عمران خان کی قید کا ایک سال: ’جس بحران کے خاتمے کے لیے انھیں جیل میں بند کیا گیا تھا، وہ ختم نہیں ہوا‘

بی بی سی اردو  |  Aug 06, 2024

Getty Images

پانچ اگست 2023 کی صبح معمول کے مطابق پی ٹی آئی کو کوّر کرنے والے چند رپورٹرز لاہور میں عمران خان کی رہائشگاہ زمان پارک کے باہر موجود تھے۔ مجھے بھی ایک ساتھی رپورٹر کا پیغام آیا کہ زمان پارک آ جائیں کیونکہ پولیس کی غیر معمولی موجودگی سے لگ رہا ہے کہ آج عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

میں نے جواباً پوچھا کہ وہاں کارکنان کتنے ہیں؟ جس پر جواب ملا کہ وہ تو درجن بھر بھی نہیں، جس کے بعد میں زمان پارک کی طرف روانہ ہو گئی جو میرے دفتر سے تقریباً پانچ سے سات منٹ کی دوری پر تھا لیکن جب تک میں وہاں پہنچی تو اس وقت عمران خان کو زمان پارک سے گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا۔

عمران خان کی گرفتاری کا عمل چند منٹ میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ مجھے خاصی حیرانی ہوئی کہ وہ زمان پارک جو کئی مہینوں سے سکیورٹی فورسز کے لیے ’نو گو ایریا‘ بنا ہوا تھا وہاں سے عمران خان کو کتنی آسانی سے پولیس گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

شاید پی ٹی آئی کارکنان اور سپوٹرز نو مئی کے بعد سے خوف کا شکار تھے اور اسی وجہ سے اس دن بھی زمان پارک میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں دیکھی گئی۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس نو مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے بعد تحریکِ انصاف کے مشتعل کارکنوں نے ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ کی تھی جن میں راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹر، لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذر آتش کرنا شامل تھا۔

اس صورتحال کے بعد حکومت اور سکیورٹی اداروں نے ان مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا تاہم عمران خان کو اس گرفتاری کے چند روز بعد سپریم کورٹ نے رہا کر دیا تھا۔

پانچ اگست 2023 کو عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا۔

عمران خان کی ایک سالہ قید نے بہت سے سوالات پیدا کیے ہیں جیسے کہ عمران خان کو قید رکھنے سے کس کو کیا فائدہ ہوا؟ کیا اس عرصے کے دوران عمران خان کی مقبولیت میں کمی آئی اور اس کا انتخابات یا ملکی سیاست پر کیا اثر پڑا؟

BBCعمران خان کی گرفتاری اور جیل میں ایک سال

اس ایک سال کے دوران پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ملک میں عام انتخابات ہوئے، عمران خان کی حریف جماعت مسلم لیگ ن نے اتحادی حکومت بنائی جبکہ ملک کی معاشی اور سکیورٹی صورتحال میں تبدیلیاں آئیں۔

عمران خان کے سیاسی حریف یہی کہتے ہیں کہ وہ قانونی طور پر سزا پانے کے بعد جیل میں ہیں تاہم ایک سوال جو آج بھی پی ٹی آئی سمیت کئی حلقوں کی جانب سے پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ عمران خان کو جیل میں رکھنے سے کس کو کیا فائدہ ہوا؟

صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو چونکہ ملک میں سیاسی و معاشی انتشار کا ذمہ دار سمجھا جا رہا تھا اور اسی بحران کو ختم کرنے کے لیے انھیں جیل میں بند کیا گیا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے جیل میں جانے کے بعد بھی بحران ختم نہیں ہوا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی لیڈر شپ کے لیے جیل کی بندش اس کا سیاسی کردار ختم نہیں کرتی، جب تک آپ سیاسی انداز میں ان سے نہ لڑیں، معاملات حل نہیں ہوتے ہیں۔‘

گذشتہ ایک سال میں کیا عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی؟

رواں برس کے آغاز میں معروف امریکی ویب سائٹ بلوم برگ نے عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین رہنما قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ مقبولیت میں نواز شریف سے آگے ہیں۔‘ اسی طرح گذشتہ سال 2023 کے گیلپ سروے کے مطابق عمران خان پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان تھے۔

یہ ہی نہیں بلکہ عمران خان کے کچھ سیاسی حریف بھی ان کی مقبولت کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔

مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے سابق معاون خصوصی آصف کرمانی نے رواں برس جولائی میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کسی کو اچھا لگے یا برالگے عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ آپ دس چیزیں ان کے خلاف کر لیں سزائیں دے دیں جو بھی کر لیں لیکن عمران خان کے ووٹ بینک کا کیا کریں گے؟‘

