ایک اور رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم ہاؤس یا وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ہی اس فہرست میں تبدیلی نہیں کی جاتی بلکہ ایوان صدر میں بھی جب اس فہرست کو حتمی نوٹیفیکیشن کے لیے بھجوایا جاتا ہے تو وہاں پر بھی اس فہرست میں ردوبدل ہوتا ہے تاہم ایوان صدر میں اعلیٰ عہدے پر فائز ایک افسر کے مطابق وہاں اسی فہرست کو حتمی سمجھا جاتا ہے جو وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی طرف سے انھیں بھجوائی جاتی ہے۔

احسن اقبال سے جب یہ پوچھا گیا کہ کون سی سماجی خدمات یا پبلک سروس کی بنیاد پر عمر فاورق کا نام ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں ڈالا گیا تو احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق وہ کچھ نہیں کہہ سکتے اور اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ صوبائی سطح پر بنائی گئی سب کمیٹی نے ان کا نام ایوارڈ کے لیے نام تجویز کیا ہو۔

کابینہ ڈویژن کے ایک اہلکار کے مطابق ایوارڈ کے لیے جن افراد کو نامزد کیا جاتا ہے تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس کی سماجی خدمات یا اگر وہ کوئی سرکاری ملازم ہو تو اس کا سروس ریکارڈ کو بھی چیک کیا جاتا ہے تاہم عمر فاورق کی سماجی خدمات کے بارے میں کوئی تفصیلات ابھی تک ریکارڈ پر نہیں آئیں۔

گلدان اور سگار کے ڈبوں سے مہنگی گھڑیوں تک، فوجی افسران نے توشہ خانہ سے کیا کچھ حاصل کیا؟توشہ خان کیس کی سماعت: ’عمران خان کو کہا تھا وکیل آپ کے ساتھ مخلص نہیں‘ توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی کے باوجود عمران خان کی فوری رہائی کیوں ممکن نہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More