آٹھ جون 2022 کی رات جب شکیل تنولی اور ان کے دوست علی حسنین نے اسلام آباد ہائی وے کو پیدل عبور کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ اقدام ان کی جان لے لے گا۔
مقامی پولیس کے مطابق شکیل اور علی سڑک عبور کر رہے تھے جب ایک تیز رفتار گاڑی نے، جسے مبینہ طور پر اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور حال ہی میں سپریم کورٹ میں تعینات کیے جانے والے جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی شانزہ چلا رہی تھیں، ٹکر ماری جس کی وجہ سے دونوں افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور مذکورہ خاتون جائے حادثہ سے فرار ہو گئیں۔
مرنے والے دونوں افراد بلیو ایریا میں ایک ریستوران میں کام کرتے تھے اور آٹھ جون کی شب ڈیوٹی کر کے واپس گھر لوٹ رہے تھے اور اس حادثے میں جو گاڑی استعمال ہوئی وہ مقامی پولیس کے بقول اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے جج ملک شہزاد احمد خان کے زیر استعمال تھی۔
اس واقعے کو دو برس ہونے کو ہیں لیکن جہاں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے علی حسنین کے لواحقین نے راضی نامہ کر لیا ہے وہیں شکیل تنولی کے اہلخانہ انصاف کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
منگل کو اس مقدمے میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت کی جانب سے نہ صرف واقعے کے دو برس بعد سامنے آنے والی ملزمہ شانزہ شہزاد ملک کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی گئی بلکہ مقدمے میں ملزمہ کے خلاف درج دفعات کو بھی تبدیل کرنے کا حکم دیا۔
مجسٹریٹ کامران ظہیر عباسی نے سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی شانزہ ملک کی ضمانت کی درخواست پر تین صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ درخواست گزارکا کہنا ہے کہ ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کا نام اس مقدمے میں شامل کیا گیا اور مقدمے میں ان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 322 درج کی گئی جو کہ قتل بالسبب (جان بوجھ کر کسی کے قتل کی وجہ بننا) کے زمرے میں آتی ہے اور ناقابل ضمانت جرم ہے جبکہ اس واقعے پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 320 کا اطلاق ہوتا ہے جو قتل بالخطا کے زمرے میں آتی ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ’عدالت نے ملزمہ شانزہ ملک کا ڈرائیونگ لائسنس دیکھا ہے اور یہ لائسنس 2026 تک کارآمد ہے جس کی وجہ سے اس مقدمے سے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 322 کو ختم کر کے اس مقدمے پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 320 کا اطلاق کیا جائے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اس مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر 10 سال قید سزا بھی ہو سکتی ہے اور یہ مقدمہ دیت کے زمرے میں بھی آتا ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’پاکستان پینل کوڈ کا یہ سیکشن قابل ضمانت ہے اس لیے درخواست گزار (شانزہ ملک) کی ضمانت کی درخواست 30 ہزار روپے مچلکوں کے عوض منظور کی جاتی ہے۔‘
AFP’ہائیکورٹ گیا تو پولیس حرکت میں آئی‘
مجسٹریٹ کے اس فیصلے کے بعد شکیل تنولی کے ورثا کا کہنا ہے کہ وہ اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔
شکیل کے والد رفاقت علی تنولی نے، جو اس مقدمے کے مدعی بھی ہیں، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس مقدمے میں جب جسٹس شہزاد کی بیٹی اسلام آباد کی مقامی عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کے لیے آئیں تو انھیں متعلقہ عدالت کی طرف سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر مجھے متعلقہ عدالت کی جانب سے اس مقدمے میں پیشی کا نوٹس جاری کیا جاتا تو میں ضرور پیش ہو کر اپنا مقدمہ لڑتا اور عدالت کو مطلع کرنے کی کوشش کرتا کہ میرے بیٹے کی قاتل سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی بیٹی ہے۔‘
رفاقت علی کی جانب سے رواں سال 29 مئی کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک درخواست بھی دائر کروائی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور موجودہ سپریم کورٹ جج شہزاد احمد خان کو برطرف کیا جائے کیونکہ وہ ’انصاف کی راہ میں مسلسل حائل ہو رہے ہیں۔‘
رفاقت تنولی کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال تک وہ اسلام آباد کی مقامی عدالتوں میں اس مقدمے کی پیروی کرتے رہے اور مقامی عدالتوں سے انھیں کوئی ریلیف نہ ملا تو انھوں نے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی اور یہ درخواست اب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
رفاقت تنولی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی درخواست زیر سماعت ہونے کی وجہ سے پولیس اور انتظامیہ حرکت میں آئی اور انھوں نے دوبارہ اس مقدمے کی تفتیش شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس حادثے میں ملوث ملزمہ منظر عام پر آ گئیں اور انھوں نے متعلقہ عدالت سے ضمانت کروائی۔
رفاقت تنولی کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا شکیل تنولی اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا جس کے وفات پانے کی وجہ سے ان کا خاندان مالی مشکلات کا شکار ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب یہ حادثہ رونما ہوا تو اس کے دو دن بعد ایک شخص جنھوں نے اپنا تعارف مقامی عدلیہ کے جج کے طور پر کروایا، اپنے چند بااثر افراد کے ساتھ ان کے گھر پر آئے اور اس مقدمے کی پیروی نہ کرنے پر زور دیا۔