تجزیہ کار سلمان غنی اور عاصمہ شیرازی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک مقبول سیاسی لیڈر تھے اور آج بھی ہیں۔‘

تاہم سلمان غنی کے مطابق ’ان کے جیل جانے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا کیونکہ سیاسی لیڈر کا جیل جانا عوام میں اس کے لیے ہمدردی پیدا کرتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’عمران کی مقبولیت اور ان کی پارٹی پر اثر انداز ہونے کے لیے ان کے سیاسی حریف حکومتی جماعت کے لیے ضروری تھا کہ وہ عوام کو ریلیف دیتی۔ پاکستان کی معاشی بحالی ہوتی یا پاکستان آگے کی طرف بڑھتا نظر آتا تو پھر یقیناً عمران خان کی مقبولیت کو کم کیا جا سکتا تھا۔‘

Getty Imagesکیا عمران خان کو جیل میں رکھنے سے سیاسی اور معاشی استحکام آیا؟

اکثر مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال میں عمران خان فوج مخالف بیانیہ بنانے اور سیاسی حریفوں کو سیاسی میدان میں مات دینے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔

اس کی مثال 2024 فروری کے عام انتخابات ہیں جس میں پابندیوں کے باوجود بھی ان کے حامی امیدوار بڑی تعداد میں ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں عمران خان کی گرفتاری سے بہت سے مطلوبہ نتائج حاصل بھی ہوئے مگر کچھ مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ جیسا کہ ایک جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیے ان کی جماعت کو روکنے کی کوشش کامیاب ہونا۔ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لیا جانا اور الیکشن میں ان کی جماعت کو انتخابی نقصان ہونا۔‘

دوسری جانب مسلم ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بیانات کے مطابق عمران خان کی پارٹی کا حکومت نہ بنا پانا ہی ان کی سیاسی شکست ہے۔

تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی خراب کارکردگی کے باعث عمران خان کے جیل جانے کے بعد بھی ان کا سیاسی کردار ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ آج ساری سیاست ان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ’ان کی سیاست کا خاتمہ تب ہوتا جب آپ انھیں سیاسی محاذ پر شکست دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے میرے خیال سے عمران خان کو بند کر کے جو استحکام ملک میں لانا چاہتے تھے وہ نہیں لا پائے۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما آئے روز اپنی پارٹی اور حکومت کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نے اپنی چار سالہ حکومت میں پاکستان کا جی ڈی پی تباہ کر دیا تھا اور جب پاکستان ڈیفالٹ پر پہنچ گیا تو انھوں نے اپنے خلاف سازش کا الزام امریکہ پر لگا دیا۔ ہم تھے جو کھڑے رہے اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔‘

انھوں نے عمران خان اور ان کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری حکومت کےاقتدار میں آنے کے بعد ملکی معیشت کے حوالے سے مثبت اشارے سامنے آرہے ہیں اور ایک عمران خان کا دور تھا جس میں بہت سے دوست ممالک کو ناراض کیا گیا اور معیشت خراب ہوئی۔‘

عاصمہ شیرازی اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’معیشت کے اعداد و شمار جو بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ عام آدمی تک ریلیف نہیں پہنچا۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ معیشت کے اشاریے بہتر ضرور ہوئے لیکن پاکستان کے معاشی حالات کا ذمہ دار ایک سیاسی جماعت کو قصوروار بنا دینا نامناسب ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیےعمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘'اکرم نے دھوکا دے دیا': جب توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا سُنائی گئیعمران خان اور پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ Getty Imagesکیا عمران خان کو جیل میں بند کرنے سے ان کی پارٹی کو نقصان پہنچا؟

نو مئی کے واقعات اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد بہت سے پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔گذشتہ ایک سال میں پی ٹی آئی سے کئی پرانے چہرے غائب ہوئے اور کئی نئے چہرے سامنے آنے۔

اسی دوران تحریک انصاف کے انڑا پارٹی انتخابات کا معاملہ بھی عدالت میں زیر سماعت رہا اور الیکشن سے قبل پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان بھی واپس لے لیا گیا اور پارٹی کے امیدواران کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑا۔

عمران خان کے سیاسی حریف بار بار ان کی پارٹی کو نشانہ بناتے رہے اور مختلف بیانات میں پی ٹی آئی میں تقسیم، پارٹی بیانیے میں کمزوری اور پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک کی باتیں کرتے دکھائی دیے۔

