پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل سے فری لانسرز پریشان: ’ہمارا تو نقصان ہے ہی لیکن اصل نقصان حکومت کا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 15, 2024

Getty Images

’ہمارا کلائنٹ کم ہو رہا ہے، ٹھیک ہے ہمیں تو نقصان ہے ہی لیکن یہ پیسا ملک میں آ رہا تھا، یہاں لوگوں کا روزگار لگا ہوا ہے، اصل نقصان تو حکومت کا ہے۔‘

یہ بات پاکستان کے شہر لاہور میں مقیم ایک فری لانسر مہتاب نے انٹرنیٹ کے باعث اپنے شعبے سے منسلک مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہی۔

پاکستان میں گذشتہ چند ہفتوں سے جہاں بھی جائیں ایک شکایت تو ضرور سننے کو ملتی ہے، اور وہ یہ کہ ’واٹس ایپ نہیں چل رہا‘، ’انٹرنیٹ بہت سلو ہو گیا ہے۔‘

ملک میں اگر آپ اپنے فون سے کسی کو خصوصاً موبائل ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ کے ذریعے وائس نوٹ یا کوئی تصویر بھیجنے کی کوشش کریں، تو عین ممکن ہے کہ یہ اگلے صارف تک پہنچے ہی نہیں یا اگر آپ وصول کرنے والے ہوں تو یہ ڈاؤن لوڈ ہی نہ ہو۔

پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اس حوالے سے خاموش ہے اور تاحال اس بارے میں کوئی واضح جواب موجود نہیں ہے لیکن بی بی سی سے گذشتہ ماہ کے اواخر ایک ٹیلی کام کمپنی کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’جہاں تک ہماری معلومات ہیں اس کے مطابق ریاستی اداروں کی جانب سے انٹرنیٹ فائر وال لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز چلانے میں مسئلہ آ رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ انٹرنیٹ فائر وال بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے مرکزی انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگائی جاتی ہیں جہاں سے انٹرنیٹ اپ اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے اور اس نظام کی تنصیب کا مقصد انٹرنیٹ کی ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتی ہے۔ اس نظام کی مدد سے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود مواد کو کنٹرول یا بلاک کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فائر وال سسٹم کی مدد سے ایسے مواد کے ماخذ یا مقامِ آغاز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ان مسائل کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ملک بھر میں سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کے حوالے سے پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمان کو 21 اگست کو کمیٹی کے سامنے وضاحت دینے کی درخواست کی ہے۔

Getty Images

تاہم اس سب کے بیچ میں پاکستان اور دنیا بھر میں فری لانسنگ کے لیے مشہور پلیٹ فارم فائیور کا ایک نوٹ گردش کرنے لگا جس میں پاکستان میں موجود فری لانسرز کی پروفائل پر یہ لکھا گیا کہ ان کے ملک میں انٹرنیٹ کی بندش ہے اس لیے ان کی جانب سے کیا گیا کام تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ نوٹ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر کیا گیا اور متعدد انفلوئنسرز نے بھی اسے شیئر کیا ہے۔

تاہم بی بی سی نے فائیور پر کام کرنے والے متعدد فری لانسرز سے جب اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ نوٹ دراصل گذشتہ ایک سال کے دوران کئی بار فائیور کی جانب سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کے دوران پوسٹ کیا گیا ہے لیکن ایسا اس مرتبہ نہیں کیا گیا اور انٹرنیٹ پر گردش کرنے والا انتباہی نوٹ پرانا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کا معاملہ نیا نہیں ہے اور مختلف مواقعوں پر اس کی بندش کی جا چکی ہے۔ ایسا اکثر سکیورٹی وجوہات کے باعث کیا جاتا رہا ہے جیسے نویں اور دسویں محرم کو لیکن گذشتہ برس نو مئی کے دوران جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران بھی انٹرنیٹ پاکستان کے مخلتف علاقوں میں بند رہا تھا۔

گذشتہ ایک سال کے دوران فروری کے عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے ورچوئل جلسوں کے دوران یہ بندش دیکھنے کو ملتی تھی جبکہ انتخابات کے بعد سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ملک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

تاہم اس مرتبہ انٹرنیٹ کی ڈی گریڈیشن اور واٹس ایپ کے استعمال میں شدید مسائل نے بیرونِ ملک کی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر کام کرنے والوں اور انفرادی کلائنٹس کے ساتھ فری لانسنگ کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

