برزخ: ’مصنف کا کام معاشرے کو آئینہ دکھانا ہے، اصلاح کی دعوت دینا نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 07, 2024

فواد خان اور صنم سعید دس برس بعد ایک بار پھر ایک ساتھ!

پاکستان میں ٹی وی ڈرامے کے شائقین کے لیے ’برزخ‘ کا انتظار کرنے کے لیے یہ شہ سرخی کافی تھی لیکن پاکستان اور انڈیا کی مشترکہ پروڈکشن میں بننے والی یہ سیریز ریلیز کے بعد ایسے تنازعات میں گھری کہ اسے نشر کرنے والے انڈین چینل ’زی زندگی‘ نے اسے پاکستان میں یو ٹیوب سے ہی ہٹا دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

چھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی آخری قسط چھ اگست کو یو ٹیوب پر جاری کی گئی لیکن اسی دن ’زی زندگی‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نو اگست کے بعد پاکستان میں یو ٹیوب پر اس ڈرامے تک رسائی ممکن نہیں ہو گی۔

چینل کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان میں موجودہ عوامی جذبات کی روشنی میں، ہم نے یوٹیوب پاکستان سے برزخ کو رضاکارانہ طور پر ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

خیال رہے کہ اس ڈرامہ سیریز کی پہلی قسط نشر ہونے کے بعد سے ہی پاکستانی شائقین کی طرف سے اس پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا جنھوں نے اس سیریز کے موضوعات کو فحش، اشتعال انگیز اور اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیا تھا۔

’کہانیاں کبھی مرتی نہیں ہیں‘

برزخ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب رکاوٹ ہے جبکہ دینی اعتبار سے اس سے مراد کسی فرد کی وفات کے بعد روزِ قیامت تک کا عرصہ ہے۔ ڈرامہ سیریز برزخ کی کہانی عاصم عباسی کی تحریر کردہ ہےجو اس سیریز کے ہدایتکار بھی ہیں۔

عاصم عباسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر زی زندگی کی طرف سے پاکستان میں یوٹیوب سے برزخ کوہٹانے کے فیصلے کو بہترین قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’میری کوئی بھی کہانی ان تمام خوبصورت و باصلاحیت فنکاروں کے تحفظ سے زیادہ قیمتی نہیں ہے جو اسے بنانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔‘

’یہ فیصلہ واقعی بہترین ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جنھوں نے ہم پر محبت کی بارش کی۔ مجھے امید ہے کہ آپ آخری قسط سے لطف اندوز ہوں گے! اور یاد رکھیں، کہانیاں کبھی مرتی نہیں ہیں۔‘

اس بیان کے بعد بی بی سی نے عاصم عباسی سمیت سیریز میں شامل اداکاروں سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس سیریز یا اسے یو ٹیوب سے ہٹائے جانے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

برزخ کی کہانی کیا ہے؟

اس ویب سیریز میں مختلف کرداروں کے درمیان پیچیدہ تعلقات اور سماجی مسائل کو پیش کیاگیا ہے۔ برزخ کی کہانی ایک 76 سالہ شخص جعفر کےگرد گھومتی ہے جو عالمِ برزخ میں موجود اپنی پہلی محبت سے شادی کے لیے اپنے بیٹوں کو مدعو کرتا ہے۔

ایک طرف جعفر اپنی شادی کے لیے عالمِ برزخ کو جانے کی تیاریوں میں ہے جبکہ دوسری طرف اسی بستی کے لوگ دو دنیاؤں کے لوگوں کے اس ملن سے دنیا کے فنا ہونے کے خوف میں ہیں۔

اس کہانی میں ادب کی جدید تکنیک ’میجیکل ریئلزم‘ یا جادوئی حقیقت نگاری سے کام لیا گیا ہے جس میں ماضی اور حال کی دنیائیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں اور کہانی کے مرکز میں وہ لوگ ہیں جو اپنی شناخت اور جذبات کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہیں۔

سیریز میں حیات بعد از مرگ، ذہنی صحت، زچگی کے بعد ڈپریشن، زبردستی شادی جیسے موضوعات کے علاوہ نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے لیکن بیشتر پاکستانی شائقین کو سیریز کے کچھ مناظر اور موضوعات پر شدید اعتراض رہا ہے اور ان کی دعویٰ ہے کہ اس سے زنا، ہم جنس پرستی اور جادو ٹونے کی ترویج ہو رہی ہے۔

برزخ کی پہلی قسط کے پہلے منظر پر ہی ناظرین کی طرف سے فحاشی پھیلانے کا الزام لگا تو تیسری قسط میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کا الزام اس وقت سامنے آیا جب اس قسط کے ایک منظر میں دو مرد کردار ایک دوسرے کو بوسہ دینے کے قریب دکھائی دیے۔

ہیرا منڈی: سنجے لیلا بھنسالی کی نئی سیریز پر اہل لاہور کو اتنا غصہ کیوں ہے؟گلاس ورکر: پاکستان کی پہلی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم جو بڑے فلم فیسٹیولز میں پاکستان کی نمائندگی کرے گی’اپنا نیٹ فلکس ڈیلیٹ کر دیں، آنکھوں پر پٹی باندھ لیں‘