رواں برس جولائی میں سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا گیا تو اس دن پی ٹی آئی کے سابق رکن و سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ’آج کے فیصلے کے 15 دن بعد پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنے گا۔‘

اسی طرح مارچ 2024 میں جب امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں امریکہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے حکومت گرائے جانے میں امریکی مداخلت کے الزامات کو یکسر مسترد کیا تو مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ ڈونلڈ لو کے سچ نے پی ٹی آئی کا جھوٹا بیانیہ دفن کر دیا۔‘

اس بارے میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو ان سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ ہی اپنی پارٹی کو مضبوط بننے نہیں دیتی۔ وہ ساری سیاست کو اپنی ذات کے گرد گھمانے کی کوشش کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ بھی پارٹی سے زیادہ لیڈر شپ کو اہم سمجھتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ گذشتہ دو برس کے دوران عمران خان پارٹی کے لیے سیاسی کیس بنانے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن نے اپنی سیاست کو ایک خطرناک دور میں داخل کر لیا۔ وہ ڈیلیور کرنے والے جماعت سمجھی جاتی تھی جو ابھی تک عوام کو ریلف نہیں دے پا رہی۔ اسی لیے آج آپ کو عوامی سطح پر نواز شریف بھی نظر نہیں آرہے۔

کیا عمران خان کو جیل میں رکھنے سے فوج مخالف جذبات میں کمی آئی؟

رواں برس سات مئی کو ایک بار پھر پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے فوج کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نو مئی کو عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، نو مئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہو گی جبکہ گذشتہ روز بھی پریس کانفرنس میں پوچھے گئے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ نو مئی سے متعلق فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ آئے گی۔

گذشتہ روز ہی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نو مئی کے کیسز کے فیصلے جیسے ہونے چاہیے تھے نہیں ہو رہے، 9 مئی میں ملوث افراد کو آج بھی قانون کا سہارا مل رہا ہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کا کوئی چانس نہیں کہ نو مئی کو بھولا جا سکے، ایک گروہ نے منظم سازش کے تحت بغاوت برپا کی اور وہ ناکام ہو گئی، وہ بغاوت افواج پاکستان کے اتحاد کے خلاف تھی، وہ بغاوت ایک شخص نے برپا کی جو اپنا اقتدار کھو چکا تھا۔‘

نو مئی کے واقعات کے بعد یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ شاید فوج مخالف جذبات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں یہ واقعات رونما ہوئے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر میں اس حقیقت کو استعمال کیا لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے جتنا اسٹیبلشمنٹ کو نقصان پہنچایا، کسی نے نہیں پہنچایا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ عوام جب بھی اپنے مسائل پر نظر ڈالتی ہے تو سیاسی کرداروں سے زیادہ ان کرداروں کو اقتدار میں لانے والوں پر غصہ کرتی ہے۔ اس پر فوج کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے۔‘

عاصمہ شیرازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا اور فوج کی مداخلت ہوئی تو اس بات پر عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔

’اس مخصوص معاملے پر تو ڈی جی آئی ایس پی آر کو باقاعدہ ٹی وی پر آ کر کہنا پڑا کہ ہمارا سیاست میں کوئی کردار نہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ سیاست میں فوج کے کردار پر ہر سیاسی جماعت کو اعتراض ہے اور اس معاملے میں فوج کے حوالے سے جذبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

کیا عمران خان جلد جیل سے رہائی پا سکیں گے؟

اس سوال کے جواب پر سیاسی تجزیہ کاروں، پی ٹی آئی رہنماؤں اور عمران خان کی بہن کی بھی رائے ایک ہی ہے۔

عمران خان کی بہن عالیمہ خان نے عدت کیس کی پیشی کے موقع پر دیے ایک بیان میں کہا کہ تھا کہ ’ہمیں پتہ ہے کہ یہ لوگ عمران خان کو رہا نہیں کرنا چاہتے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ ہمھیں انصاف کب تک ملے گا۔ عمران خان کے خلاف کیسز میں کچھ بھی نہیں۔ یہ صرف ان کے ہتھکنڈے ہیں۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’کسی بھی سیاسی لیڈر کو زیادہ دیر تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک نہ ایک دن وہ باہر آئیں گے لیکن ابھی جلدی ان کے باہرآنے کی امید خاصی کم ہے۔‘

عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کا کارکن کیا سوچ رہا ہے: ’ٹویٹ کرنا چھوڑا ہے حمایت نہیں‘عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا ایک سال: سیاسی میدان میں کس نےکیا کھویا اورکیا پایا؟عمران خان: ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ہی مجھے سزا دلوانا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More