Getty Images’مجھے امریکہ میں ورچوئل سسٹمز خریدنے پڑے‘

لاہور میں آن لائن مارکیٹنگ کمپنی کے بانی مہتاب احمد نے بی بی سی سے ملک میں انٹرنیٹ کی حالیہ ڈاؤن گریڈیشناور بار بار بندش کے باعث مشکلات کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو گذشتہ چند ہفتوں سے سامنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کام کے دوران مجھے مختلف پلیٹ فارمز تک رسائی میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے اور ہمارا کام بھی اس نوعیت کا ہے کہ اس میں مختلف پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے کام کیا جاتا ہے۔‘

’اس کے لیے مجھے امریکہ میں ورچوئل سسٹمز خریدنے پڑے تاکہ کام میں خلل نہ آئے لیکن یہ خاصے مہنگے تھے اور یہ ایک اضافی قیمت ہے جو مجھے اپنے کاروبار کے حوالے سے اٹھانی پڑی ہے۔‘

مہتاب کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف بیرونِ ملک کلائنٹس تک ہی محدود نہیں ہے، ’ہماری یہاں ٹیم سے واٹس ایپ کے ذریعے بات ہوتی ہے اور ہمیں اس میں مسائل کا سامنا ہے، اسی طرح سلو انٹرنیٹ کی وجہ سے بھی مسائل آ رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس تو انٹرنیٹ کے بیک اپ آپشن بھی موجود ہیں جو دیگر انٹرنیٹ سروسز کے مقابلے میں بہتر سروس فراہم کر رہے ہیں کیونکہ اب یہ مسئلہ صرف موبائل ڈیٹا تک محدود نہیں ہے۔

مہتاب کہتے ہیں کہ ’ہمارے کلائنٹس کم ہوں گے تو اس کا نقصان براہ راست حکومت کو ہو گا، کیونکہ ملک میں جو سرمایہ آ رہا ہے وہ کم ہو جائے گا اور عالمی مارکیٹ میں کلائنٹس پاکستان کے فری لانسرز کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھیں گے۔‘

مہتاب کہتے ہیں کہ فی الحال تو اس کا واحد حل وی پی اینکا استعمال ہی ہے۔

صرف مہتاب ہی نہیں بلکہ متعدد ایسے شعبے ہیں جن میں کووڈ کے بعد سے آن لائن کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح آن لائن ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی موبائل ایپس کا استعمال کرنے والے افراد بھی اسی کرب کا شکار ہیں۔

ان ڈرائیو ایپ کے تحت اسلام آباد میں گاڑی چلانے والے اکثر ڈرائیور اس حوالے سے شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لنکڈ ان پر نظر دوڑائیں تو ایسی بے شمار پوسٹس موجود ہیں جن میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

ڈاکٹر ایمن شاہد جن کی پروفائل کے مطابق وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں بطور ڈینٹسٹ کام کر رہی ہیں اور ایک فری لانسر بھی ہیں لکھتی ہیں کہ ’پاکستان میں انٹرنیٹ کا مسئلہ کافی دیر سے چل رہا ہے اور اب یہ بہت سے مسائل کا باعث اور رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔ ایسا متعدد مرتبہ ہوا ہے کہ مجھے کلائنٹس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کنکشن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔‘

’امید ہے کہ حکام اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ کر رہے ہیں کیونکہ اگر یہ مسئلہ طویل مدت کے لیے رہا تو آن لائن روزگار کمانے والوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔‘

’ابھی تو مسئلہ شروع ہوا ہے، آگے دیکھو کیا ہوتا ہے‘: پاکستان میں صارفین کو سست انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟دنیا کو تبدیل کر دینے والا انٹرنیٹ پاکستان میں کب اور کیسے آیا؟

مہتاب سمیت دیگر فری لانسرز کے مطابق اس مسئلے کا اس وقت ’ہمارے پاس حل وی پی این ہی ہے۔‘تاہم پی ٹی اے کی جانب سے وی پی اینز کی رجسٹریشن کے عمل کا بھی آغاز کرنے کے اعلان کیا گیا ہے۔

اس بارے میں ہم نے سائبر سکیورٹی اور انٹرنیٹ کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے اسد الرحمان سے بات کی ہے۔ اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومت پاکستان انٹرنیٹفائروال لگائے جانے کے بعد اب وی پی این کو کیوں ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟

وی پی این کیا ہوتا ہے؟

اسد الرحمان کہتے ہیں کہ وی پی این دراصل ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے لیے کام آتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’آج سے پہلے عام لوگوں کو یہی پتا تھا کہ وی پی این کوئی غلط چیز جسے خطرناک مواد اور ایسی سائٹس جن پر پاکستان میں پابندی ہے تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم اب ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش کے بعد سے لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی بڑھی ہے۔