اس سیریز کی ریلیز کے بعد صحافی ہوں یا یو ٹیوبرز، پاکستان میں سوشل میڈیا پر سبھی نے اس پر اپنا ردعمل دیا اور اس دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ بہت سی ایسی معلومات بھی پیش کی گئیں جنھوں نے اس ڈرامے کے بارے میں مخالفت کو مزید ہوا دی۔

منگل کو برزخ کی آخری قسط نشر ہونے کے بعد بھی سیریز کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا اور پاکستان میں یوٹیوب سے اس سیریز کو ہٹائے جانے کے اعلان کے بعد برزخ کے خلاف مہم چلانے والے افراد اسے اپنی کامیابی قرار دیتے رہے۔

برزخ نشر ہونے سے پہلے شائقین ڈرامہ سیریل ’زندگی گلزار ہے‘ کی مقبول جوڑی فواد خان اور صنم سعید کو 10 سال بعد ایک ساتھ سکرین پہ دیکھنے کے بے تاب تھے لیکن اب یہی اداکار سب سے زیادہ تنقید کی زد میں ہیں اور سوشل میڈیا پر صارفین ان دونوں اداکاروں پر پابندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

ایک صارف بلال نے ایکس پر لکھا کہ ’اس ڈرامے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انڈیا نے پاکستانی اداکاروں کو کافی رقم دی تو وہ اُن کے لیے پورنوگرافی بھی ریکارڈ کرالیں گے۔‘

نوشین عرفان خان نے لکھا کہ ’ایل جی بی ٹی، شرک، پیڈوفیلیا، نیکروفیلیا، بلیک میجک، الومیناٹی، ہوموسیکشوییلٹی۔ سب ایک جگہ پر۔ آپ کو معلوم ہے کہ کہاں ہے۔ یہ پاکستانی ڈائریکٹر اور اداکاروں کے ڈرامہ سیریل میں ہے جسے زی فائیو نے ریلیز کیا برزخ کے نام سے۔‘

تاہم جہاں تنقید کرنے والوں کرنے والوں کی کمی نہ تھی وہیں انڈین اور پاکستانی صارفین دونوں کی طرف سے برزخ کی ٹیم کو سراہا بھی گیا اور منافقانہ رویے پر بھی بات کی گئی۔

صحافی ابصا کومل نے ایکس پر اپنے تبصرے میں پاکستان میں نیٹ فلکس پر ٹرینڈ کرنے والے بالغ مواد کی طرف اشارہ کیا اور مقامی ناظرین کے دہرے معیار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنا نیٹ فلکس بھی ڈیلیٹ کردیں، آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، کہیں آپ کے جذبات نہ مجروح ہو جائیں۔‘

ایک اور صارف کومل بُخاری نے لکھا کہ ’ہمیں ہر اُس چیز سے مسئلہ کیوں ہے جو کچھ ترقی اور ارتقا لاتی ہے؟ ہم کب تک اُن لوگوں کے ہاتھوں عذاب جھیلتے رہیں گے جو جنسیت کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہیں؟‘

واضح رہے کہ پہلی قسط نشر ہونے کے بعد سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی نے ایک صارف کی تنقید کے جواب میں ’ایکس‘ پر ہی لکھا تھا کہ ’اگر آپ کو غیر روایتی کہانیاں ناپسند ہیں تو براہ کرم میرا مواد نہ دیکھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کی حمایت کرتے رہیں گے اور ایسی کہانیاں سُنائیں گے جن پر وہ یقین رکھتے ہیں۔

’ریت میں سر دبانے سے وہ چیز ختم نہیں ہو جائے گی‘

سوشل میڈیا پر عوام کی اس ڈرامہ سیریز اور اس میں کام کرنے والے اداکاروں پر شدید تنقید اور ٹرولنگ پر ملک کی ڈرامہ انڈسٹری کے کرتا دھرتا افراد اور بیشتر فنکاروں کی طرف سے بھی خاموشی ہی اختیار کی گئی بلکہ چند مشہور شخصیات تو اسی مہم کا حصہ بھی بنیں۔

فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے برزخ کے خلاف ایک ویڈیو جاری کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ اس ڈائریکٹر نے قرآن میں سے جو سب سے بڑے گناہ ہیں اُن کی ایک فہرست بنائی اور اُن پہ ایک ڈرامہ بنا دیا۔‘

پاکستانی گلوکارہ آئمہ بیگ نے برزخ کو پاکستان میں یو ٹیوب سے ہٹائے جانے کی خبر کے بعد انسٹاگرام پر لکھا کہ ’معذرت کے ساتھ یہ اُس طرح کی فلم نہیں تھی جو ہماری نسل دیکھنا چاہتی تھی، شاید یہ توجہ حاصل کرنے کا بدترین طریقہ تھا۔‘

اس صورتحال میں کچھ فنکاروں ایسے بھی تھے جنھوں نے اس سیریز اور اس کے موضوعات پر بات کرتے ہوئے ناقدین کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیا۔