رفاقت تنولی کے مطابق اس کے انکار کے بعد انھوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور انھوں نے اپنے بیٹے کے مبینہ قتل کے مقدمے کی پیروی جاری رکھی۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹریفک حادثے کے اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے اور پہلے تو سیف سٹی کمیروں کے ذمہ داران انھیں یہ فوٹیج فراہم نہیں کر رہے تھے بعد ازاں رفاقت تنولی کے بقول عدالتی حکم پر انھیں اس واقعہ سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کر دی گئی۔‘
یہ بھی پڑھیے’لواحقین نے سی سی ٹی وی ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد فی سبیل اللہ معاف کیا‘اسلام آباد میں گاڑی کی ٹکر سے 40 سالہ شخص کی ہلاکت: 69 لاکھ دیت کی ادائیگی کے بعد ملزمہ کی ضمانت منظوراسلام آباد: ’تفتیشی افسر نے والدہ سے کہا کہ اپنے ہاتھ سے درخواست لکھیں ورنہ بیٹے کی لاش نہیں ملے گی‘وکیلِ استغاثہ کیا کہتے ہیں؟
اس مقدمے کے وکیل حسن عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے درخواست گزار شانزہ ملک کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی تھی اور اس ضمن میں دلائل بھی دیے تھے لیکن جج نے ان سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کو ملزمہ کو ضمانت دینے پر اعتراض نہیں بلکہ جس طریقہ کار کے تحت انھیں ضمانت دی گئی وہ طریقہ کار پراسیکیوٹر کے بقول قانونی نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ملزمہ نے لاہور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت لے رکھی تھی اور جب وہ عدالت میں پیش ہوئی تو عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے۔‘
پراسیکیوٹر حسن عباس کا کہنا تھا کہ ’جب ملزمہ نے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا تھا تو بہتر ہوتا کہ ملزمہ اس مقدمے میں پہلے شامل تفتیش ہوتیں اور پھر ضمانت کی درخواست دائر کرتیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈیوٹی مجسٹریٹ کامران ظہیر عباسی جو لاہور ہائی کورٹ سے ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد آئے ہوئے ہیں، نے اس ڈرائیونگ لائسنس کے اصلی یا نقلی ہونے سے متعلق کوئی تصدیق نہیں کروائی اور اپنے طور پر ہی اس کو اصل قرار دے کر ملزمہ کی ضمانت لے لی۔‘
ملزمہ کے وکیل کا موقف
شانزہ ملک کے وکیل ملک صدیق اعوان کا کہنا ہے کہ ’ان کی موکلہ کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسانے کے لیے یہ مقدمہ درج کروایا گیا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس مقدمے کی جو ایف آئی آر درج ہے اس میں کسی کا بھی نام نہیں اور پھر بعد میں ان کی موکلہ کا نام سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’دو سال پہلے کا واقعہ ہے تو اب ان کی موکلہ کو ضمانت کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر صدیق اعوان ایڈووکیٹ نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا اور کہا کہ جب ضرورت سمجھی گئی تو ضمانت کروا لی گئی۔
انھوں نے کہا کہ گاڑی کی تیز رفتاری کی وجہ سے اگر کسی کی ہلاکت ہو جائے تو اس پر پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 320 لاگو ہوتا ہے اور یہ قابل ضمانت جرم ہے۔
ملزمہ کے وکیل صدیق اعوان نے دعویٰ کیا کہ ضمانت کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہونے سے پہلے اس مقدمے کے مدعی رفاقت تنولی کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ’عدالت نے ان کی موکلہ کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے جو فیصلہ تحریر کیا، اس میں کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ کی طرف سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا تھا۔‘
مقدمے کے تفتیشی افسر کا موقف
ٹریفک کے اس حادثے کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والے اسلام آباد کے تھانہ کھنہ کے سب انسپکٹر عبدالستار کا کہنا ہے کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جس گاڑی نے ان دونوں افراد کوٹکر ماری، وہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک اعلیٰ جج کے زیر استعمال ہے۔
’اس حادثے کے اگلے روز ہی لاہور ہائی کورٹ پنڈی برانچ کا ایک افسر متعلقہ عدالت سے اس گاڑی کی سپرداری کروا کر لے گیا تھا‘۔
پولیس اہلکار کے مطابق انھوں نے اس گاڑی کی سپرداری منسوخ کروانے اور اسے مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لیے اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں درخواست دائر کی جو کہ مسترد کر دی گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ گاڑی آج تک مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ نہیں رہی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں رفاقت علی تنولی کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے تفتیشی افسر کو حکم دیا تھا کہ اگر تین ہفتے کے اندر اس مقدمے کی تفتیش مکمل نہ ہوئی تو عدالت انھیں جیل بھیج دے گی۔
اس ٹریفک حادثے سے متعلق رفاقت تنولی کی درخواست پر عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو بھی طلب کیا تھا۔
گاڑی سے دو افراد کو ہلاک کرنے والا ’نابالغ ملزم‘ جسے حادثے پر مضمون لکھنے کی شرط پر ضمانت مل گئی’کیمروں کے سامنے گاڑی نے کچل دیا اور مجرم رہا، واہ رے انصاف‘بحریہ ٹاؤن: حادثے میں پانچ افراد کی ہلاکت، ’میری زندگی کے 45 منٹ جنھیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گی‘