’وی پی این دراصل ہماری شناخت چھپا لیتا ہے اور یہ بھی کہ ہم کہاں بیٹھ کرانٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، اس طرح پبلک انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جہاں ہمیں مختلف سائبر حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این استعمال کرتے ہوئے ایسا نہیں ہوتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح آپ وی پی این کے ذریعے ایسی ویب سائٹس اور مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی ہے۔

تاہم وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’اچھا وی پی این استعمال کرنا بھی اہم ہے اور اس حوالے سے ’پیڈ‘ یعنی معاوضے کے عوض وی پی این کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ مفت وی پی این آپ کے لیے مسائل کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔‘

Getty Imagesپاکستان میں وی پی این کی رجسٹریشن کیوں؟

رواں برس مارچ میں وی پی این کی سروسز فراہم کرنے والی سوئٹزرلینڈ کی ملٹی نیشنل کمپنی پروٹون نے بتایا تھا پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں چھ ہزار فیصد اضافہ ہوا۔

پاکستان میں رواں برس فروری سے ایکس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ گذشتہ ماہ وزارتِ داخلہ نے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں ایکس کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ملک میں ایکس بحال نہیں ہو سکتا۔

وزارتِ داخلہ نے جواب میں مزید کہا تھا کہ ’ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے، ایکس ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس سے متعدد بار کہا گیا کہ قانون پر عمل کرے۔‘

جواب کے مطابق ’وزارت داخلہ کے پاس عارضی طور پر ایکس کی بندش کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ 17 فروری کو وزارت داخلہ نے ایکس فوری طور بند کرنے کو کہا تھا۔‘

تاہم وی پی این کے ذریعے ایکس تک رسائی ممکن ہے اور پاکستان میں اکثر افراد اس کا استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم پی ٹی اے چیئرمین حفیظ الرحمان نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ وی پی اینز کی وائٹ لسٹنگ اور چند وی پی اینز کو ملک میں بلاک کرنے کے لیے پالیسی وضع کی جا رہی ہے جس کے بعد صرف رجسٹرڈ وی پی این ہی پاکستان میں کام کر سکیں گے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں وی پی این کو ریگولیٹ کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے قبل 2010 ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس ریگولیشن اور 2022 کی رجسٹریشن ڈرائیو کے ذریعے یہ کوشش کی جا چکی ہے۔

سائبر سکیورٹی ماہر اسد الرحمان کے مطابق ’حکومت نے اگر وی پی این کو رجسٹر کرنا ہے تو اس کے لیے اسے انٹرنیٹ فراپم کرنے والی کمپنیوں یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پیز) کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ تاہم نہ تو وی پی اینز پر مکمل طور پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی انھیں پوری طرح رجسٹر کرنا ممکن ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وی پی اینز اوپن سورس بھی مارکیٹ میں موجود ہیں اس لیے انھیں مکمل طور پر بند کرنے سے فائدہ نہیں ہو گا۔‘

وی پی این کی وائٹ لسٹنگ کیوں؟

اسد الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ ’وی پی اینز کی وائٹ لسٹنگ کی وجہ یہی ہے کہ نگرانی کی جا سکے کہ کون کیا کر رہا ہے اور یہ نگرانی اس طرح ممکن ہو گی کہ حکومت ان رجسٹرڈ وی پی اینز پر ڈیٹا پاکستان میں رکھنے کی شرط عائد کر سکتی ہے۔‘

تاہم وی پی این کمپنیاں اگر حکومت کو اپنے ڈیٹا تک رسائی فراہم کرتی ہیں تو ممکنہ طور پر ان کی سکیورٹی داؤ پر لگ سکتی ہے، تو ایسا وہکیوں کرنا چاہیں گی؟ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو مرتبہ بھی وی پی این ریگولیٹ کرنے کی مہم ناکام ہوئی تھی۔

پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کی جانب سے سنہ 2020 میں لکھے گئے ایک بلاگ میں اسی حوالے سے تفصیل سے بات کی گئی تھی۔ اس میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے حکومت کے پاس لوگوں کو ٹارگٹ کرنے یا ان کی نگرانی کرنے کی صلاحیت آ سکتی ہے جو ڈیٹا پرائیویسی کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

’ابھی تو مسئلہ شروع ہوا ہے، آگے دیکھو کیا ہوتا ہے‘: پاکستان میں صارفین کو سست انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟دنیا کو تبدیل کر دینے والا انٹرنیٹ پاکستان میں کب اور کیسے آیا؟پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش سے کاروبار زندگی متاثر: ’سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں ڈال سکے تو آرڈر بھی نہیں ملے‘پاک سیٹ ایم ایم ون: لاکھوں روپے کا سیٹلائٹ انٹرنیٹ کیا پاکستان میں عام آدمی کے لیے ’گیم چینجر‘ ثابت ہو گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More