سینیئر اداکارہ روبینہ اشرف ایک مارننگ شو میں برزخ کے موضوعات کا دفاع کرتی دکھائی دیں اور انھوں نے عوام کوسوشل میڈیا کی طاقت کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو معاشرے میں ہم جنس پرستی پر اعتراض ہے تو انھیں چاہیے کہ ’معاشرے میں جہاں جہاں اس طرح کا عمل ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات کریں۔ انھیں بے نقاب کریں۔ ایک ڈرامےنے تو معاشرے کی عکاسی کی ہے اور آپ کے ریت میں سر دبانے سے وہ چیز ختم نہیں ہو جائےگی۔‘

اداکارہ اور ٹی وی میزبان نادیہ خان نے ایک نجی چینل کے شو میں برزخ کی کاسٹ میں فواد خان اور صنم سعید کی جوڑی سمیت ہنزہ کی وادیوں میں فلمائی گئی اس سیریز کو سراہا اور اسے ایسے لوگوں کے لیے ایک بڑا ریلیف قرار دیا تھا جو شادی، طلاق، ساس بہو اور فیملی ڈرامہ سے تنگ آچکے ہیں۔

'مصنف کا کام معاشرے کو آئینہ دکھانا ہے‘

برزخ پر تنقید کرنے والوں کی دلیل ہے کہ ہم جنس پرستی جیسے معاملات کو سکرین پہ پیش کر کے ’نارملائز‘ نہیں کیا جانا چاہیے۔

’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘، ’رقیب سے‘ اور ’ورکنگ ویمن‘ جیسی کامیاب اور جرات مندانہ کہانیوں کی خالق ڈرامہ نگار بی گل کا کہنا ہے کہ درست اور ایماندارانہ آرٹ اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ’برزخ میں ایک ہم جنس پرست فردکا پورا سفر ہے۔اس کے بچپن کے خالی پن اور اُس کے تعلقات کی پیچیدگیوں کو بہت حساس طریقے سے دِکھایا گیا ہے۔ جو کچھ بھی برزخ میں دکھایا گیا کیا وہ یہاں نہیں ہوتا۔ایسے مواد پر پابندی کا مطلب ہے کہ آپ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں اور جھوٹی پارسائی کی غٹرغوں کریں۔‘

انھوں نےمزید کہاکہ ’مصنف اگر لکھتے ہوئے اپنے ناظرین کو خوش کرنے کی فکر میں لکھے گا تو جھوٹ ہی لکھے گا۔ مصنف کا کام معاشرے کو آئینہ دکھانا ہے، کسی منبر پر چڑھ کر اصلاح کی دعوت دینا نہیں۔ اگر ہم اپنے مسائل سے منہ چھپائیں گے تو ان کے دور ہونے کا خیال بھی دل سے نکال دینا چاہیے۔‘

ڈرامہ نگار آمنہ مفتی اگرچہ برزخ کے معاملے پر اپنی رائے دینے سے گریزاں رہیں البتہ ان کا مؤقف تھا کہ کسی بھی مواد پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔

موضوعات اور کرداروں کی تخلیق پر ان کی رائے تھی کہ ’ہم تفریح فراہم کرنے کے لیے کردار بناتے ہیں اور جب ہم کمرشل مصنف کے طور پر کام کررہے ہوتے ہیں اور اگر ہماری ٹارگٹ آڈیئنس 15 سے 45 سال کی گھریلو خواتین ہیں، جن کی اخلاقیات کا ہمیں اندازہ ہوتا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اُنھیں ایک کلچرل شاک نہ دیا جائے۔‘

ڈیجیٹل پلیٹ فارم فیمنستانی سے مختلف موضوعات پر سیرحاصل گفتگو کرنے والی مصنفہ صباحت زکریا نے ایکس پر لکھاکہ وہ برزخ کو اس کی قابلیت پر جانچنا چاہتی تھیں لیکن پاکستان میں سنسرشپ نے اسے ناممکن بنا دیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’لبرل بندے کو ناگزیر طور پر پاگل ہجوم کے خلاف کھڑا ہونا پڑتا ہے، باقی باتیں تو پیچھے رہ جاتی ہیں۔ پہلے جوائے لینڈ کے ساتھ یہ ہوا اب برزخ۔‘

واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی فلمیں ’جوائے لینڈ‘ اور ’زندگی تماشہ‘ بھی اپنے منفرد موضوعات کی وجہ سے عوامی ردعمل اور پابندیوں کا شکار رہی ہیں۔

بگ باس کی فاتح ثنا مقبول جن کی خوبصورت مسکراہٹ ان کی شناخت ہےغیر ملکی پنجابی فلمیں اور پاکستان: ہر سال چار، پانچ فلموں سے شائقین کی پیاس نہیں بجھ رہیلاہور کا گڑوی محلہ اور اس کے ’بلاک بسٹر‘ گلوکار: ’ہمیں کوئی نہیں سکھاتا، لوگ ہم سے سیکھتے ہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More